نائبِ حق ہمچو جانِ عالم است ہستئ او ظل اسمِ اعظم است
۴۸؎ 
از رموز جزو و کل آگہ بود در جہاں قائم بامر اللہ بود
۴۹؎ 
نوعِ انساں را بشیر و ہم نذیر ہم سپاہی ہم سپہ گر ہم امیر
۵۰؎ 
مدعائے علم الاسما ستے سرِّ سبحان الذی اسرا ستے
۵۱؎ 
ذاتِ او توجیہہ ذاتِ عالم است از جلالِ او نجاتِ عالم است
۵۲؎ (۱۳). حیاتِ ملی کا تسلسل، روایاتِ ملیہ کی حفاظت و مداومت پر موقوف ہے. جو قوم اپنی ملی روایات سے بے خبر ہوجاتی ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے. پس مسلمانوں کو اپنی ثقافتی روایات پر قائم رہنا چاہیے.
اے امانت دارِ تہذیبِ کہن پشتِ پا بر مسلکِ آبا مزن
۵۳؎
(۱۴). مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور جہاد کا مقصود اگر تسخیر ممالک ہو تو وہ اسلام میں حرام ہے. 
طبعِ مسلم از محبت قاہر است مسلم ار عاشق نباشد کافر است
۵۴؎
تابعِ حق دیدنش نا دیدنش خوردنش، نوشیدنش، خوابید نش
۵۵؎
قربِ حق از ہر عمل مقصود وار تا ز تو گردد جلالش آشکار
۵۶؎
ہر کہ خنجر بہرِ غیر اللہ کشید تیغ او برسینۂ او آرمید
۵۷؎
زندگی از طوفِ دیگر رستن است خویش را بیت الحرم دانستن است
۵۸؎ 
۱۵). موجودہ عقل و خرد اور تہذیب در اصل جہالت اور سفاہت ہے. مسلمانوں کو اس مادی تمدن اور مغربی تہذیب سے بچنا چاہیے کیونکہ اس کی بنیاد غیر اللہ پر قائم ہے اور اس لیے کمزور ہے. 
علمِ مسلم کامل از سوزِ دل است معنئ اسلام ترکِ آفل است
۵۹؎
سوزِ عشق از دانشِ حاضر مجوے کیفِ حق از جامِ ایں کافر مجوے
۶۰؎
دانشِ حاضر حجابِ اکبر است بت پرست و بت فروش و بتگر است
۶۱؎
(۱۶). وقت (TIME) پر وہی شخص حکمران ہوسکتا ہے. جو اپنی خودی سے واقف ہو. 
چنانچہ مرشد رومی کہتے ہیں:
ہر کہ عاشق شد جمالِ ذات را اوست سید جملہ موجودات را
۶۲؎
امام شافعی نے وقت کو سیفِ قاطع قرار دیا ہے. وقت در اصل حیات ہے اور کوئی شخص حیات کو وقت سے جدا کرکے سمجھ بھی نہیں سکتا. 
من چہ گویم سر ایں شمشیر چیست آب او سرمایہ دار از زند گیست
۶۳؎
پنجۂ حیدر کہ خیبر گیر بود قوتِ او از ہمیں شمشیر بود
۶۴؎ 
تو کہ از اصل زماں آگہ نہ از حیاتِ جاوداں آگہ نہ
۶۵؎
زندگی از دہر و دہر از زندگی است لا تسبو الدہر، فرمانِ نبی است
۶۶؎
نغمۂ خاموش دارد ساز وقت غوطہ در دل زن کہ بینی راز وقت
۶۷؎
(۱۷). آخر میں علامہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ:
(ا). عشق را از شغلِ لَا آگاہ کن آشنائے رمز الّا اللہ کن
۶۸؎
(ب). موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سینہ دل سے خالی ہے. یعنی محمل تو ہے مگر لیلیٰ نہیں. میں مثل شمع کے تنہا جل رہا ہوں کوئی میرا دلسوز نہیں. پس اے خدایا تو یہ امانت مجھ سے واپس لے لے یا مجھے ایک ہم دم عطا کر. 
خواہم از لطفِ تو یارے ہمدمے از رموزِ فطرتِ من محرمے
۶۹؎
تا بجانِ او سپارم ہوئے خویش باز بینم در دلِ او روئے خویش
؎۷۰