دوسرا نکتہ ہے: وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ ’’اور ماں باپ کے ساتھ حسن ِسلوک کرو‘‘. یہ مضمون اس سے پہلے سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں بھی آ چکا ہے: وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ (آیت ۱۴’’اور ہم نے انسان کو وصیت کی اپنے والدین (سے حسن سلوک) کے بارے میں‘‘. نیز قرآن مجید میں متعدد مقامات اور بھی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہے. غور طلب بات یہ ہے کہ اس مضمون کی خصوصی اہمیت کیا ہے؟ اگر آپ ذرا غور کریں گے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ جسے ہم معاشرہ یا سماج کہتے ہیں وہ خاندانوں کا اجتماع ہے‘ بہت سے خاندان مل کر معاشرے کی صورت اختیار کرتے ہیں. گویا معاشرے کی اکائی خاندان ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر خاندان مستحکم ہو گا ‘اس کا نظام مضبوط ہو گا تو پورا معاشرہ بھی مستحکم ہو گا‘ اور اگر خاندان کمزور پڑ جائے تو پورے معاشرے میں بھی اضمحلال اور فساد رونما ہو گا. اس لیے کہ اگر اینٹیں کچی ہوں گی تو فصیل بھی کچی ہو گی اور اگر اینٹیں پکی ہوں اور ہر اینٹ اپنی جگہ مضبوطی سے جمی ہوئی ہو تو فصیل بھی مضبوط ہو گی. ایک مشہور مفکر نے ایک بڑی عجیب بات کہی ہے کہ مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کے مطالعے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کوئی تہذیب اور کوئی تمدن اُس وقت تک زوال سے دوچار نہیں ہوتا جب تک اس میں خاندان کا ادارہ کمزور نہ پڑ جائے. یہ گویا تہذیب وتمدن کے اضمحلال اور زوال کا نقطۂ آغاز ہے.

اب اگر ہم غور کریں تو خاندان کے ادارے کے تین اہم گوشے ہیں. ایک گوشہ شوہر اور بیوی کے باہمی ربط و تعلق کا ہے‘ دوسرا گوشہ والدین اور اولاد کے باہمی ربط و تعلق کا ہے اور تیسرا گوشہ بہنوں اور بھائیوں کے درمیان رشتہ ٔاخوت سے متعلق ہے. خاندان کے ادارے کے ان اَبعادِ ثلاثہ (Three Dimensions) کے مابین صحیح توازن قائم رہے گا تو خاندان کا نظام مستحکم ہو گا. جہاں تک شوہر اور بیوی کے باہمی تعلق کا معاملہ ہے‘ اس موضوع پر ہم سورۃ التحریم میں قرآن مجید کی بنیادی راہنمائی قدرے تفصیل کے ساتھ دیکھ چکے ہیں.

اب یہاں یہ سمجھئے کہ اگر کسی معاشرے میں والدین سے بے رُخی عام ہو جائے تو یہ خاندانی نظام کو مضمحل کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہو گا. اگر والدین کو یہ اعتماد نہ ہو کہ بڑھاپے میں ہماری اولاد ہمارا سہارا بنے گی تو ان میں بھی خودغرضی پیدا ہو سکتی ہے. پھر وہ بھی اپنے آپ کو اولاد میں کلیتاً کھپا دینے 
(invest کرنے) کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے اور اپنے مستقبل کے لیے کچھ بچا بچا کر رکھیں گے. لیکن اگر کسی معاشرے میں یہ قدر (value) موجود ہے کہ بوڑھے والدین کی اولاد اُن کا سہارا بنتی ہے‘ ان کی ذمہ داریوں کو پوری طرح نباہتی اور ادا کرتی ہے تو والدین بھی اپنی جوانی کے دور کی ساری توانائیاں اپنی اولاد پر کھپاتے اور invest کرتے ہیں. ہمارے یہاں آج بھی الحمد للہ یہ رنگ بڑی حد تک موجود ہے . لیکن اس کے بالکل برعکس صورتِ حال دیکھنا چاہیں تو آپ یورپ اور امریکہ جا کر وہاں کے معاشروں کا مشاہدہ کیجیے. وہاں موجودہ دور میں بڑھاپا سب سے بڑی لعنت سمجھی جاتی ہے. اگرچہ وہاں حکومت کی سطح پر بوڑھوں کے لیے ادارے قائم ہیں‘ ان کی دیکھ بھال ہو رہی ہے‘ لیکن وہ جو محبت کی پیاس ہوتی ہے اس پیاس کی تسکین کا ان اداروں میں کوئی سامان نہیں ہے. وہ اپنی اولاد کو دیکھنے تک کے لیے تڑپتے رہتے ہیں.ان ممالک میں کرسمس کی اہمیت اب یہ رہ گئی ہے کہ بوڑھے والدین ان اداروں میں اپنے دل میں یہ تمنا اور توقع لیے منتظر رہتے ہیں کہ شایداس کرسمس پر ہمارے بچے ہم سے ملنے آئیں اور اس موقع پر ہم اپنی اولاد کی شکل دیکھ سکیں.

اس کے برعکس نظام ہے جو اسلام نے دنیا کو دیا ہے. اس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اللہ کے حقوق کے متصلا ً بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہوتا ہے. جیسا کہ عرض کیا گیا‘ قرآن حکیم میں تکرارِ محض کہیں نہیں ہوتی. سورۂ لقمان میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے والدہ کا ذکر بطورِ خاص کیا گیا تھا : حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ (آیت ۱۴’’اس کو اٹھایا اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف جھیل کر‘ اور اس کا دودھ چھڑانا ہے دو سالوں میں.‘‘ 

یہاں ضعیفی کی وہ عمر خاص طور پر پیش نظر ہے جس کو قرآن مجید میں ارذل العمر 
(النحل:۷۰قرار دیا گیا ہے‘ یعنی عمر کا وہ حصہ جو بڑا ہی کمزوری اور بے چارگی والا حصہ ہے. نبی اکرم نے خود بھی عمر کے اس حصے سے اللہ کی پناہ طلب کی ہے. عمر کے اس حصے میں ایک تو بوڑھے والدین کے احساسات زیادہ نازک ہو جاتے ہیں. دوسرے اکثر و بیشتر ان کے فہم میں بھی کمی آجاتی ہے‘ جیسے سورۂ یٰسٓ میں فرمایا : وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ (آیت ۶۸’’جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ دیتے ہیں‘‘.ان کی ذہنی توانائیاں پہلی سی نہیں رہتیں اور ان کے فہم و فکر میں اضمحلال واقع ہو جاتا ہے. بہت سے لوگوں کا مشاہدہ ہو گا کہ بڑھاپے میں انسان میں بچپن کی سی خواہشات عود کر آتی ہیں اور وہ کچھ اسی طرح کی فرمائشیں کرنے لگتا ہے. ان حالات میں واقعہ یہ ہے کہ اولاد کے لیے بڑی سخت آزمائش ہوتی ہے. وہ ان کی سب فرمائشیں پوری بھی نہیں کر سکتے‘ کہیں نہ کہیں روک لگانی پڑے گی‘ ان کی بات ردّ کرنا پڑے گی. اس کے پیش نظر یہاں حکم دیا جا رہا ہے کہ ان سے جب بھی بات کرو تو نرمی اور ادب کو بہرحال ملحوظ رکھو. سینہ تان کر بات نہ کرو‘ انہیں جھڑکو مت‘ ملامت نہ کرو. اور اگر ان کی کسی بات کو پورا نہیں کر سکتے ہو تو نرمی کے ساتھ معذرت کرو. ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے سامنے اپنے شانے جھکا کر رکھو. انہیں یہ احساس نہ ہو کہ آج یہ مجھ سے سینہ تان کر بات کر رہا ہے درآنحالیکہ یہ کبھی اس حال میں تھا کہ اس کا وجود بھی ہمارامرہونِ منت تھا‘ اس کی پرورش ہمارے ذمہ تھی اور ہم اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی ضروریات کو مقدم رکھتے تھے. اس کے ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ سے بھی دعا کرتے رہا کرو کہ پروردگار! مجھ سے اگر کوئی کوتاہی ہو ہی جائے تو تُو بخشنے والا ہے.اور والدین کے تمام حقوق میں خود ادا کر بھی نہیں سکتا‘ ان کے احسانات کا جو بارِ گراں میرے کاندھوں پر ہے ان کا حساب میں نہیں چکا سکتا ‘لہذا تجھ ہی سے استدعا کر رہا ہوں : رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾ ’’پروردگار! تُو اِن پر رحم فرما جیسے انہوں نے مجھے پالا پوسا جبکہ میں چھوٹا تھا.‘‘ 

ساتھ ہی یہ تسلی بھی دے دی کہ اگر استثنائی حالات میں کبھی تمہیں ان کی بات کو ردّ کرنا پڑے تو ایک سعادت مند بیٹے پر اس کا جواحساس طاری ہو گا اور جو کوفت اسے ہو گی اس کے ازالے کے لیے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں‘ تمہارا ربّ صرف ظاہر کو نہیں جانتا بلکہ وہ تو اسے بھی جانتا ہے جو تمہارے جی میں ہے : رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ ’’تمہارا ربّ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے جی میں ہے‘‘.تم نے اگر کسی وقت اپنے والدین کی فرمائش کو ردّ کیا ہے تو تمہاری کیا مجبوری ہے‘ تمہارے کیا حالات ہیں‘ تمہارا ربّ خوب جانتا ہے. اگر تم اپنی قلبی کیفیت کے اعتبار سے درست ہو اور نیک نیت ہو تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی مغفرت فرمانے والا ہے : اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا ﴿۲۵﴾ ’’اگر تم (واقعتا) نیک ہوئے تو یقینا اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں کے حق میں بہت مغفرت کرنے والا ہے.‘‘