خلاصۂ رموزِ بے خودی

جس طرح خودی کے معنی تکبر یا غرور کے نہیں ہیں اسی طرح بے خودی کے معنی بے ہوشی یا خود فراموشی کے نہیں. بلکہ یہ فرد کی زندگی کی اس کیفیت کا نام ہے جو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے سے پیدا ہوتی ہے. 

(۱). ربطِ فرد و ملت
علامہ فرماتے ہیں کہ فرد تنہا زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں پیدا ہوا. جہاں تک ہوسکے جماعت کے ساتھ رہنا چاہیے. چنانچہ آنحضرت  فرماتے ہیں ”شیطان جماعت سے دور رہتا ہے”.

فرد می گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یابد نظام
۷۱؎
فرد قوم سے جدا ہوکر اپنی ہستی کھو بیٹھتا ہے اور ترقی کی جملہ راہیں مسدود ہوجاتی ہیں.
ہر کہ آب از زمزم ِ ملت نخورد شعلہ ہائے نغمہ در عودش فسرد

۷۲؎
انسان کے اندر ”جوہر نوری” ہے. قوت ادراک اسی کی ایک شعاع ہے . اس کی ترقی جماعت میں رہ کر ہی ہوسکتی ہے. 
فطرتش آزاد و ہم زنجیری است جزوِ او را قوتِ کل گیری است
۷۳؎

در جماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی
۷۴؎

(۲). ملت اختلاط افراد سے پیدا ہوتی ہے اور اس کی تربیت کی تکمیل نبوت سے ہوتی ہے. یعنی اللہ تعالیٰ انبیاء کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ مختلف الخیال افراد کو ایک سلک میں منسلک کرکے قوم بنا دیتے ہیں. چنانچہ بنی اسرائیل کو حضرت موسی نے ایک قوم بنا دیا اور عربوں کو سرکارِ مدینہ نے
محفلِ انجم ز جذبِ باہم است ہستئ کوکب ز کوکب محکم است
۷۵؎

نبی افراد کو یوں مخاطب کرتا ہے.
گویدش تو بندۂ دیگر نہ زیں بتانِ بے زبان کمتر نہ
۷۶؎

اس کے بعد انہیں ایک سلک میں منسلک کرتا ہے.
تا سوئے یک مدعایش می کشید حلقۂ آئیں بپایش می کشد
۷۷؎

نکتۂ توحید باز آموز دش رسم و آئینِ نیاز آموزدش
۷۸؎

(۳). ارکانِ اساسی (BASIC PRINCIPLES OF ISLAM)
(ا). اسلام کارکنِ اوّل توحید ہے. یہ اسلام کا امتیازی نشان ہے. اور اسلام کا سارا فلسفہ اسی توحید میں مضمر ہے. 
عقلِ انسانی اسی توحید کی بدولت منزلِ مقصود تک پہنچ سکتی ہے. ورنہ اس بے چاری کو ساحل کہاں مل سکتا ہے؟ مومن میں دین، حکمت، آئین، زور، قوت اور تمکین سب توحید کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے. جب مسلم حقیقی معنی میں خدائے واحد کا پرستار ہوجاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ 
بیم و شک میرد، عمل گیرد حیات چشم می بیند ضمیرِ کائنات
۷۹؎

چوں مقام عبدہٗ محکم شود کاسۂ دریوزہ جامِ جم شود
۸۰؎

ملت اسلامیہ کے لیے توحید بمنزلہ روحِ رواں ہے. اگر توحید کا تصور خارج کر دیا جائے تو ملت اسلامیہ لاشہ بے جان رہ جائے گی. 
ملت بیضا تن و جاں لا الہ ساز مارا پردہ گرداں لا الہ
۸۱؎

لا الہ سرمایۂ اسرارِ ما رشتہ اش شیرازۂ افکارِ ما
۸۲؎

چونکہ اسلام کا خدا ایک ہے اس لیے ملت اسلامیہ کا مقصود بھی ایک ہی ہونا چاہیے.
ملت از یک رنگئ دلہاستے روشن از یک جلوی ایں سینا ستے
۸۳؎
قوم را اندیشہ ہا بایدیکے در ضمیرش مدعا بایدیکے
۸۴؎

