جو انہوں نے نکلس کی فرمائش پر خود تحریر فرمایا


ترجمہ: پروفیسر یوسف سلیم چشتی
ہر موجود میں انفرادیت پائی جاتی ہے. حیات تمام و کمال انفرادی ہے. خود خدا بھی اک فرد ہے. اگرچہ فرد کامل ہے. کائنالت افراد کے مجموعہ کا نام ہے. لیکن مجموعہ میں جو نظم و نسق اور توافق و تطابق پایا جاتا ہے وہ بذاتہٖ کامل نہیں ہے. اور جو کچھ بھی ہے وہ افراد کی جبلی کوششوں کا نتیجہ ہے. ہمارا قدم تدریجی طور پر بدنظمی اور انتشار سے نظم و ترتیب کی طرف اٹھ رہا ہے. افرادِ کائنات کی تعداد معین نہیں ہے. اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے. یعنی کائنات فعل مختتم نہیں ہے. ہنوز مراتب تکمیل طے کر رہی ہے اسی لیے اس کے متعلق کوئی بات حتمی اور اذعانی طور پر نہیں کہی جا سکتی. فعل تخلیق ہنوز جاری ہے اور جس حد تک انسان اس کائنات کے کسی غیر مربوط حصہ میں ربط و ترتیب پیدا کرسکتا ہے اس حد تک اس کو بھی فعلِ تخلیق میں معاون قرار دیا جا سکتا ہے. خود قرآن مجید میں خدا کے علاوہ دوسرے خالقوں کے امکان کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں. “فتبارک اللہ احسن الخالقین” 

ظاہر ہے کہ کائنات اور انسان کے متعلق یہ نظریہ ہیگل اور اس کے ہم خیالوں اور ارباب وحدت الوجود سے بالکل مختلف ہے جن کے خیال میں انسان کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ خدایا حیات کلی میں جذب ہوجائے اور اپنی انفرادی ہستی مٹادے.

میری رائے میں انسان کا اخلاقی اور مذہبی منتہائے مقصود یہ نہیں کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دے. یا اپنی خودی کو فنا کردے بلکہ یہ کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو قائم رکھے اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر بیش از بیش انفرادیت پیدا کرے. آنحضرت  نے فرمایا ہے: 
“تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ”یعنی اپنے اندر صفاتِ الہیہ پیدا کرو. پس انسان جس قدر خدا سے مشابہ ہوگا. اسی قدر اس کے اندر شان یکتائی اور رنگ انفرادیت پیدا ہوتا چلا جائے گا. 

حیات کیا ہے؟ فرد کا دوسرا نام حیات ہے اور فرد کی اعلیٰ ترین صورت، جو اس وقت تک معلوم ہوسکی ہے خود 
(EGO) ہے. اگرچہ جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے انسان ایک مستقل بالذات مرکز ہے. لیکن ابھی تک فردِ کامل کے مرتبہ کو نہیں پہنچا. فرد جس قدر خدا سے قریب ہوگا. اسی قدر کامل ہوگا. قربِ الہی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خدا کی ذات میں فنا ہوجائے، بلکہ اس کے برعکس یہ کہ خدا کو اپنے اندر جذب کرلے. حیات در اصل اک ترقی کرنے اور کائنات کو اپنے اندر جذب کرنے والی حرکت کا نام ہے. جو رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ان پر غلبہ پا کر آگے بڑھتی ہے. حیات کا خاصہ یا جوہر طبعی یہ ہے کہ مسلسل نئی آرزوئیں پیدا کرتی رہتی ہے. اپنی حفاظت اور ترقی کے لیے اس نے آلات اور وسائل پیدا کرلیے ہیں. مثلاً حواس اور ادراک جن کی بدولت وہ مشکلات پر غالب آتی ہے. مادہ حیات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن مادہ کوئی بری چیز نہیں. بلکہ حیات کے حق میں مفید ہے کیونکہ اسی وجہ سے حیات کو اپنی مخفی قوتوں کے بروئے کار لانے کا موقع ملتا ہے. 
جب حیات یا خودی مشکلات پر غالب آجاتی ہے تو مرتبۂ جبر سے مرتبۂ اختیار پر فائز ہوجاتی ہے. خودی ایک حد تک مجبور ہے ایک حد تک مختار. اسی لیے حدیث میں آتا ہے “الایمان بین الجبر والاختیار” حیات جب تقرب الہی حاصل کرلیتی ہے تو اختیار کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر پہنچ جاتی ہے. مختصر یہ کہ حیات یا خودی، مرتبہ جبر سے مرتبہ اختیار تک پہنچنے کا نام ہے. 

