’اسرارِ خودی‘ کے مباحث عالیہ کا مختصر خاکہ

علامہ نے اپنے فلسفہ کی جو تشریح فرمائی ہے اس پر اضافہ کرنا میری لیاقت سے باہر ہے. لیکن میں ناظرین کی آگاہی کے لیے اسرار خودی کے مباحث کا خلاصہ بیان کرتا ہوں تاکہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے.

(۱). شاعری علامہ کے لیے مقصود بالذات نہیں ہے. ذریعۂ اظہارِ خیالات ہے. لکھتے ہیں:
شاعری ز یں مثنوی مقصود نیست بت پرستی گری مقصود نیست
۱۲؎

پس جو لوگ اقبال کو محض شاعر تصوّر کرتے ہیں اور اس کے کلام کو عروضی قواعد پر پرکھتے ہیں، حقیقت سے نا آشنا ہیں. اقبال شاعر نہیں ”پیغام گو” ہے.

(۲). خودی اصلِ نظام عالم ہے اور تسلسل حیات استحکام خودی پر منحصر ہے. کائنات کی ہر شے میں ”خودی” موجود ہے.
چوں حیاتِ عالم از زورِ خودی است پس بقدرِ استواری زندگی است
۱۳؎
قطرہ چوں حرفِ خودی از برکند ہستئ بے مایہ را گوہر کند
۱۴؎

(۳). خودی کی حیات و بقاء تخلیق و تولید مقاصد پر منحصر ہے جس خودی (شخص) کے سامنے کوئی نصب العین نہیں وہ مردہ ہے اس کا عدم و وجود برابر ہے. 
زندگی در جستجو پوشیدہ است اصلِ او در آرزو پوشیدہ است
۱۵؎
دل ز سوزِ آرزو گیرو حیات غیرِ حق میرد چو او گیرد حیات
۱۶؎
زندہ را نفئ تمنا مردہ کرد شعلہ را نقصانِ سوز افسردہ کرد
۱۷؎
علم از سامانِ حفظ زندگی است علم از اسبابِ تقویمِ خودی است
۱۸؎

(۴). خودی عشق سے مستحکم ہوتی ہے.
از محبت می شود پایندہ تر زندہ تر سو زندہ تر تابندہ تر
۱۹؎
عشق را از تیغ و خنجر باک نیست اصلِ عشق از آب و بادہ و خاک نیست
۲۰؎ 
خاک نجد از فیض او چالاک شد آمد اندر و جد و بر افلاک شد
۲۱؎

(۵). عشق کا طریقہ محمد عربی سے سیکھنا چاہیے.
در دل مسلم مقامِ مصطفٰے است آبروئے ما زنامِ مصطفٰے است
۲۲؎
آنکہ بر اعداء درِ رحمت کشاد مکہ را پیغامِ لا تثریبَ دادا
۲۳؎
امتیازاتِ نسب را پاک سوخت آتشِ او ایں خس و خاشاک سوخت
۲۴؎
چوں گلِ صد برگ مارا بویکیست اوست جانِ ایں نظام واویکیست
۲۵؎

(۶). بغیر آپ کی اتباع کے خودی مرتبۂ کمال کو نہیں پہنچ سکتی.
عاشقی محکم شو از تقلیدِ یار تا کمندِ تو کند یزداں شکار
۲۶؎
تا خدائے کعبہ بنوازد ترا شرحِ انی جاعلٌ سازد ترا
۲۷؎ 

(۷). خودی سوال سے یعنی دوسروں کی نقالی کرنے سے ضعیف ہوجاتی ہے اور ترقی نہیں کرسکتی. 
خود فرود آ از شتر مثلِ عمررضی اللہ عنہ الحذر از منتِ غیر الحذر
۲۸؎ 
رزقِ خویش از نعمتِ دیگر مجو موجِ آب از چشمۂ خاور مجو
۲۹؎
تا نباشی پیشِ پیغمبر خجل روز فردائے کہ باشد جاں گسل
۳۰؎ 
ہمت از حق خواہ و باگردوں ستیز آبروئے ملت بیضا مریز
۳۱؎ 

(۸). جب خودی عشق و محبت سے مستحکم ہوجاتی ہے تو نظام عالم کو مسخر کرلیتی ہے. 
پنجۂ او پنجۂ حق می شود ماہ از انگشتِ او شوق می شود
۳۲؎ 
در خصوماتِ جہاں گردد حکم تابعِ فرمانِ او دارا و جم
۳۳؎ 

(۹). مسئلہ نفئ خودی اقوام مغلوبہ کی ایجاد ہے جس کی وجہ سے اقوام غالبہ کے قویٰ ضعیف ہوجاتے ہیں اس لیے اس مسئلہ سے احتراز کرنا لازم ہے. یہ مسئلہ ہلاکت کا پیش خیمہ ہے. 
صد مرض پیدا شد از بے ہمتی کوتہ دستی، بے دلی، دوں فطرتی
۳۴؎

(۱۰). افلاطون کے خیالات سے احتراز کرنا واجب ہے کیونکہ اس نے ترکِ عمل کی تعلیم دی ہے اور یہ بات خودی کے لیے مضر ہے. 
بسکہ از ذوقِ عمل محروم بود جانِ او وارفتہ معدوم بود
۳۵؎
منکرِ ہنگامۂ موجود گشت خالق اعیانِ نا مشہود گشت
۳۶؎
قومہا از سکر، او مسموم گشت خفت و از ذوقِ عمل محروم گشت
۳۷؎

(۱۱). ادبیاتِ اسلامیہ بھی مثل دیگر شعبوں کے محتاج اصلاح ہیں. شعراء اور ادباء کو چاہیے کہ ایسے مضامین سپرد قلم کریں جن سے قوم کی مردہ رگوں میں حرکت پیدا ہو. 

اے میانِ کیسہ ات نقدِ سخن برعیارِ زندگی او را بزن
۳۸؎
فکرِ روشن بیں عمل را رہبر است چوں درخشِ برق پیش از تندراست
۳۹؎
فکرِ صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت
۴۰؎ 

(۱۲). تربیتِ خودی کے تین مراحل ہیں. اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الہیہ.