مسلمان کو حسب و نسب پر نازاں نہیں ہونا چاہیے. ’’ان اکرمکم عند اللہ اتقکم”
بر نسب نازاں شدن نادانی است حکمِ او اندر تن و تن فانی است
۸۵؎

ملت مارا اساسِ دیگر است ایں اساس اندر دلِ ما مضمر است
۸۶؎

ما زنعمت ہائے او اخواں شدیم یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم
۸۷؎

(۳). ب: یاس و حزن و خوف ام الخبائث ہیں اور حیات کے دشمن ہیں. توحید پر اگر کامل ایمان ہو تو ان امراض کا ازالہ ہوسکتا ہے. انسان کو لازم ہے کہ کبھی نا امید نہ ہو. کیونکہ نا امیدی، حیات کے لیے سامانِ مرگ ہے. اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’لا تقنطوا من رحمۃ اللہ”
اے کہ در زندانِ غم باشی اسیر از نبی تعلیمِ لاتحزن بگیر
۸۸؎

قوتِ ایماں حیات افزایدت وردِ لا خوف علیہم بایدت
۸۹؎

بیم غیر اللہ عمل را دشمن است کاروانِ زندگی را رہزن است
۹۰؎

ہر شرِ پنہاں کہ اندر قلبِ تست اصلِ او بیم است اگر بینی درست
۹۱؎

ہر کہ رمزِ مصطفٰے فہمیدہ است شرک را در خوف مضمردیدہ است
۹۲؎

خوفِ حق عنوانِ ایمان است و بس خوفِ غیر از شرک پنہان است و بس
۹۳؎

(۴). رکنِ دوم رسالت: جس چیز کی توحید کے بعد ضرورت ہے وہ ایمان بر رسالت ہے. رسالت پر ایمان لانے سے تنِ مردہ میں جان آجاتی ہے اور دین وآئین کی بنیاد رسالت ہی ہے. رسول، مسلم کے قلب و جگر کی قوت ہوتا ہے اور خدا سے بھی زیادہ پیارا ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمیں خدا تک پہنچاتا ہے. اس کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا مسلمان کے لیے موت کا حکم رکھتا ہے. 

سرکارِ مدینہ نے ہمیں دینِ حق اور مذہبِ فطرت عطا کیا اور اس لیے کہ ہماری وحدت میں کوئی تفرقہ پیدا نہ ہو اور ہماری ہستی ابدی ہوجائے. خدا نے ہمارے رسول پر رسالت ختم کردی .

قوتِ قلب و جگر گردد نبی از خدا محبوب تر گردد نبی
۹۴؎

دینِ فطرت از نبی آموختیم در رہِ حق مشعلے افروختیم
۹۵؎

لانبی بعدی ز احسان خدا است پردۂ ناموسِ دین مصطفٰے است
۹۶؎

(۴). ب: رسالتِ محمدی کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کے اندر حریت و اخوت و مساوات قائم ہوجائے. 
آنحضرت کی بعثت سے پہلے انسان انسان پرست تھا. آنحضرت نے دنیا کو حریت و اخوت و مساوات کا سبق پڑھایا. 
کل مومن اخوۃ اندر دلش حریت سرمایۂ آب و گلش
۹۷؎

نا شکیبِ امتیازات آمدہ در نہادِ او مساوات آمدہ
۹۸؎

اس کے بعد علامہ نے تاریخ اسلامی سے ان تینوں کی مثالیں دی ہیں. حریت کی مثال میں امام حسین کی شہادت پیش کی ہے. 
بہرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است پس بنائے لا الہ گرویدہ است
۹۹؎

ما سو اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
۱۰۰
رمزِ قرآن از حسین آموختیم ز آتشِ او شعلہ ہا اندوختیم
۱۰۱؎

رمزِ قرآن سے علامہ کی مراد یہ ہے کہ مسلمان کو ہر حال میں باطل کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اگر ضرورت پڑے تو جان دینے سے دریغ نہ کرنا چاہیے. 
(۵). چونکہ ملت محمدی کی بنیاد توحید اور رسالت پر ہے اور یہ حقائق محدود فی المکان نہیں ہیں اس لیے ملت محمدی بھی محدود فی المکان نہیں. اس لیے:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا 
مسلم استی دل باقلیمے مبند گم مشو اندر جہانِ چون و چند
۱۰۲؎
دل بدست آور کہ درپہنائے دل می شود گم ایں سرائے آب و گل
۱۰۳؎