جب حیات انسانیت کا جامہ اختیار کرلیتی ہے تو اس کا نام ایغو یا شخص یا خودی ہو جاتا ہے اور شخصیت جدوجہد کی مسلسل حالت سے عبارت ہے. شخصیت کا قیام اسی حالت کے تسلسل پر منحصر ہے اگر یہ حالت قائم نہ رہے تو لامحالہ تعطل یا ضعف کی حالت طاری ہوجائے گی اور یہ بات خودی کے حق میں سمّ قاتل ہے... شخصیت 
(PERSONALITY) چونکہ انسان کا سب سے بڑا کمال ہے اس لیے اس کا فرض اولین یہ ہے کہ وہ اس جوہر بے بہا کو مسلسل سرگرم عمل رکھے اور وہ عمل ایسا ہو کہ خودی کی ترقی کا باعث ہو. اسی کو مذہب کی اصطلاح میں “عمل صالح” کہتے ہیں. اسی لیے قرآن میں بار بار اس کی تاکید آئی ہے. 

مسلسل جدوجہد ہی زندگی ہے (؏ دوامِ ما زسوز نا تمام است) جو شے شخصیت کو پیہم جدوجہد کی طرف راغب کرتی ہے وہ دراصل ہمیں بقائے دوام کے حصول میں مدد دیتی ہے اس لیے حسن یا اچھی ہے اور جو شے شخصیت کو ضعیف یا معطل کرے وہ بری ہے. گویا ہماری شخصیت جملہ اشیائے کائنات کے حسن و قبح کا معیار ہے. مذہب، اخلاق اور آرٹ سب کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے

PERSONALITY AS THE CRITERION OF VALUE

میں نے افلاطون کے فلسفہ پر جو تنقید کی ہے اس سے میرا مطلب ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید ہے جو بقا کے عوض فنا کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں. یہ مذاہب انسان کو بزدلی سکھاتے ہیں. ان مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ مادہ کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس سے گریز کرنا چاہیے. حالانکہ انسانیت کا جوہر یہ ہے کہ انسان مخالف قوتوں کا مرداونہ وار مقابلہ کرے اور انہیں اپنا خادم بنا لے. اس وقت انسان “خلیفۃ اللہ”کے مرتبے تک پہنچ جائے گا.

جس طرح خودی کو مرتبۂاختیار پر فائز کرنے کے لیے ہمیں “مادہ” پر غالب آنا ضروری ہے، اسی طرح اسے غیر فانی بنانے کے لیے ہمیں ”زمانہ” پر غالب آنا لازمی ہے. مرتبۂ بقا وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے اور اس کا حصول ہمارے افکار و اعمال کے ان طریقوں پر منحصر ہے جو خودی کی حالتِ کاوش پیہم کو برقرار رکھ سکیں. بدھ مذہب اور ایرانی تصوّف اس حالت کے لیے مفید نہیں ہیں.
اگر خودی کی حالتِ کاوش برقرار رہے تو گمان غالب یہ ہے کہ موت کا صدمہ ہماری خودی کو متاثر نہیں کرسکتا. ممکن ہے کہ موت موجودہ زندگی اور آئندہ زندگی کے درمیان ایک وقفہ سکون ہو جسے قرآن شریف عالمِ برزخ سے تعبیر کرتا ہے. موت کا صدمہ صرف وہ افراد برداشت کرسکیں گے جنہوں نے اس زندگی میں اپنی خودی کو پختہ کرلیا ہوگا. 

اگرچہ حیات اپنے ارتقائی منازل میں اعادہ اور تکرار کو پسند نہیں کرتی تاہم جیسا کہ ولڈن کار نے لکھا ہے حشرِ اجساد بھی عین قرینِ عقل ہے. زمانہ کو لمحات میں تقسیم کردینے سے ہم اسے مکان سے وابستہ کرسکتے ہیں اور اسی لیے اس کو عبور کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں. 
زمانہ کی حقیقت اس وقت آشکارا ہوسکتی ہے جب ہم اپنی ذات میں غوطہ زنی کریں کیونکہ حقیقی زمانہ خود ہماری حیات ہی ہے. ہم زمانہ کے محکوم اسی وقت تک ہیں جب تک زمانہ کو مکان سے وابستہ سمجھتے ہیں. مقید بالمکان زمانہ، اس زنجیر سے مشابہ ہے جس کو کسی شخص نے اپنے گرد لپیٹ لیا ہو. اس زمانہ کو حیات نے اپنے گرد اس لیے لپیٹ لیا ہے تاکہ موجودہ ماحول کو اپنے اندر جذب کرسکے. دراصل ہم غیر زمانی ہیں. اور موجودہ مقیّد بالزمان زندگی میں بھی، کبھی کبھی 
ہمیں اپنے غیر زمانی ہونے کا احساس ہوسکتا ہے. اگرچہ یہ بالکل ’آنی‘ ہوگا. 

