علامۃ العصر ترجمان حقیقت ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال مدظلہٗ کے آباؤ اجداد کشمیری پنڈت تھے. جن کی گوت “سپرو” تھی وہ ایک باکمال ولی اللہ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے تھے اور اس ولی کا روحانی تصرف آج تک ان کے خاندان میں چلا آتا ہے اور وہ حسنِ عقیدت جس نے سپرو کو شیخ بنا دیا، ہنوز تازہ ہے. اقبال نے خود بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے. 

مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی
برہن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است

اسی لیے اقبال کو کشمیر اور کشمیریوں دونوں سے قدرتی طور پر لگاؤ ہے چنانچہ ان کے کلام میں دونوں کے متعلق رموز و نکات موجود ہیں. مثلا:

کشیری کہ بابندگی خوگرفتہ
بتے می تراشد ز سنگ مزارے

ڈاکٹر صاحب ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۷ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے تھے. والدین نے اقبال نام رکھا ٭ میرا خیال ہے اس وقت کس کو یہ خیال ہوگا کہ آئندہ چل کر یہ لڑکا واقعی صاحب اقبال ہوگا اور ایک مثنوی ایسی لکھ کر دنیا کو دے جائے گا، جس کی قدر و قیمت قیامت تک باقی رہے گی. ٭ حاشیہ کے لیے صفحہ ۱۰۳ ملاحظہ فرمائیے. قارئین کی سہولت کے پیش نظر تمام حواشی ان مضامین کے اختتام پر جمع کردیے گئے ہیں. ابتداء! مکتب میں داخل ہوئے اس کے بعد سکول میں نام لکھا یا اور مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک پاس کرکے مقامی (مرے کالج) میں داخل ہوئے. یہاں آپ کو شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب ۲؎ کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا. استاد کو جوہر قابل ہاتھ لگ گیا. فیض صحبت سے چمکا دیا، ادب اور شاعری کا صحیح مذاق پیدا کردیا. یہ سچ ہے کہ شاعری کا ملکہ فطری طور پر ودیعت شدہ تھا. لیکن مولانا کی صحبت نے سونے پر سہاگہ کا کام دیا. 

غالباً شاعری کی ابتدا اسی زمانہ سے ہوئی. افسوس کہ ابتدائی کلام النادر کالمعدوم کا مصداق ہے.
ایف اے پاس کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے. فلسفہ اور عربی لے کر بی اے پاس کیا. 

۱۸۹۹ء میں فلسفہ میں ایم اے پاس کیا. اس امر کے اظہار کی چنداں ضرورت نہیں کہ علامہ موصوف شروع سے آخر تک ہم چشموں میں معروف اور ممتاز رہے. 

اسی سال آپ اورینٹل کالج لاہور میں فلسفہ اور اقتصادیات کے لیکچرار مقرر ہوئے. دوسرے سال گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ اور انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوگئے. 

جس طرح ابتدا میں مولانا میر حسن نے، اسی طرح طالب علمی کے آخری دور میں ڈاکٹر آرنلڈ 
۳؎ کی صحبت نے آپ کی مخفی قوتوں کو بیدار کردیا اور سونے کو کندن بنا دیا . پہلے شاگردی تھی ، کچھ عرصہ کے بعد دوستی کا سلسلہ قائم ہوگیا جو مدۃ العمر باقی رہا. آرنلڈ اپنے شاگرد کی جودتِ طبع کے معترف تھے. ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ “جس استاد کو اقبال سا شاگرد میسر آجائے، وہ رفتہ رفتہ محقق بن جاتا ہے”.
ایم اے پاس کرنے کے بعد بھی آپ کے مطالعہ اور علمی مشاغل میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ اور زیادتی ہوگئی. اسی اثنا میں آپ نے اقتصادیات پر ایک کتاب بھی لکھی تھی. 

۱۹۰۵ء میں آپ ولایت تشریف لے گئے 
۴؎ . کیمبرج سے فلسفہ اخلاق میں ڈگری لی. اس کے بعد میونخ سے DEVELOPMENT OF METAPHYSICS IN PERSIA لکھنے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی پھر لندن واپس آئے. بیرسٹری پاس کی اور ڈاکٹر آرنلڈ کی غیر حاضر ی میں چھ ماہ تک ان کے قائم مقام کی حیثیت سے لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی رہے. 

تین سال قیام کرنے کے بعد ۲۷ جولائی ۱۹۰۸ء کو بروز دو شنبہ شام کی گاڑی سے لاہور واپس آئے. دورانِ قیام انگلستان میں آپ کو مشاہیر علماء اور فضلاء کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقعہ ملا. ان میں کیمبرج کے ڈاکٹر میک ٹیگرٹ ، 
۵؎ ڈاکٹر براؤن ۶؎ ،ڈاکٹر نکلسن ۷؎ اور ڈاکٹر سارے۸؎ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں. 

کچھ دن وطن میں قیام کرنے کے بعد آپ نے لاہور میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرلی. پہلے انار کلی میں رہائش تھی. اب ایک عرصہ سے میکلوڈ روڈ پر قیام 
۹؎ ہے.. اقبال کی وجہ سے مجھے اس سڑک سے وہی وابستگی ہے . جو مجنوں کو کوئے لیلی سے تھی. 
۱۹۳۳ء میں جاوید منزل.... ۱۹۳۸ء میں وفات .

اگرچہ ڈاکٹر صاحب ۱۹۰۸ء سے پریکٹس کرتے ہیں. لیکن میرا خیال ہے کہ انہیں اس پیشہ سے کوئی خاص دلچسپی کبھی نہیں ہوئی. اور ہوتی بھی کیونکر. جو شخص دن رات کسی دوسرے عالم میں رہتا ہو اور شاعرانہ دل و دماغ، فلسفیانہ مزاج، صوفیانہ افتادِ طبع اور عالمانہ طرز زندگی رکھتا ہو، جو VISIONARY IDEALIST ہو. جس کی توجہ تمام تر ملت اسلامیہ کی بہبود پر مبذول رہتی ہو. جس کے دل میں قوم کا درد رہ رہ کر چٹکیاں لیتا ہو جو سراپا سوز و گداز ہو جس کا بہت سا وقت EGO اور REALITY کے متعلق غور و فکر میں بسر ہوتا ہو. جو اسرارِ خودی کا مصنف ہو اسے “نظائر دیوانی”اور “امثلہ فوجداری”سے کیا خاک دلچسپی ہوسکتی ہے؟ 

۱۹۳۳ء میں سرکار برطانیہ نے آپ کو 
SIR کا خطاب دیا . ڈاکٹر صاحب نے کبھی خطابات یا اعزازات کے لیے خواہش یا کوشش نہیں کی اور نہ وہ اس خطاب کو کسیخاص قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں. ان کے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کسی دوسری دنیا میں رہتے ہیں جہاں SIR اور SERVANT دونوں یکساں نظر آتے ہیں ؎

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے