اب تیسرے نکتے کی طرف آیئے. ویسے یہ مضمون بھی اس سے پہلے آ چکا ہے‘ لیکن یہاں ایک نئی شان سے آ رہا ہے‘ فرمایا: وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ’’اور رشتہ دار کو اُس کا حق ادا کرو اور رشتہ دار اور مسافر کو بھی (اپنے مال میں سے دو).‘‘دیکھئے‘ یہ بڑی فطری ترتیب ہے. خاندان کے ادارے کو مستحکم کرنے کے بعد اب انسان کے حسن سلوک کا دائرہ بڑھنا چاہیے‘ اور ظاہر بات ہے کہ ’’اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ‘‘ کے اصول کے مطابق جو سب سے قریب ہے وہ سب سے پہلے حسن ِ سلوک کا مستحق ہے. یعنی جو فطری طور پر مقدم ہے اسی کو مقدم رکھنا ہو گا. پس جو قرابت دار اور رشتہ دار ہیں ان کا حق حسن سلوک میں فائق اور مقدم رہے گا. پھر اس دائرے میں معاشرے کے محروم افراد کو شامل کرنا ہو گا‘ جن میں مساکین‘ مجبور‘ یتیم اور مسافر سبھی شامل ہیں. اس طرح حسن سلوک کا یہ دائرہ بڑھتا چلا جانا چاہیے.