آنحضرت نے اپنے وطن سے ہجرت کرکے مسلم کی قومیت کا عقدہ حل کردیا. مدینہ کوو طن بنالیا جو آپ کا جائے ولادت نہیں تھا. یعنی تمام دنیا مسلمان کا وطن ہے اور تمام زمین اس کے لیے مسجد ہے.
ہجرت آئینِ حیاتِ مسلم است ایں ز اسبابِ ثباتِ مسلم است
۱۰۴؎

صورتِ ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قیدِ مقام آزاد شو
۱۰۵؎

ہر کہ از قیدِ جہات آزاد شد چوں فلک در شش جہت آباد شد
۱۰۶؎

(۶). وطن اساسِ ملت نہیں ہے. وطنیت کے عقیدہ کو علامہ مسلمان قوم کے لیے از بس مضر خیال کرتے ہیں کیونکہ اس کی بنا پر اخوت کا زریں اصول تباہ ہوجاتا ہے. جو لوگ ملت کی تعمیر وطنیت کے اصولوں پر کرتے ہیں وہ نوع انسان کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں. دنیا میں جو کچھ ہنگامہ بپا ہے اور ایک قوم دوسری قوم کے خون کی پیاسی نظر آتی ہے وہ اسی وجہ سے ہے. اساسِ ملت وطن نہیں بلکہ مذہب ہے. 
تا سیاست مسندِ مذہب گرفت ایں شجر در گلشنِ مغرب گرفت
۱۰۷؎

روح از تن رفت و ہفت اندام ماند آدمیت گم شد و اقوام ماند
۱۰۸؎

(۷). جس طرح ملت محمدی محدود فی المکان نہیں اسی طرح مقید بالزمان بھی نہیں. اگرچہ فرد و ملت کی اجل مقرر ہے اور ملت بھی فرد کی طرح مردہ ہوجاتی ہے. لیکن ملت محمدی اجل سے محفوظ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس ملت کی بقا کا خود وعدہ فرمایا ہے. 
امتِ مسلم ز آیاتِ خدا ست اصلش از ہنگامہ قالوا بلی ست
۱۰۹؎

از اجل ایں قوم بے پرواستے استوار از نحن نزلنا ستے
۱۱۰؎

تا خدا ان یطفئوا فرمودہ است از فسردن ایں چراغ آسودہ است
۱۱۱؎

(۸). نظامِ ملت کسی ضابطہ کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا اور اس لیے خدا نے نظامِ ملت کے قیام و ثبات کے لیے قرآن پاک نازل فرمایا ہے. پس اگر مسلمان اپنا ملی نظام استوار رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں قرآن کو اپنا دستور حیات اور ضابطہ عمل بنانا چاہیے.
ہستی مسلم ز آئین است و بس باطنِ دینِ نبی این است و بس
۱۱۲؎

آں کتابِ زندہ، قرآن حکیم حکمتِ او لایزال است و قدیم
۱۱۳؎

حرفِ او را ریب نے، تبدیل نے آیہ اش شرمندۂ تاویل نے
۱۱۴؎

نوعِ انساں را پیامِ آخریں حاملِ او رحمۃ للعالمین
۱۱۵؎

اس کے بعد علامہ نے مسلمِ سست پیما سے خطاب کیا ہے اور دو لفظوں میں رازِ حیات بیان کردیا ہے.
اے گرفتارِ رسوم ایمانِ تو شیوہ ہائے کافری زندان توٍ
۱۱۶؎

قطع کردی امرِ خود را در زبر جادۂ پیمائی الی شیءً نکر
۱۱۷؎

گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن
۱۱۸؎

(۹). انحطاط کے زمانہ میں تقلید کرنا اجتہاد کرنے سے زیادہ مفید ہے. یہاں تقلید کے معنی فقہی نہیں ہیں بلکہ روایاتِ ملی پر عامل ہونے کے ہیں. علامہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
اگر تقلید بودے شیوۂ نیک پیمبر ہم رہِ اجداد رفتے
۱۱۹؎

