ان آیات کے ترجمے سے جو مضامین ہمارے سامنے آئے‘ ان میں سے اکثر مضامین اس سے قبل اس منتخب نصاب کے مختلف اسباق میں آ چکے ہیں. مثلاً شرک کی مذمت و ممانعت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں بیان ہو چکا ہے. اقرباء‘ یتامی اور مساکین کے ساتھ نیک سلوک اور ان کی احتیاجوں کے رفع کرنے میں اپنا مال خرچ کرنے کے مضامین آیۂ بِر میں بھی آئے (جو ہمارا درس نمبر دو تھا) اور پھر سورۃ المعارج میں بھی یہ آیات وارد ہوئیں:
وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۪ۙ۲۴﴾لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۪ۙ۲۵﴾ ’’اور وہ لوگ جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے مانگنے والے کے لیے بھی اور محروم کے لیے بھی‘‘. اسی طرح قتل ناحق کی مذمت و ممانعت سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں آ چکی ہے. زنا کی شناعت کا ذکر بھی اسی سبق میں آ چکا ہے. ایفائے عہد کی تاکید آیۂ بر میں بھی آئی اور اس کا ذکر سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی ہم مضمون آیات میں بھی آیا ہے. تکبر اور غرور کی مذمت اور تواضع‘ فروتنی اور حلم کی تلقین سورۂ لقمان کے سبق میں بھی آ چکی ہے اور یہی مضمون سورۃ الفرقان میں مثبت پیرائے میں بایں الفاظ آ چکا ہے : وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا (آیت ۶۳) ’’اوراللہ کے محبوب بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں (آہستگی اور فروتنی کے ساتھ )چلتے ہیں.‘‘
قرآن حکیم میں مضامین کی تکرار کے ضمن میں چند باتیں قابل توجہ ہیں. قرآن مجید میں اگر مضامین کی تکرار ہوتی ہے تو اس سے اوّلا ً تو ان مضامین کی اہمیت کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے. ثانیاً تکرارِ محض کہیں نہیں ہوتی‘ تکرارِ محض کلام کا عیب شمار ہوتا ہے اور قرآن مجید اس عیب سے پاک ہے. اگر کہیں کوئی مضمون دوہرا کر آتا ہے تو اسلوب بدلا ہوا ہوتا ہے. وہی بات کہ ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں!‘‘ اس اندازِ بیان اور اسلوب کے فرق سے اس کلام کی دل نشینی‘ دل آویزی‘ اثر انگیزی اور اثر پذیری میں اضافہ ہوتا ہے. ثالثا ً بعض مقامات پر ایسا ہوتا ہے کہ موضوع تو مشترک ہوتا ہے لیکن کہیں وہ انفرادی سیرت و کردار کے ضمن میں آ رہا ہوتا ہے اور کہیں وہی بات معاشرتی اور سماجی اقدار کی حیثیت سے سامنے لائی جا رہی ہوتی ہے. رابعا ً جہاں بھی کوئی مضمون دوسری بار آتا ہے تو اگر اسے نظر ِغائر سے دیکھا جائے تو وہاں کوئی نہ کوئی نیا پہلو مل جاتا ہے. چنانچہ اگر قرآن مجید میں کہیں تکرار محسوس ہو تو آپ ان چاروں میں سے کسی نہ کسی ایک بات کو وہاں موجود پائیں گے.
ان سب باتوں کو جمع کر کے سورۃ الزمر کی ایک آیت کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جس میں قرآن مجید اپنا تعارف ان الفاظِ مبارکہ میں کراتا ہے : کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا (آیت ۲۳) یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے مضامین باہم مماثل ہیں اور دوہرا دوہرا کر آتے ہیں. بقول اقبال : ؏
’’شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں مری بات!‘‘
اگر ایک انداز سے بات سمجھ میں نہیں آئی تو شاید دوسرے انداز سے سمجھ میں آ جائے. زیر درس آیات کے متن اور ترجمہ سے ان آیاتِ مبارکہ کے مضامین کا ایک اجمالی نقشہ ہمارے سامنے آگیا ہے. اب ہم ان میں سے اہم نکات کے بارے میں کسی قدر تفصیل سے گفتگو کریں گے.