۱؎ فقیر راقم الحروف نے دورانِ قیام سیالکوٹ میں علامہ موصوف کے والد بزرگوار شیخ نور محمد صاحب سے شرف ملاقات حاصل کیا تھا. تقریب بہر ملاقات یوں ہوئی کہ میں نے ایک دن اپنے مکرم و محترم مولوی احمد دین صاحب مرحوم (والد بزرگوار حضرت اثر صہبائی مرحوم) عرض کی کہ میں والد علامہ اقبال، مولانا میر حسن اور علامہ عبدالحکیم مرحوم سے ملنا چاہتا ہوں. وہ فرمانے لگے میرے ساتھ چلو ان سب سے ملا دوں گا. چنانچہ ان کی معیت میں علامہ موصوف کے والد کی خدمت میں حاضر ہوا. اتوار کے دن ، کوئی گیارہ کا عمل ہوگا، ہم دونوں پیدل روانہ ہوکر اس بزرگ کی خدمت میں جا پہنچے. شیخ صاحب موصوف کی عمر دسمبر ۱۹۲۸ء میں اسی اور نوے کے درمیان ہوگی. ۸۵ سے بہرحال کم نہ تھی. بصارت اور سماعت دونوں میں فرق آگیا تھا. مولوی صاحب نے مجھے متعارف کیا. میں نے کہا ”مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آج میں نے اس شخص کو دیکھا، جس کے گھر اقبال جیسا بلند اقبال پیدا ہوا. جس نے ارسطو افلاطون کی صف میں اپنے لیے جگہ بنائی ہے جو فلسفۂ مغرب کا ماہر ہونے کے باوجود نبی امی کا شیدائی ہے کہ جس کے زورِ کلام اور رفعتِ تخیل نے مشرق اور مغرب دونوں سے خراج تحسین وصول کیا ہے”. فرمانے لگے ”یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے. ذلک فضل اللہ الخ، پھر مجھے حقہ دیا میں نے ان کی خاطر سے دو چار کش لگائے. مولوی صاحب سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب نہایت ذہین اور طباع انسان تھے. جوانی میں ان کی دکان سیالکوٹ کے شرفا اور زندہ دل لوگوں کا مرکز تھی. وہ سرسید رحمہ اللہ تعالی کے بڑے حامی تھے اور اگرچہ تعلیم برائے نام تھی لیکن علمی اور مذہبی مسائل پر گفتگو کرتے تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی عامی یا کم سواد انسان ہے. صورت ڈاکٹر اقبال سے بہت ملتی تھی. رنگ جوانی میں شہاب ہوگا اس عمر میں بھی رخساروں پر سرخی باقی تھی. معلوماتِ عامہ کا چسکا پڑا ہوا کب چھوٹتا ہے. دوسروں سے اخبار پڑھوا کر سنتے تھے. حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا. ۱۹۲۹ء میں وفات پائی.

۲؎ میں نے مولانا کو دسمبر ۱۹۲۸ء میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا. اس وقت ان کی عمر غالباً نوّے سال کی ہوگی. بصارت سے محروم ہوچکے تھے لیکن بصیرت کافی حاصل تھی. صوم و صلٰوۃ کی پابندی جوانوں کو درس عبرت دیتی تھی. حافظہ کا یہ عالم تھا کہ بلا مبالغہ ہزاروں اشعار اردو، فارسی اور عربی کے نوکِ زبان تھے. میں نے نظیری کا ایک شعر پڑھا اور اس کے معانی دریافت کیے. فرمایا آپ تو ماشاء اللہ فارسی میں خاصی لیاقت رکھتے ہیں. اس شعر میں تو کوئی خاص بات نہیں. میں نے عرض کی کہ مقصود یہ ہے کہ شاگردی کا شرف 
حاصل ہوجائے. آپ اقبال کے استاد ہیں جس کی شاگردی کے لائق بھی میں نہیں ہوں پس اگر آپ سے یہ نسبت حاصل ہوجائے تو فخرو مباہات کا ایک پہلو بیٹھے بٹھائےہاتھ لگ جائے گا اور میں ہم چشموں میں یہ کہہ سکوں گا. 

گرچہ خوردیم نسبتے است بزرگ ذرۂ آفتاب تا با نیم

میری گفتگو سے قدرے محظوظ ہوئے اور فرمانے لگے ”میاں ہمیں بھی استادوں کی صحبت سے فیض حاصل کرنے کا چسکا تھا. ۱۸۶۳ء میں یہی شوق کشاں کشاں غالب کی خدمت میں دلی لے گیا تھا. اس وقت سیالکوٹ میں ریل نہیں آئی تھی اس لیے وطن سے انبالہ تک گھوڑے پر سفر کیا تھا بعض موقعوں پر پیدل بھی چلنا پڑا. مگر شوق نے ساری منزلیں طے کرا دیں. 

مولانا کی دینداری اور علمیت کا حال بیان کرچکا. ایک واقعہ اور بیان کرتا ہوں. جوانی میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا جب تک پیدل چلنے کی طاقت باقی رہی روزانہ بلا ناغہ اپنی والدہ کی قبر پر جاتے رہے. ایک سپیارہ جاتے اور ایک آتے ختم کرتے تھے. یہ سلسلہ ۵۶ سال تک جاری رہا. اب ایسے لوگ کہاں پیدا ہوتے ہیں؟ ۱۹۲۹ء میں وفات پائی. 
۳؎ ڈاکٹر سر ٹی ڈبلیو، آرنلڈ، سی آئی ، ای ڈی لٹ، ایم اے ، ۱۸۸۸ء میں علی گڑھ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوکر آتے تھے. عجیب علم دوست اور ذہین و فطین اور بالغ نظر انسان تھا . عربی اور اسلامیات سے بہت دلچسپی تھی اور راسخ العقیدہ ہونے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں سے نفرت نہیں تھی. تعصب نام کونہ تھا. دعوتِ اسلام جس کا ترجمہ سرسید کے ایما سے شیخ عنایت اللہ خلف شمس العلماء بہادر منشی ذکاء اللہ دہلوی نے کیا تھا ایسی کتاب ہے جو در اصل ہمارے علماء کو لکھنی چاہیے تھی لیکن بقول علامہ شبلی ہمارے علماء اس سے کہیں زیادہ اہم کاموں میں مصروف ہیں. مثلاً تکفیر اہل قبلہ، مسئلہ امتناعِ نظیر، مسئلہ امکانِ کذب، استنجا بالمدر اور بالماء ، حلتِ غراب، فاتحہ خلف الامام، امین بالجہر، رفعِ یدین، قیام در میلاد، صلوہ قبل المنبر، جواز شیئًا للہ، انہدامِ قباب، تقبیل الابہامین، استمداد عن القبور، احضار صورتِ محمدی، ایصال ثوب وغیرہ. 
اس کتاب سے ان کے تبحر علمی ، وسعت معلومات اور اعلی قابلیت کا بخوبی پتہ چلتا ہے. 
غالباً ۱۸۹۸ء میں علی گڑھ سے لاہور آئے. یہاں انہوں نے تفسیرِ کبیر کے اقتباسات سے معتزلہ کے عقائد پر ایک رسالہ عربی زبان میں تالیف کیا تھا. جو لیوزک نے لندن سے ۱۹۰۳ ء میں شائع کیا تھا. میں نے یہ رسالہ ۱۹۲۵ میں پڑھا تھا. چونکہ علم دوست تھے اس لیے انہیں علامہ اقبال 
سے خاص انسیت ہوگئی تھی اور علامہ کو بھی ان سے بڑی محبت تھی. چنانچہ انہوں نے ایک نظم بھی ان کی یاد میں لکھی ہے جس کا عنوان ہے. ”نالۂ فراق”
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں آہ مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں
پوری نظم بانگ درا صفحہ ۷۴ پر ملاحظہ فرمائیے. 

ان کی آخری تصنیف 
ISLAMIC FAITH ہے جو ۱۹۲۸ء میں شائع ہوئی تھی اس کتابچے میں انہوں نے اپنے شاگرد (اقبال) کی خدمت میں بھی خراج تحسین ادا کیا ہے. 
۴؎ راستہ میں دہلی میں قیام کیا اور حضرت محبوب الٰہی رحمہ اللہ تعالی کے مزار پر کمال حسن عقیدت کے ساتھ حاضر ہوئے اور کامیابی کے لیے دعا کی. یہ دعا ایک نظم کی صورت میں آج بھی باصرہ نوازی اور بصیرت افروزی کا سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور بانگِ درا کے صفحہ ۹۷ پر مندرج ہے. پہلے بند میں توصیف ہے اس کے بعد التجا ہے: 

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانہ سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو 
پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں کیا جنہوں نے محبت کا راز داں مجھ کو 

فی الجملہ تمام نظم جذبات عالیہ سے معمور ہے. ناظرین کتاب میں ملاحظہ فرمائیں. اس نظم میں یہ شعر بھی تھا
ب
ھلا ہو دونوں جہاں میں حسن نظامی کا ملا ہے جن کے کرم سے یہ آستاں مجھ کو
مگر مطبوعہ نظم میں یہ شعر درج نہیں ہے.
۵؎ DR. MCTAGGART ۱۹۲۳ء/۱۸۶۵ء کیمبرج میں فلسفہ کا پروفیسر تھا اس کے فلسفیانہ نظام کا اصطلاحی نام ONTOLOGICAL IDEALISM ہے. اس کی فکر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ چونکہ خودی (EGO) قائم بالذات اور ازلی ہے اس لیے خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے. جین دھرم کا بنیادی عقیدہ یہی ہے. 

۶ ؎ DR. E-BROWN تاریخ ادبیات ایران چہار جلد کے شہرۂ آفاق مؤلف فارسی اور عربی کے بے نظیر محقق، نہایت شریف اور نیک نفس انسان، جس نے صدہا نوجوانوں کو سکالر اور ڈاکٹر اور نقاد بنا دیا کیمبرج یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر تھے. کثیر نادر الوجود فارسی مخطوطات ان کے کتب خانہ میں موجود ہیں. بابی اور بہائی مذہب کے متعلق ان کی معلومات لائقِ رشک تھیں. 

۷؎ 
DR. R.A. NICHOLSON کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ہیں. بقیدِ حیات ہیں. مؤلف تاریخ ادبیاتِ عرب. شعبۂ تصوف سے خاص دلچسپی ہے. کئی کتابیں اس موضوع پر تالیف کی ہیں. زاویۂ نگاہ تنگ اور غیر ہمدردانہ ہے. اسرارِ خودی کا ترجمہ ’SECRETS OF THE SELF‘ کے نام سے شائع کرکے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے. 
۸؎ 
DR. SORLEY کیمبرج یونیورسٹی میں فلسفۂ اخلاق کے پروفیسر ہیں. عمر غالباً ۶۷ء سال ہوگی. ان کی مشہور تصنیف MORAL VALUES AND THE IDEA OF GOD ہے. ۱۹۳۲ء میں انہوں نے ڈاکٹر اقبال کو کیمبرج مدعو کیا تھا. 

۹؎ ۳۵ء میں میوروڈ والی کوٹھی میں منتقل ہوگئے تھے. 
۱۹۲۶ء میں آپ اپنے عقیدت مندوں کے اصرار سے پنجاب کونسل میں مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے آمادہ ہوئے عموماً امیدوار ہزارہا روپیہ خرچ کرتے ہیں اور ادنیٰ سے ادنی ووٹر کی خوشامد وظیفۂ حیات بن جاتی ہے. لیکن اہلِ لاہور جانتے ہیں کہ اقبال بغیر ”منت مخلوق” کامیاب ہوا تھا.

کونسل میں آپ نے برابر تین سال تک ملک اور قوم کی گراں بہا خدمات انجام دیں جن کی تفصیل کی اس مختصر مضمون میں گنجائش نہیں ہے.

دسمبر ۲۸ء میں آپ کو انجمن اسلامیہ مدراس نے اسلام پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا. چنانچہ آپ نے چھ لیکچر دیے جو ۳۰ء میں ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوئے. وہاں سے آپ میسور بنگلور ہوتے ہوئے حیدر آباد کن آئے. یہاں کی علمی مجلسوں کو نوازا. اور طالباتِ علم کی پیاس بجھائی. 

دسمبر ۳۰ء سرکار برطانیہ نے گول میز کانفرنس میں نمائندہ مقرر کرکے لندن بھیجا. (۴ جنوری ۱۹۳۱ء کو محمد علی کا انتقال ہوا) 
اکتوبر ۳۲ء میں تیسری کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے. 

ماہ دسمبر ۳۲ء میں لندن میں 
ARISTOTELIAN SOCIETY کے سالانہ جلسہ میں ایک معرکۃ الآراء مضمون پڑھا جس کا عنوان ہے “IS RELIGION POSSIBLE” 
اس سفر میں آپ نے اسپین کا بھی دورہ کیا اور عربوں کی عظمت رفتہ کے آثار غرناطہ اور قرطبہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھے. فروری یا مارچ ۳۳ء میں واپس آئے. 
(واضح ہو کہ یہ مضمون ۳۳ء میں لکھا تھا اس لیے یہیں ختم ہوگیا.)

۱۰؎ پہلی ملاقات جنوری ۱۹۲۵ء میں ہوئی تھی. 
۱۱؎ یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے اب ۱۹۶۹ء میں میری رائے بدل چکی ہے.
۱۲؎ اس مثنوی سے شاعری مقصود نہیں ہے. نہ ہی بت پرستی یا بت گری مقصود ہے. 
۱۳؎ چونکہ عالم کی حیات زورِ خودی پر موقوف ہے اس لیے زندگی بقدر استواری ہے. 
۱۴؎ جب قطرہ خودی کا سبق حفظ یاد کرلیتا ہے تو اپنی بے قیمت ہستی کو موتی میں تبدیل کرلیتا ہے. 
۱۵؎ زندگی تو جستجو میں پوشیدہ ہے اور اس کی اصل آرزو میں پوشیدہ ہے.
۱۶؎ دل سوز آرزو سے زندگی حاصل کرتا ہے اور جب وہ زندگی حاصل کرتا ہے تو غیرِ حق فنا ہوجاتا ہے. 
۱۷؎ زندہ انسان کو تمنا کی نفی مردہ کردیتی ہے (جس طرح اگر شعلے میں سوز کم ہوجائے تو وہ (آخر کار) افسردہ ہوجاتا ہے. 
۱۸؎ علم کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کی حفاظت کا سامان مہیا کرے اور خودی کی تقویم (پائداری) کے اسباب فراہم کرے. 
۱۹؎ خودی محبت سے پائندہ تر، زندہ تر، سو زندہ تر اور تابندہ تر ہوجاتی ہے. 
۲۰؎ عشق کو تیغ و خنجر کا خوف نہیں ہوتا کیونکہ اس کی اصل مادی نہیں ہے. 
۲۱؎ عشق کی بدولت نجد کی خاک چالاک ہوگئی. وجد میں آئی اور آسمان کے اوپر چلی گئی. 
۲۲؎ مصطفٰے کا مقام مسلمان کے دل میں ہے اور ہماری آبرو مصطفٰے ہی کے نام سے ہے. 
۲۳؎ جنہوں نے دشمنوں پر رحمت کا دروازہ کھولا اور مکے کو لاتثریب (آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا) کا پیغام دیا. 
۲۴؎ انہوں نے نسب کے امتیازات کو بالکل فنا کردیا ان کی تعلیم نے اس خس و خاشاک کو بھسم کردیا. 
۲۵؎ گلِ صد برگ کی طرح ہماری خوشبو بھی ایک ہی ہے. وہی اس نظام کی جان ہیں اور وہ ایک ہیں. 
۲۶؎ کیا تو عشق رسول کا مدعی ہے؟ اگر ہے تو پھر محبوب کی تقلید کرکے محکم ہوجاتا. تاکہ تیری کمند یزداں کو شکار (گرفتار) کرسکے. 
۲۷؎ تاکہ خدائے کعبہ تجھ پر نوازش فرمائے اور تجھے انی جاعلٌ کی شرح بنا دے. یعنی خلیفۃ اللہ فی الارض کے مقام پر فائز فرما دے. 
۲۸؎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح اونٹ سے خود نیچے اتر. غیر کا احسان اٹھانے سے سو بار اللہ کی پناہ. 
۲۹؎ اپنا رزق دوسرے کے دسترخوان سے مت ڈھونڈ. آفتاب کے چشمے سے پانی کی موج مت مانگ.
۳۰.۳۱؎ تاکہ تو پیغمبر کے سامنے اس دن شرمندہ نہ ہو جو بہت روح فرسا ہوگا اس لیے اللہ سے ہمت طلب کر اور دنیا کا مقابلہ کر. دستِ سوال دراز کرکے ملت بیضا کی آبرو زائل مت کر. 
۳۲؎ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے اور چاند اس کی انگلی کے اشارے سے پھٹ جاتا ہے.
۳۳؎ وہ خصوماتِ جہاں میں حکم (پنچ) بن جاتا ہے اور شاہانِ عالم اس کے تابع فرمان ہوجاتے ہیں. 
۳۴؎ بے ہمتی سے صدہا امراض پیدا ہوجاتے ہیں مثلاً کوتاہ دستی، بے دلی اور دوں ہمتی.
۳۵.۳۶؎ چونکہ وہ (افلاطون) ذوقِ عمل سے محروم تھااور اس کی جان وارفتۂ معدوم تھی اس لیے وہ موجودہ 
ہنگامے (کائنات خارجی) کا منکر ہوگیا اور اعیانِ نا مشہود کا خالق بن گیا.
۳۷؎ بہت سی قومیں اس کی شراب سے مسموم ہوگئیں اور سوگئیں اور اس لیے ذوق عمل سے محروم ہوگئیں.
۳۸؎ اے وہ شخص کہ تیری تھیلی میں شاعری کی نقدی ہے. اس شاعری کو زندگی کی کسوٹی پر پرکھ (کہ یہ شاعری سچی ہے یا کھوٹی)
۳۹؎ فکر روشن میں عمل کی طرف رہنما ہوتی ہے جس طرح بجلی کی چمک کڑک سے پہلے ہوتی ہے (اور اس کی طرف رہنما ہوتی ہے) 
۴۰؎ تجھے لازم ہے کہ ادب میں فکرِ صالح سے کام لے اور اس کے لیے تجھے عربی شاعری کی طرف مراجعت کرنی پڑے گی.
۴۱؎ اے غفلت شعار! اطاعت الٰہی کی کوشش کر. اختیار، جبر (اطاعت) سے پیدا ہوسکتا ہے.
۴۲؎ ہر شے کا باطن قانون ہی سے قوی ہوتا ہے تو اس سامان سے کیوں غافل ہے؟
۴۳؎ آئین کی شدت کا شکوہ مت کر اور شریعت کی حدود سے باہر مت نکل.
۴۴؎ جو شخص خود اپنے نفس پر حکمران نہیں ہے وہ ضرور دوسرے کا محکوم بن جاتا ہے.
۴۵؎ جب تک لاالٰہ کا عصا تیرے ہاتھ میں ہے تو خوف کے ہر طلسم کو باطل کرتا رہے گا. 
۴۶؎ جو شخص بھی اقلیمِ لا میں آباد ہوگیا وہ عورت اور اولاد دونوں کی قید سے آزاد ہوگیا. 
۴۷؎ وہ ماسوائے اللہ سے قطع نظر کرلیتا ہے (اور) اپنے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دیتاہے.
۴۸؎ نائبِ حق تو عالم کی روح کی مانند ہوتا ہے اس کی ہستی (در اصل) اسمِ اعظم کا ظل ہوتی ہے. 
۴۹؎ وہ جزو اور کل (انسان اور خدا) کے رموز سے آگاہ ہوتا ہے اور اللہ کے حکم سے اس جہاں میں قائم ہوتا ہے. 
۵۰؎ وہ نوعِ انسانی کے لیے بشیر و نذیر ہوتا ہے وہ سپاہی بھی ہوتا ہے سپہ گر بھی ہوتا ہے اور امیر (سپہ سالار) بھی ہوتا ہے.
۵۱؎ وہ ”علم الاسماء” کا مدعا اور مقصود ہوتا ہے اور ”سبحان الذی اسری"” کا بھید ہوتا ہے.
۵۲؎ اس کی ذات ، ذات عالم کی تشریح ہوتی ہے اور ا سکے جلال سے عالم کی نجات وابستہ ہوتی ہے. 
۵۳؎ اے تہذیب کہن کے امانت دار! اپنے اجداد کے مسلک سے منحرف نہ ہو. 
۵۴؎ مسلمان کی طبیعت محبت کی بدولت قاہر ہے اور مسلمان اگر عاشق نہیں ہے تو کافر ہے. 
۵۵؎ اس کا دیکھنا اور نہ دیکھنا تابع احکامِ حق ہوتا ہے. اسی طرح اس کا کھانا پینا اور سونا بھی. 
۵۶؎ اپنے ہر عمل سے قربِ حق مقصود رکھ تاکہ تیری ذات سے اس کا جلال آشکار ہو. 
۵۷؎ جو شخص غیر اللہ کی خاطر تلوار کھینچتا ہے (جنگ کرتا ہے) در اصل وہ اپنی تلوار اپنے ہی سینے میں پیوست کرتا ہے.
۵۸؎ زندگی تو دوسروں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا نام ہے اور اپنے آپ کو بیت الحرم (کعبہ) سمجھنے کا نام ہے. 
۵۹؎ مسلمان کا علم سوزِ دل سے کامل ہوتا ہے کیونکہ اسلام کے معنی ہیں آفل کو ترک کردینا.
۶۰؎ دانشِ حاضر سے سوزِ عشق مت طلب کرو. حق کی کیفیت اس کافر کے جام سے مت مانگو. 
۶۱؎ دانِش حاضر تو حجاب اکبر ہے. بت فروش ، بت پرست اور بت تراش ہے.
۶۲؎ جو اللہ تعالیٰ کے جمال کا عاشق ہے وہی تمام کائنات کا سردار ہے. 
۶۳؎ میں کیا بتاؤں کہ اس شمشیر کا راز کیا ہے؟ اس کی آب زندگی سے اپنا سرمایہ (اپنا وجود) حاصل کرتی ہے. 
۶۴؎ حیدر کا ہاتھ جو کہ خیبر گیر تھا اس کی قوت اسی تلوار سے تھی.
۶۵؎ تو کہ زمان کی اصل سے آگاہ نہیں ہے (اسی لیے ) حیاتِ جاوداں سے آگاہ نہیں ہے. 
۶۶؎ زندگی دہر (زمان) سے ہے اور دہر زندگی سے ہے. اسی لیے نبی کا فرمان یہ ہے کہ ”لا تسبوا الدھر” یعنی دہر کو برا مت کہو. 
۶۷؎ سازِ وقت نغمۂ خاموش رکھتا ہے اور اگر تو زمان کے راز سے آگاہ ہونا چاہتا ہے تو اپنے دل میں غوطہ لگا.
۶۸؎ عشق کو شغلِ لا سے آگاہ کر اور الا اللہ کے رمز سے آشنا کر.
۶۹؎ میں تو تیرے لطف وکرم سے ایک ہمدم کا طالب ہوں جو میری فطرت کے رموز سے آگاہ ہو.
۷۰؎ تاکہ میں اپنا سوز اس کے دل میں منتقل کرسکوں اور پھر اس کے دل میں اپنا چہرہ دیکھوں. 
۷۱؎ فرد ملت ہی سے احترام حاصل کرتا ہے اور ملت افراد ہی کی بدولت منظم ہوتی ہے. 
۷۲؎ جس شخص نے ملت کے زمزم سے پانی نہ پیا تو اس کے نغمات کے شعلے اس کے عود (ساز) میں فسردہ (مردہ) ہوکر رہ جائیں گے.
۷۳؎ انسان کی فطرت آزاد بھی ہے اور مقید بھی ہے اور اس کے جزو میں کل کو گرفت میں لانے کی قوت پوشیدہ ہے.
۷۴؎ جماعت سے وابستہ رہ کر خودی خود شکن بن جاتی ہے لیکن اس کا ثمرہ یہ ملتا ہے کہ وہ خودی پھول کی پتی سے ترقی کرکے چمن ہوجاتی ہے.
۷۵؎ ستاروں کی محفل جذب باہمی پر موقوف ہے اور ایک ستارے کی ہستی دوسرے ستارے کی بدولت محکم ہے. 
۷۶؎ نبی کہتا ہے کہ تو کسی انسان کا بندہ نہیں ہے اور ان بتانِ بے زباں سے کمتر نہیں ہے. 
۷۷؎ تاکہ انہیں ایک اور صرف ایک مقصد پر متحد کرسکتے وہ (نبی) ان کے پاؤں میں قانون کی بیڑیاں ڈال دیتا ہے.
۷۸؎ انہیں توحید کا نکتہ از سرنو سکھاتا ہے. نیز تسلیم و رضا کا قانون سکھاتا ہے.
۷۹؎ خوف اور شک دونوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور عمل کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی آنکھ کائنات کی مخفی طاقتوں کو دیکھ سکتی ہے.
۸۰؎ جب عبدہٗ کا مقام محکم ہوجاتا ہے تو (مسلمان کا) بھیک مانگنے کا پیالہ جام جمشید بن جاتا ہے. 
۸۱؎ ملتِ بیضا بمنزلۂ تن ہے اور کلمۂ توحید اس کے حق میں بمنزلۂ روح ہے. یہ توحید ہی ہمارے ساز ہستی کے پردوں کو گردش دیتی ہے. کلمۂ توحید ہی ہمارے تمام اسرار حیات کا سرمایہ ہے اور اس کا دھاگاہی ہمارے تمام افکار کا شیرازہ ہے . 
۸۳؎ ملت کا وجود دلوں کی یک رنگی پر موقوف ہے اور یہ کوہ سینا (ملت) ایک ہی جلوے سے منور ہے 
۸۴؎ قوم کے افراد کے دماغوں میں ایک ہی تصور ہونا چاہیے اور ان کے دلوں میں ایک ہی مقصود ہونا چاہیے. 
۸۵؎ نسب پر ناز کرنا نادانی ہے کیونکہ اس کا حکم صرف جسم پر نافذ ہے اور جسم فانی ہے.
۸۶؎ ہماری ملت کی بنیاد کچھ اور ہی ہے اور یہ بنیاد ہمارے دلوں میں پوشیدہ ہے.
۸۷؎ ہم حضور  کی تعلیم کی برکت سے بھائی بھائی بن گئے ہیں اور یک زباں، یک دل اور یک جان ہوگئے ہیں. 
۸۸؎ اے مسلمان کہ تو غم کے زندان میں قید ہے اپنے نبی  سے 
’’لا تحزن ان اللہ معنا” کی تعلیم سیکھ. 
۸۹؎ ایمان کی قوت تیری حیات کو بڑھا سکتی ہے اس لیے تجھے 
’’لاخوف علیہم” کا ورد کرنا چاہیے. 
۹۰؎ غیر اللہ کا خوف، عمل کا دشمن ہے اور زندگی کے قافلے کا رہزن ہے. 
۹۱؎ تیرے قلب میں جو بھی برائی پوشیدہ ہے اگر تو غور کرے تو تجھے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی بنیاد غیر اللہ کا خوف ہے.
۹۲؎ جس نے بھی آنحضرت کی تعلیم کی روح کو سمجھ لیا ہے اس پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ شرک در اصل خوف میں پوشیدہ ہے یعنی جو غیر اللہ سے ڈرتا ہے وہ دراصل مشرک ہے.
۹۳؎ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہی ایمان کا عنوان ہے اور کچھ نہیں. غیر اللہ کا خوف (غیر اللہ سے ڈرنا) ہی شرک پنہاں ہے اور کچھ نہیں. 
۹۴؎ نبی مسلمان کے قلب و جگر کی قوت بن جاتا ہے اور خدا سے بھی زیادہ محبوب ہوجاتا ہے.
۹۵؎ ہم نے دینِ فطرت نبی سے سیکھا اور اس طرح راہِ حق میں ایک شمع روشن کردی. 
۹۶؎ حضور کا یہ ارشاد کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، در اصل خدا کا احسان ہے جو اس نے بندوں پر کیا ہے اور یہ عقیدہ پردۂ ناموس مصطفٰے ہے.
۹۷؎ مسلمان کے دل میں یہ عقیدہ راسخ ہے کہ سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور حریت کا عقیدہ اس کی ہستی کا سرمایہ ہے. 
۹۸؎ مسلمان امتیازات کو برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ مساوات کا عقیدہ اس کی نہاد (سرشت) میں سماگیا ہے.
۹۹؎ وہ حق کے لیے خاک اور خون میں لوٹا. اس طرح وہ لا الہ کی بنیاد بن گیا. 
۱۰۰؎ مسلمان ما سوی اللہ کا غلام نہیں ہوسکتا اور اس کا سر کسی فرعون کے آگے نہیں جھک سکتا. 
۱۰۱؎ ہم نے قرآن کی رمز حسین سے سیکھی اس کی آگ سے بہت سے شعلے جمع کیے .
۱۰۲؎ تو مسلم ہے اس لیے اپنا دل کسی خاص اقلیم سے مت لگا اور اس جہان چون و چند میں گم مت ہوجا. 
۱۰۳؎ دل کی دولت حاصل کر کیونکہ یہ جہانِ آب و گل دل کی وسعت میں گم ہوجاتا ہے. 
۱۰۴؎ ہجرت مسلمان کی زندگی کا قانون ہے یہ مسلمان کے ثبات کے اسباب میں سے ہے. 
۱۰۵؎ مچھلی کی طرح سمندر میں آباد ہوجا یعنی قیدِ مکاں سے آزاد ہوجا. 
۱۰۶؎ جو شخص قیدِ مکان سے آزاد ہوگیا وہ آسمان کی طرح کائنات میں آباد ہوگیا. 
۱۰۷؎ جس سیاست نے مذہب کی مسند پر قبضہ کرلیا تو مغرب کے گلشن میں یہ شجر پروان چڑھا. 
۱۰۸؎ نتیجہ یہ نکلا کہ جسم سے روح نکل گئی صرف جسم باقی رہ گیا آدمیت تو گم ہوگئی صرف اقوام باقی رہ گئیں. 
۱۰۹؎ مسلمان قوم خدا کی نشانیوں میں سے ہے اور اس کی اصل ”قالوا بلی” کے ہنگامے سے ہے. 
۱۱۰؎ یہ قوم موت سے بے پروا ہے اور ”نحن نزلنا”سے استوار ہے.
۱۱۱؎ چونکہ خدا نے ”ان یطفئوا” فرما دیا ہے اس لیے یہ چراغ بجھ جانے سے محفوظ ہوگیا ہے. 
۱۱۲؎ مسلمان کی ہستی صرف آئین پر موقوف ہے. نبی کے دین کا باطن صرف یہی ہے اور کچھ نہیں. 
۱۱۳؎ قرآن حکیم زندہ کتاب ہے اور اس کی حکمت لازوال اور قدیم ہے. 
۱۱۴؎ اس کے الفاظ شک اور تغیر سے پاک ہیں اور اس کی آیات تاویل سے بے نیاز ہیں.
۱۱۵؎ یہ کتاب نوعِ انسان کے لیے پیامِ آخریں ہے اور رحمۃ للعالمین اس کے حامل ہیں. 
۱۱۶؎ اے مسلمان تو رسوم میں گرفتار ہوچکا ہے اور کفر کے طریقے حق میں زندان بن گئے ہیں. 
۱۱۷؎ تونے ”زبر” میں اپنے امر کو قطع کردیا اور تو 
’’الی شیء نکر” کے صحرا میں جادہ پیما ہوگیا. 
۱۱۸؎ اگر تو مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں جب تک تو صرف قرآن کو اپنا رہنما نہیں بنائے گا. 
۱۱۹؎ اگر تقلید کرنا کوئی نیک طریقہ ہوتا تو پیغمبر بھی اپنے باپ دادا کے مذہب کی تقلید کرتے.
۱۲۰؎ اپنے بزرگوں کی راہ پر چل کیونکہ جمعیت اسی صورت سے حاصل ہوگی. تقلید کا مطلب ہے ملت کے قانون کا اتباع.
۱۲۱؎ توحید کا مطلب اپنے دل پر نقش کرلے اور تقلید سے اپنے طرز عمل کو درست کرلے.
۱۲۲؎ انحطاط کے زمانے میں اجتہاد کرنا گویا قوم کی بساط کو لپیٹ دینا ہے. 
۱۲۳؎ عالمانِ کم نظر کے اجتہاد سے اسلام کی پیروی کرنا بہتر ہے.
۱۲۴؎ مسلمان یک آئینی سے زندہ ہے اور ملت کا جسم قرآن کی بدولت زندہ ہے. 
۱۲۵؎ ہم سب خاک ہیں صرف قرآن دل آگاہ ہے اسے مضبوطی سے تھام لے کیونکہ وہ ”اللہ کی رسی” ہے. 