یعنی تقلید کو برا بتایا ہے. اس جگہ تقلید کو اجتہاد سے اولیٰ تر قرار دیا ہے پس معلوم ہوا کہ وہاں تقلید کے معنی کورانہ پیروی کے ہیں اور یہاں تقلید کے معنی اپنی ثقافتی روایاتِ (CULTURAL TRADITIONS) ملی کی حفاظت اور ان پر عمل کرنا ہیں. لکھتے ہیں:.
راہِ آبا رو کہ ایں جمعیت است معنئ تقلید ضبطِ ملت است
۱۲۰؎

اس شعر میں خود بھی تقلید کے معنی صاف کردیے ہیں. 
نقش بر دل معنئ توحید کن چارۂ کارِ خود از تقلید کن
۱۲۱؎ 

اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط
۱۲۲؎

ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
۱۲۳؎

از یک آئینہ مسلماں زندہ است پیکرِ ملت ز قرآن زندہ است
۱۲۴؎

ما ہمہ خاک و دل آگاہ اوست اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست
۱۲۵؎ الغرض تقلید کے معنی ہیں قرآنی احکام کی بے چون و چرا تعمیل کرنا اور یک آئینہ کو اپنا نصب العین بنانا، سنت نبوی پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنا اور ہر معاملہ میں قرآن سے فیصلہ طلب کرنا. 

(۱۰). اتباع آئینِ الہیہ سے سیرت ملی میں پختگی پیدا ہوتی ہے. یہ عنوان حرزِ جاں بنانے کے لائق ہے. فرماتے ہیں کہ قرآن وہ ہیرا ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے تراشاہے. اس میں سراسر نور اور روشنی ہے اس کا ظاہر بھی موتی ہے اور باطن بھی موتی ہے. اس کا ظاہر و باطن دونوں ایک ہے. علمِ حقیقت شریعت سے جدا نہیں ہے اور سنت کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت  سے محبت کی جائے. ہر کہ عشق مصطفٰے الخ، اگر مسلمان اپنے ایمان کو مضبوط اور شاداب رکھنا چاہتے ہیں تو اتباعِ شریعت کریں. ملت کا نظام اتباعِ شریعت پر مبنی ہے. جب یہ نظام محکم ہوجاتا ہے تو ملت کو دوام نصیب ہوجاتا ہے. لوگ اسلام کا “راز” 
(SECRET) پوچھتےہیں. میں کہتا ہوں کہ شریعت ہی اسلام کا راز ہے. 
اگر کوئی قوت اتباع شریعت میں مزاحم ہو تو اس کا مقابلہ کرنا فرض ہے. 
سر ایں فرمانِ حق دانی کہ چیست زیستن اندر خطرہا زندگیست
۱۲۶؎

آنحضرت  کا دین زندگی بخشنے والا دین ہے. 
ہست دینِ مصطفٰے دینِ حیات شرعِ او تفسیر آئینِ حیات
۱۲۷؎

جب سے مسلمانوں نے شعارِ نبوی سے روگردانی کی ، رمزِ بقا سے محروم ہوگئے. 
تا شعارِ مصطفٰے از دست رفت قوم را رمزِ بقا از دست رفت
۱۲۸؎

آخر میں نصیحت کی ہے کہ عجمی خیالات سے پرہیز کرو کیونکہ وہ حدودِ اسلام سے تجاوز کرنا سکھاتے ہیں. عرب سے الفت پیدا کرنا چاہیے.
با مریدے گفت اے جانِ پدر از خیالات عجم باید حذر
۱۲۹؎

زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گزشت از حدِ دینِ نبی بیروں گزشت
۱۳۰؎

قلب را زیں حرفِ حق گرداں قوی با عرب در ساز تا مسلم شوی
۱۳۱؎ (۱۱). سیرت قومی میں اتباع رسول سے حسن و خوبی پیدا ہوسکتی ہے. چنانچہ مرشد رومی رحمہ اللہ تعالی نے کیا خوب فرمایا ہے:.
مگسل از ختم الرسل ایّام خویش تکیہ کم کن برفن و برگامِ خویش
۱۳۲؎

