علامہ موصوف کو دیکھنے اور ان کی صحبت سے مستفید ہونے کا بارہا شرف حاصل ہوچکا ہے ۱۰؎. اس لیے جو کچھ لکھتا ہوں وہ میرے ذاتی خیالات ہیں. ان سے مل کر جو نقوش دل پر جم چکے ہیں انہیں الفاظ کا جامہ پہناتا ہوں. 

پہلی بات جو ہر شخص کو متاثر کرتی ہے وہ ان کی عدیم النظیر سادگی ہے. سادہ لباس، سادہ رہائش، سادہ زندگی، سادہ گفتگو غرضیکہ ہر بات سے سادگی ٹپکتی ہے. لیکن دماغ ہر وقت 
آسمان کے تارے توڑ کر لاتا رہتا ہے. اسی کو انگریزی میں کہتے ہیں PLAIN LIVING AND HIGH THINKING 
دوسری بات یہ ہے کہ علامہ کا در فیض ہر کس و ناکس کے لیے آٹھوں پہر کھلا رہتا ہے. اگر نائٹوں اور خان بہادروں کو بآسانی باریابی ہوجاتی ہے تو ہم جیسے خاک نشین بھی بے دھڑک السلام علیکم کہہ کر خوان علم و فضل کی زلہ ربائی کا شرف حاصل کرلیتے ہیں “صاحب”کے پاس کارڈ بھیجنے کی ضرورت نہیں.
تیسری بات یہ ہے کہ وہ شہرت سے مستغنی ہیں. اگر وہ آجکل کے مروج اصول “پروپاغندا” کو استعمال کرتے، تو بہت شہرت حاصل کرلیتے. ان کا وقت زیادہ تر ملت اسلامیہ کی بہبود کی تدابیر سوچنے میں بسر ہوتا ہے. شہرت اور منزلت یوں بھی کچھ کم نہیں ہے. وہ بلاشبہ بین الاقوامی شہرت اور منزلت کے آدمی ہیں. ایشیاء، یورپ ، افریقہ اور امریکہ ، اقبال کے مداح کہاں نہیں ہیں؟ ؏ 

شہرت شعرش بگیتی بعد او خواہد شدن

چوتھی بات یہ ہے کہ اقبال اپنے سینہ میں سوز و گداز سے لبریز دل رکھتے ہیں. میں نے بارہا دیکھا ہے کہ کسی نکتہ کو سمجھاتے سمجھاتے بے اختیار آبدیدہ ہوجاتے ہیں. سرکار دو عالم  سے جو عشق ہے اس کی نظیر ابھی تک تو کسی “گیسودراز”میں دیکھی نہیں!!!

یوں تو ہر شاعر پرکیف ہوتا ہے. سوز و گداز سے لبریز ہوتا ہے. لیکن اقبال سوزِ عشق مصطفٰے سے مالا مال ہیں اسی لیے مجھے ان سے ایک عجیب والہانہ عقیدت ہے. 
حب رسول کے لیے نہ ٹخنوں سے اونچا پاجامہ چاہیے نہ طویل اللحیہ اور قصیر الشارب ہونے کی ضرورت ہے. صرف درد آشنا دل درکار ہے 
۱۱؎. 
پانچویں بات یہ ہے کہ وہ تنہائی پسند اور عزلت گزیں ہیں اور ایک مفکر کے لیے یہ بات عجیب و غریب نہیں. 

علامہ موصوف کو اپنی والدہ مرحومہ سے بہت الفت تھی اور میری ان سے عقیدت کی یہ دوسری وجہ ہے کیونکہ اگر اسلام میں خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں خود اپنی والدہ کی پرستش کرتا انہوں نے “والدہ مرحومہ کی یاد میں”جو نظم لکھی ہے وہ ان کے جذبات محبت کی قدرے ترجمانی کرتا ہے.