۱۲۶؎ کیا تو جانتا ہے کہ اس فرمان کا راز کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ خطروں میں زندگی بسر کرنا ہی حقیقی زندگی ہے.
۱۲۷؎ دینِ مصطفٰے دینِ حیات ہے اور اس کی شریعت آئینِ حیات کی تفسیر ہے.
۱۲۸؎ جب سے مسلمانوں نے شعارِ مصطفٰے کو ترک کردیا اس وقت سے قوم رمزِ بقا سے محروم ہوگئی.
۱۲۹؎ ایک مرید سے کہا کہ اے جانِ پدر! تجھے خیالات عجم سے بچنا لازم ہے.
۱۳۰؎ (کیونکہ) اگرچہ اس کی فکر آسمانوں سے بھی اونچی ہوگئی لیکن دینِ نبی کی حدود سے متجاوز ہوگئی.
۱۳۱؎ اپنے دل کو حرفِ حق (قرآن) سے مضبوط کر، عرب سے موافقت پیدا کرتا کہ تو مسلمان ہوسکے. 
۱۳۲؎ اپنی زندگی کا رشتہ ختم الرسل سے مت توڑ. نیز اپنے فن اور اپنے قدم پر بھروسا مت کر. 
۱۳۳؎ اے مسلمان تو مصطفٰے کی شاخ کا ایک غنچہ ہے اس لیے مصطفٰے کی باد بہاری سے پھول بن جا.
۱۳۴؎ تجھے اسی کی بہار سے رنگ و بو حاصل کرنی چاہیے اور اسی کے خُلق سے کچھ حصہ حاصل کرنا چاہیے.
۱۳۵؎ جس کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا اس کی رحمت عام ہے اور اس کے اخلاق عظیم ہیں.
۱۳۶؎ اگر تو اس کے مقام سے دور ہے تو پھر ہماری جماعت میں سے نہیں ہے.
۱۳۷؎ امتوں کی پیدائش کا قانون یہی ہے کہ زندگی کسی مرکز پر مجتمع ہوتی ہے.
۱۳۸؎ قوم میں ربط اور نظام مرکز ہی سے پیدا ہوتا ہے اور مرکز ہی سے اس کی زندگی میں دوام پیدا ہوتا ہے.
۱۳۹؎ بیت الحرام (مکہ) ہمارا راز دار بھی ہے اور راز بھی ہے اور بیت الحرام ہمارے لیے سوز بھی ہے اور ساز بھی ہے. 
۱۴۰؎ اسی نے ہم کو دنیا میں مشہور کیا اور اسی نے ہمارے حدوث سے قدم (ازلیت) کو وابستہ کردیا. 
۱۴۱؎ مدعا ہی زندگی کےبقا کا راز ہے اور زندگی کی سیماب صفت قوتوں کو ایک نقطے پر جمع کر سکتا ہے.
۱۴۲؎ جب زندگی کسی مقصد سے آشنا ہوجاتی ہے تو اس عالم کے اسباب کی ضابط ہوجاتی ہے. 
۱۴۳؎ مقصود عمل میں مثلِ روح پوشیدہ ہوتا ہے اور ہر عمل اسی سے اپنی کیفیت اور کمیت حاصل کرتا ہے. 
۱۴۴؎ چونکہ تیری ہستی کا راز تکبیر (اعلاء کلمۃ اللہ) میں پوشیدہ ہے اس لیے لا الہ الا اللہ کی حفاظت اور اشاعت تیرا فرض منصبی ہے. 
۱۴۵؎ جب تک ساری دنیا میں حق کی اشاعت نہ ہوجائے. اگر تو مسلمان ہے تو ایک لمحے کے لیے بھی آرام مت کرنا.
۱۴۶؎ ماسوا (کائنات) تسخیر کے لیے ہے اور کچھ نہیں ہے. اس کا سینہ تیرے تیروں کا نشانہ ہے اور کچھ نہیں ہے.
۱۴۷؎ اگر تو غنچہ ہے تو اپنی ذاتی سعی سے چمن تعمیر کر اور اگر تو شبنم ہے تو آفتاب کو مسخر کرلے . 
۱۴۸؎ اٹھ اور اپنی مخمور آنکھیں کھول اور اس عالم، مجبور کو بے قیمت اور بے کار مت سمجھ.
۱۴۹؎ اس کا مقصد مسلمان کی ذات کی توسیع ہے اور مسلمان کی ذاتی قوتوں کا امتحان لینا ہے. 
۱۵۰؎ اللہ تعالیٰ نے اس جہاں کو نیکوکاروں کے حصے میں دے دیا ہے اور اس کا جلوہ مومن کی آنکھ کے حوالے کردیا ہے. 
۱۵۱؎ تو کہ خطاب ”انظر”کا مقصود ہے (اللہ نے انسان کو حکم دیا ہے کہ اونٹ کی تخلیق پر غور کرے) اس راستے (حیات دنیوی) کو اندھوں کی طرح کیوں طے کر رہا ہے؟ (کائنات میں غور کیوں نہیں کرتا؟)
۱۵۲؎ علم اسماء ہی سے آدم کی اولاد کی عزت ہے اور حکمت اشیا سے آگاہی کی بن پر ہی وہ اپنی حفاطت کرسکتا ہے. 
۱۵۳؎ ربط ایام ہمارے لیے بمنزلہ پیرہن ہے اور حفظ روایات کہن اس کے لیے بمنزلہ سوئی ہے. 
۱۵۴؎ اے کہ تو اپنے سے بیگانہ ہوچکا ہے. بتا تو سہی کہ تاریخ ہے کیا؟ کیا یہ کوئی داستان یا قصہ یا افسانہ ہے؟ 
۱۵۵؎ نہیں بلکہ یہ تجھے تجھ سے آگاہ کرتی ہے. تجھے اشنائے کا ر اور مردِ راہ بناتی ہے.
۱۵۶؎ اگر تو حیاتِ لازوال چاہتا ہے تو اپنے ماضی کا رشتہ حال و مستقبل سے مت توڑ. 
۱۵۷؎ وہ جس کے وجود پر کائنات ناز کرتی ہے اس نے عورت کا ذکر خوشبو اور نماز کے ساتھ کیا ہے.
۱۵۸؎ جس مسلمان نے عورت کو کنیز سمجھا وہ قرآنی حکمت سے کوئی حصہ حاصل نہ کرسکا. 
۱۵۹؎ اگر تو غور سے دیکھے تو امومت ایک رحمت ہے کیونکہ اس کو نبوت سے ایک نسبت حاصل ہے. 
۱۶۰؎ عورت کی شفقت پیغمبر کی شفقت سے مشابہ ہے اور اقوام کی سیرت کی تشکیل کرتی ہے.
۱۶۱؎ اس مقصودِ حرف ”کن فکاں” نے فرمایا ہے کہ جنت تو ماؤں کے قدموں کےنیچے ہے.
۱۶۲؎ ملت کا وجود ماؤں کی تعظیم پر موقوف ہے ورنہ کارِ زندگی خام ہے.
۱۶۳؎ مائیں رمزِ اخوت کی محافظ ہوتی ہیں. اور قرآن اور ملت کے حق میں ان کا وجود باعثِ تقویت ہوتاہے.