مسلمانوں کے لیے حضرت ختمی مرتبت کی ذات ستودہ صفات بہترین نمونہ ہے. اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رہنمابنا ناکار نادانی ہے. 
غنجۂ از شاخسارِ مصطفٰے گل شو از بادِ بہارِ مصطفٰے
۱۳۳؎

از بہارش رنگ و بوباید گرفت بہرۂ از خلق او باید گرفت
۱۳۴؎

آنکہ مہتاب از سرانگشتش دو نیم رحمتِ او عام و اخلاقش عظیم
۱۳۵؎

از مقامِ او اگر دور ایستی از میانِ معشرِ ما نیستی
۱۳۶؎

(۱۲). حیات ملیہ کے لیے ایک مرکزِ محسوس بھی اشد ضروری ہے اور مسلمانوں کا مرکز بیت اللہ ہے. سب مسلمانوں کو اس سرزمین کو اپنا مرکز یقین کرنا چاہیے. مکہ واقعی ہمارا کعبۂ مقصود ہے اور جسے مکہ سے محبت نہیں اس کے ایمان میں خلل ہے جو جماعت مکہ کو چھوڑ کر کسی اور سرزمین کو اپنا مرکز قرار دے وہ اسلام سے خارج ہے. 
ہم چناں آئینِ میلادِ امم زندگی بر مرکزے آید بہم
۱۳۷؎

قوم را ربط و نظام از مرکزے روزگارش را دوام از مرکزے
۱۳۸؎

راز دار و رازِ ما بیت الحرام سوِ ماہم سازِ ما بیت الحرام
۱۳۹؎

در جہاں مارا بلند آوازہ کرد با حدوثِ ما قدم شیرازہ کرد
۱۴۰؎

(۱۳). تنظیم حقیقی کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد ِ ملت کے سامنے کوئی نصب العین ہو اور ہر فرد اس کے حصول میں منہمک ہو اور امت محمدی کا نصب العین یہ ہے کہ توحید کی حفاظت اور اشاعت کی جائے گویا ہر مسلمان مبلغ اسلام ہے. 
مدعا رازِ بقائے زندگی جمعِ سیمابِ قوائے زندگی
۱۴۱؎

چوں حیات از مقصدے محرم شود ضابطِ اسبابِ ایں عالم شود
۱۴۲؎

ہمچو جاں مقصود پنہاں در عمل کیف و کم ازوے پذیرد ہر عمل
۱۴۳؎

زانکہ در تکبیر رازِ بودِ تست حفظ و نشرِ لا الٰہ مقصودِ تست
۱۴۴؎
تانہ خیزد بانگِ حق از عالمے گر مسلمانی نیا سائی دمے
۱۴۵؎

آجکل جبکہ الحاد اور مادیت کا زور ہے قرآنی تعلیمات کی اشاعت از بس ضروری ہے. موجودہ مشکلات کا حل اس کتاب میں موجود ہے. پس مسلمانوں کو یکسر تبلیغ و اشاعتِ اسلام میں منہمک ہوجانا چاہیے.
(۱۴). حیاتِ ملی میں فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنے سے وسعت پیدا ہوسکتی ہے. عہدِ ماضی میں مسلمانوں کا یہی شعار تھا. لیکن اب علوم و فنون سے بے بہرہ ہیں. تحقیق و اجتہاد کو کفر سمجھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ترقی درکنار تنزل کر رہے ہیں. 
ما سوا از بہرِ تسخیر است و بس سینۂ او عرضۂ تیرا ست و بس
۱۴۶؎

غنچۂاز خود چمن تعبیر کن شبنمی خورشید را تسخیر کن
۱۴۷؎

خیزو واکن دیدۂ مخمور را دوں مخواں ایں عالمِ مجبور را
۱۴۸؎

غایتش توسیع ذاتِ مسلم است امتحانِ ِ ممکناتِ مسلم است
۱۴۹؎

حق جہاں را قسمتِ نیکاں شمرد جلوہ اش با دیدۂ مومن سپرد
۱۵۰؎

تو کہ مقصودِ خطابِ اُنظری پس چرا ایں راہ چوں کوراں بری
۱۵۱؎

علمِ اسما اعتبارِ آدم است حکمتِ اشیاء حصارِ آدم است
۱۵۲؎

(۱۵). حیاتِ ملیہ کا کمال یہ ہے کہ ملت میں بھی فرد کی طرح اپنی خودی کا احساس پیدا ہوجائے اور اس احساس کی تولید اور تکمیل اپنی ملی روایات (CULTURAL TRADITIONS) کی حفاظت اور اشاعت سے ممکن ہے. 