خودی میں عشق سے پختگی پیدا ہوتی ہے. عشق کے معنی ہیں کسی چیز کو اپنے اندر جذب کرنا یا جزو ذات بنانا. عشق کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ ایک نصب العین اپنے سامنے رکھا جائے. عشق کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عاشق اور معشوق دونوں میں شان انفرادیت پیدا کردیتا ہے.
 
جس طرح عشوق سے خودی میں پختگی اور توانائی آتی ہے سوال سے ضعف اور نقص پیدا ہوتا ہے. جو بات تمہیں ذاتی کوششوں کے بغیر حاصل ہوجائے وہ سوال کے ذیل میں آتی ہے. چنانچہ جو شخص باپ کے ترکہ سے دولت مند بنتا ہے وہ در اصل سائلِ یعنی گدا ہے. جو شخص دوسروں کے خیالات کو مدار فکر بناتا ہے، وہ بھی سائل ہے ؎

خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے 
مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی

عشق کس طرح کرنا چاہیے؟ اس کا جواب ایک مسلمان کے لیے آنحضرت  کی زندگی میں موجود ہے. اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ” آپ نے اپنے طرز عمل سے دکھا دیا کہ عشق اس طرح کرتے ہیں. پس مسلمانوں کو آنحضرت کا اسوہ حسنہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے. 

ہر کہ عشقِ مصطفٰے سامانِ اوست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست

تربیتِ خودی کے تین مراحل ہیں. (۱). دستورِ الہی کی اطاعت. (۲). ضبط نفس (۳). نیابتِ الہی. 

نیابتِ الہی، دنیا میں انسانی ارتقا کی آخری منزل ہے. جو شخص اس منزل پر پہنچ جاتا ہے وہ اس دنیا میں خلیفۃ اللہ ہوتا ہے. وہ کامل خودی کا مالک اور انسانیت کا منتہائے مقصود اور روح اور جسم دونوں کے لحاظ سے حیات کا بلند ترین مظہر ہوتا ہے. یعنی اس کی زندگی میں آ کر حیات اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ جاتی ہے. کائنات کے پیچیدہ مسائل اس کی نظر میں سہل معلوم ہوتے ہیں. وہ اعلیٰ ترین قوت اور برترین علم دونوں کا حامل ہوتا ہے اس کی زندگی میں فکر اور 
علم، جبلت اور ادراک سب ایک ہوجاتے ہیں.

چونکہ وہ سب کے آخر میں ظاہر ہوگا اس لیے وہ تمام صعوبتیں جو انسانیت کو ارتقائی منازل طے کرنے میں لاحق ہوتی ہیں بر محل ہیں. اس کے ظہور کی پہلی شرط یہ ہے کہ بنی نوع آدم جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے ترقی یافتہ ہوجائیں. فی الحال اس کا وجود خارج میں موجود نہیں. لیکن انسانیت کی تدریجی ترقی اس امر کی دلیل ہے کہ زمانہ آئندہ میں افرادِ کاملہ کی ایسی نسل پیدا ہوجائے گی، جو حقیقی معنوں میں نیابتِ الہی کی اہل ہوگی. 

زمین پر خدا کی بادشاہت کے یہ معنی ہیں کہ یہاں یکتا افراد کی جماعت جمہوری رنگ میں قائم ہوجائے ان کا صدر اعلی وہ شخص ہوگا جو ان سب پر فائق ہوگا اور اس کا نظیر دنیا میں نہ مل سکے گا. 

نیٹشے نے بھی اپنے تخیل میں افراد یکتا کی ایسی جماعت کی ایک جھلک دیکھی تھی. لیکن اس کے نسلی تعصب نے اس تصویر کو بھونڈا کردیا.