۱۶۴؎ بتول تسلیم کی کھیتی کا حاصل ہے اور ماؤں کے لیے اسوۂ کاملہ ہے.
۱۶۵؎ وہ صبر و رضا کی ادب پروردہ چکی پیستی رہتی تھی اور قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھی.
۱۶۶؎ ہمارا بچہ جب تیرا دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے تو سب پہلے تو ہی اسے لا الہ الا اللہ کہنا سکھاتی ہے.
۱۶۷؎ تیری ہی محبت ہمارے اطوار کی تشکیل کرتی ہے اور ہماری گفتار، فکر اور کردار کی تشکیل کرتی ہے. 
۱۶۸؎ دورِ حاضر بہت عیار اور مکار ہے اور اس کا کارواں نقدِ دین کے لیے بمنزلۂ رہن ہے.
۱۶۹؎ اس کا ادراک اندھا اور خدا ناشناس (خدا کا منکر) ہے اور کم عقل افراد اس کے پیچاک میں گرفتار ہیں.
۱۷۰؎ اے مسلمان خاتون! دنیا کے ہنگاموں سے ہوشیار رہ اور اپنے بیٹوں کو اپنی آغوش میں محفوظ کرلے.
۱۷۱؎ ایک ہوجا اور ایک سے موافقت پیدا کر. دوئی سے تعلق قطع کرلے. اپنی وحدت کو پارہ پارہ مت کر.
۱۷۲؎ ایک ہوجا اور توحید کو دیکھ لے اور اس کے غائب کو اپنے عمل سے موجود کرلے.
۱۷۳؎ عمل میں ایمان کی لذت بڑھ جاتی ہے. وہ ایمان مردہ ہے جو عمل میں منتقل نہیں ہوتا.
۱۷۴؎ بندۂ حق بنداسباب نہیں ہوتا. زندگانی رہٹ کی گردش نہیں ہے.
۱۷۵؎ تو (چونکہ) مسلمان ہے اس لیے غیر اللہ سے بے نیاز ہوجا اور اہل عالم کے حق میں سراپا خیر و برکت بن جا. 
۱۷۶؎ چونکہ راہ بہت دشوار ہے اس لیے کم سے کم سامان اپنے ساتھ رکھ. اس دنیا میں آزاد ہوکر زندہ رہ اور آزادی کی حالت میں رخصت ہو.
۱۷۷؎ کیکاؤس کے تخت پر لات مار دے . سر (گردن) کٹا دے مگر عزت نفس کو ہاتھ سے مت دے. 
۱۷۸؎ بے نیازی کیا ہے؟ خدا کی صفت اپنے اندر پیدا کرنا اور غیر کے رنگ کو اپنی شخصیت سے مٹانا. 
۱۷۹؎ تو دراصل آفتاب ہے. کبھی اپنے اندر تو جھانک. دوسروں کے ستاروں سے چمک دمک حاصل مت کر. 
۱۸۰؎ باپ، ماں اور چچاؤں (نسبی تعلقات) سے فارغ ہوجا اور سلمان کی طرح اسلام کا فرزند بن جا.
۱۸۲؎ اگر تو نسب کو جزوِ ملت بنا لے گا تو اخوت کے نظام میں رخنہ پڑجائے گا. 
۱۸۳؎ ہم نے تو محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کرلیا ہے اسی لیے ہم آپس میں مربوط ہوگئے ہیں.
۱۸۴؎ صرف اس سے محبت ہمارے باہمی تعلق کے لیے کافی ہے اور ہماری آنکھوں کے لیے صرف اس کی شراب کی کیفیت کافی ہے.
۱۸۵؎ عشق جان میں ہوتا ہے جبکہ نسب جسم میں ہوتا ہے اور عشق کارشتہ نسب سے محکم تر ہوتا ہے. 
۱۸۶؎ جو شخص بھی باپ دادا کی قید میں ہے وہ 
’’وہ لم یلد و لم یولد” کے نکتے سے نا واقف ہے. 
۱۸۷؎ ہمارا رشتہ ”لم یکن ” قوی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں ہم اقوامِ عالم میں بے مثال ہوسکتے ہیں.
۱۸۸؎ چونکہ خدا کی ذات واحد اور لاشریک ہے. اس لیے اس کا بندہ بھی کسی شریک سے موافقت نہیں کر سکتا.
۱۸۹؎ اس کے جسم پر ”لاتحزنوا” کا خرقہ ہوتا ہے ”انتم الاعلون” کا تاج اس کے سر پر ہوتا ہے.
۱۹۰؎ بندۂ مومن باطل کے سامنے بمنزلۂ تلوار اور حق کے سامنے بمنزلۂ سپر ہوتا ہے اور اس کا امر و نہی خیر و شر کے لیے بمنزلہ معیار ہوتا ہے.
۱۹۱؎ تو قرآن کو ترک کرکے دنیا میں ذلیل و خوار ہوگیا. اور اپنی کوتاہ فہمی کی بنا پر گردشِ دوراں کا شکوہ کرنے لگا. 
۱۹۲؎ اے شبنم کی طرح زمین پر گرنے والے مسلمان!! آگاہ ہو کہ قرآن تیری بغل میں ہے جو زندہ کتاب ہے.
۱۹۳؎ میں نے شاعری کی شمع سے محفل آراستہ کی اور قوم کو حیات کا راز بتایا.
۱۹۴؎ اگر میرا دل آئینۂ بے جوہر (سیاہ) اور اگر میرے کلام کوئی تعلیم غیرِ قرآنی ہے. 
۱۹۵؎ تو میری فکر کے ناموس کا پردہ چاک کردیجیے اور ملت کے خیاباں کو میرے کانٹوں سے پاک کردیجیے.
۱۹۶؎ نیز قیامت کے دن مجھے خوار اور رسوا کردیجیے اور اپنے پاؤں کے بوسے سے محروم کردیجیے.
۱۹۷؎ بارگاہِ ایزدی میں عرض کیجیے یعنی میرے لیے دعا کیجیے کہ میرا عشق عمل سے ہم آہنگ ہوجائے.
۱۹۸؎ چونکہ میری زندگی اعمال صالحہ سے خالی ہے اس لیے مجھے یہ آرزو زیب تو نہیں دیتی (مگر)
۱۹۹؎ آپ کی شانِ رحمت تو گیتی نواز ہے (اس لیے) آرزو کرتا ہوں کہ میں حجاز میں وفات پاؤں.
۲۰۰؎ اگر میرے جسم کے اجزاء آپ کے دروازے سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں تو اگرچہ میری موجودہ زندگی قابل افسوس ہے مگر آئندہ زندگی قابلِ تحسین ہوجائے گی.
۲۰۱؎ میرے ستارے (مقدر) کو دیدۂ بیدار عطا فرما. اور اپنی دیوار کے سائے میں دو گز زمین عطا فرما.