ملت میں خودی کے احساس کے معنی یہ ہیں کہ ہر فرد اپنی جگہ بہبودِ ملت کا ذمہ دار ہو. 
اگر زید کو تکلیف پہنچے تو تمام جماعت اس تکلیف کو محسوس کرے. اس کا نظارہ دہلی نے ۱۸۵۷ء میں دیکھا تھا جبکہ بارہ سپاہیوں اور ان کے افسر نے بخوشی میگزین میں آگ لگا دی اور خود بھی اس میں جل کر مر گئے تاکہ وہ بارود ان کے دشمن ان کے بھائیوں کے خلاف استعمال نہ کرسکیں. وہ بظاہر مر گئے لیکن بباطن زندہ ہیں اور لارڈ و لنگڈن سربربرٹ ایمرسن اور دوسرے گورنر ان صوبجات کی شکل میں آج ۱۹۳۳ میں ہندوستان پر حکومت کر رہے ہیں. جب تک مسلمانوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو ان کا ابھرنا اور ترقی کرنا معلوم. فی الحال تو یہ کیفیت ہے کہ ہندو سے زیادہ مسلمان، مسلمان کا دشمن ہے. میونسپل کمیٹی اور کونسل سب جگہ منافرت اور منافقت کا بازار گرم ہے. (واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۳۳ء کی ہے: مدیر)

اس احساس کو پیدا کرنے کے لیے تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنا اور اپنی روایات ملی کی حفاظت کرنا ضروری ہے. زندہ اقوام اپنی روایات کی بہت حفاظت کرتی ہیں اور بچوں کے قلوب میں ان روایات کا نقش قائم کرتی ہیں. لیکن ہندوستان میں ہماری تعلیم انگریزوں کے ہاتھ میں ہے اور انہیں کلرکوں کی ضرورت ہے نہ کہ قومی درد رکھنے والوں کی. 
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ ہے ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی
ربطِ ایام است مارا پیرہن سوزنش حفظِ روایاتِ کہن
۱۵۳؎

چیست تاریخ اے زخود بیگانۂ داستانے قصۂ افسانہ
۱۵۴؎

ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مردِ رہ کند
۱۵۵؎

مشکن ار خواہی حیاتِ لازوال رشتۂ ماضی ز استقبال و حال
۱۵۶؎

(۱۶). بقائے نوع امومت (MOTHERHOOD) پر منحصر ہے اس لیے اسلام میں امومت کے احترام کو فرض عین قرار دیا ہے.
اسلام نے ”عورت ” کو بڑا بلند درجہ عنایت کیا ہے کیونکہ عورت مرد کے لیے باعثِ 
تسکین اور کائنات کے لیے موجبِ رونق ہے. مرد میں عورت ہی کی وجہ سے نغمہ پیدا ہوتا ہے بلکہ مرد کے لیے موجبِ زینت و آسائش ہے اسی لیے آنحضرت  نے خوشبو اور نماز کے ساتھ اس کا ذکر بھی فرمایا.
جو مسلمان عورت کو اپنا خادم یا ماتحت خیال کرتا ہے وہ فہمِ قرآن سے محروم ہے. لکھتے ہیں:
آنکہ نازد بروجودش کائنات ذکرِ او فرمود باطیب و صلوۃ
۱۵۷؎

مسلمے کو را پرستارے شمرد بہرۂ از حکمتِ قرآن نبرد
۱۵۸؎

نیک اگر بینی امومت رحمت است زانکہ او را با نبوت نسبت است
۱۵۹؎

شفقتِ او شفقتِ پیغمبر است سیرتِ اقوام را صورت گر است
۱۶۰؎ 

گفت آں مقصودِ حرفِ کن فکاں زیرِ پائے امہات آمد جناں
۱۶۱؎

ملت از تکریم ارحام است و بس ورنہ کارِ زندگی خام است و بس
۱۶۲؎

حافظِ رمزِ اخوت مادراں قوتِ قرآن و ملت مادراں
۱۶۳؎

(۱۷). عورتوں کے لیے سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء اسوۂ حسنہ ہیں. 
م
زرعِ تسلیم را حاصل بتول مادراں را اسوۂ کامل بتول
۱۶۴؎

آں ادب پروردۂ صبر و رضا اسیا گردان و لب قرآن سرا
۱۶۵؎

(۱۸). خطاب بہ محذراتِ اسلام. علامہ مسلمان عورتوں سے خطاب فرماتے ہیں کہ مادران اسلام کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سب سے پہلے اسلام اور اسلامی روایات سے آگاہ کریں اور اپنے فرض کو پہچانیں. وہ ذمہ دار ہیں اور بچوں کی سیرت انہی کے سانچہ میں ڈھلتی ہے.
موجودہ زمانہ بڑا پر آشوب ہے، کفر و الھاد کی ہوائیں چل رہی ہیں. ماؤں کو چاہیے کہ مسلمان بچوں کو قرآنی تعلیمات سے مسلح کرکے کارزارِ عالم میں بھیجیں. 
کودکِ ماچوں لب از شیرِ توشست لا الہ آموختی او رانخست
۱۶۶؎

می ترا شد مہرِ تو اطوارِ ما فکرِ ما، گفتارِ ما، کردار ما
۱۶۷؎

دورِ حاضر تر فروش و پرفن است کاروانش نقدِ دیں را رہزن است
۱۶۸؎

کور و یزداں ناشناس ادراکِ او ناکساں زنجیرئ پیچاک او
۱۶۹؎

ہوشیار از دستبرد روزگار گیر فرزندانِ خود را درکنار
۱۷۰؎

(۱۹). آخر میں علامہ نے سورۂ اخلاص کی تفسیر اپنے مخصوص رنگ میں لکھی ہے. میں اس کا خلاصہ بھی طوطیائے چشم بناتا ہوں. 
علامہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا تو ان سے کہا کہ امت مرحومہ کی بہبود کی کوئی صورت بتائیے. انہوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں کو سورۂ اخلاص سے آب و تاب حاصل کرنی چاہیے.
توحید کا رنگ پیدا کرلو سارے عقدے حل ہوجائیں گے.
بایکی ساز، از دوئی بردار رخت وحدتِ خود را مگر داں لخت لخت
۱۷۱؎

خدا نے مسلمانوں کو ایک قوم بنایا وہ اب ترک، افغان اور ہندی بنے ہوئے ہیں. قل ھو اللہ احد، کے معنی زبان سے ادا کرنے سے کام نہیں بنتا، جب تک مسلمان وحدت کا رنگ اپنے اندر نہ پیدا کریں. جس طرح ان کا خدا ایک ہے اسی طرح انہیں بھی ایک ہونا چاہیے. 
یک شوو توحید را مشہود کن غائبش را از عمل موجود کن
۱۷۲؎

لذتِ ایماں فزاید در عمل مردہ آں ایماں کہ ناید در عمل
۱۷۳؎

(ب). اللہ الصمد کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ صمد ہے تم بھی غیر اللہ سے بے نیاز ہوجاؤ. اور صرف اللہ تعالیٰ کو کعبۂ مقصود بنا لو. 
بندۂ حق بندۂ اسباب نیست زندگانی گردشِ دولاب نیست
۱۷۴؎

مسلم استی بے نیاز از غیر شو اہل عالم را سراپا خیر شو
۱۷۵؎

راہ دشوار است ساماں کم بگیر در جہاں آزاد زی آزاد میر
۱۷۶؎

پشتِ پا زن تختِ کیکاؤس را سربدہ از کف مدہ ناموس را
۱۷۷؎

بے نیازی رنگِ حق پوشیدن است رنگِ غیر از پیرہن شوئیدن است
۱۷۸؎

آفتاب استی یکے در خود نگر از بخورم دیگراں تا بے مخر
۱۷۹؎

تا کجا طوفِ چراغ محفلے ز آتشِ خود سوز اگر داری ولے
۱۸۰؎

(ج). جس طرح اللہ تعالی ’’لم یلد و لم یولد” ہے اسی طرح مسلم رنگ و خون سے بالا تر ہے. اسلام میں حسب و نسب، رنگ، قوم، ذات پات، نسل، زبان، دولت ثروت یہ سب ہیچ ہیں. 
فارغ از ام و اب و اعمام باش ہمچو سلماں زادۂ اسلام باش
۱۸۱؎

گر نسب را جزوِ ملت کردۂ رخنہ درکارِ اخوت کردۂ
۱۸۲؎

دل بہ محبوبِ حجازی بستہ ایم زیں جہت با یک دگر پیوستہ ایم
۱۸۳؎

رشتۂ ما یک تولا یش بس است چشم مارا کیفِ صہبایش بس است
۱۸۴؎

عشق در جان و نسب در پیکر است رشتۂ عشق از نسبِ محکم تر است
۱۸۵؎

ہر کہ پادر بندِ اقلیم وجد است بے خبر از لم یلد لم یولد است
۱۸۶؎

(د). ’’ولم یکن لہ کفوا احد” کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح کوئی اللہ کا ہمسر نہیں، کوئی قوم مسلمانوں کی بھی ہمسر نہیں. 
رشتۂ با لم یکن باید قوی تا تو در اقوامِ بے ہمتا شوی
۱۸۷؎

آنکہ ذاتش واحد است و لا شریک بندہ اش ہم در نسازد با شریک
۱۸۸؎

خرقۂ لا تحزنوااندر برش انتم الاعلون تا جے بر سرش
۱۸۹؎

پیش باطل تیغ و پیش حق سپر امر و نہی او عیارِ خیر و شر
۱۹۰؎

خوار ا زمہجوئ قرآن شدی شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
۱۹۱؎

اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ در بغل داری کتابِ زندۂ
۱۹۲؎

(۲۰). عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمین
اس آخری باب میں علامہ نے سرکارِ مدینہ سے عرض کی ہے کہ حضور ! مسلمان سرِ نبی سے بیگانہ ہوگیا ہے اس نے عرب سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا ہے اور عجمی خیالات عجمی تمدن اور عجمی وضع اختیار کرلی ہے. میں نے اسے قرآن کی طرف بلایا ہے. 
محفل از شمعِ نوا افروختم قوم را رمزِ حیات آموختم
۱۹۳؎

لیکن اگر میں نے قرآن کے علاوہ کسی اور شے کی طرف بلایا ہے تو بے شک آپ مجھے جو مرضی ہو سزا دیں.
گر دلم آئینہ بے جوہر است در بحر فم غیر قرآں مضمر است
۱۹۴؎

پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں را ز خارم پاک کن
۱۹۵؎

روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا بے نسیب از بوسۂ پا کن مرا
۱۹۶؎

اور اگر میں نے قرآن ہی کی طرف بلایا ہے تو پھر اتنی درخواست ہے. 
عرض کن پیشِ خدائے عز وجل عشق من گردد ہم آغوشِ عمل
۱۹۷؎

سب سے آخر میں علامہ نے سرکارِ مدینہ کے سامنے بڑے ادب کے ساتھ اپنی ایک دلی آرزو پیش کی ہے:
زندگی را از عمل ساماں نبود پس مرا ایں آرزو شایاں نبود
۱۹۸؎ 

ہست شانِ رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز
۱۹۹؎ 

از درت خیزد اگر اجزائے من وائے امروزم خوشا فردائے من
۲۰۰؎ 
کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مردے در سایۂ دیوار بخش
۲۰۱؎

علامہ کی یہ دعا اس قدر رقت آمیز ہے کہ کوئی صاحب دل بغیر چشم تر کیے اسے ختم نہیں کرسکتا.
خدا کرے علامہ کی یہ دعا قبول ہو اور علامہ کے علاوہ دیگر عاشقانِ رسول کو بھی یہ سعادت نصیب . آمین. 
(میثاق، جولائی و اگست ۱۹۲۹)