اب ذرا غور کیجیے کہ تبذیر کیا ہے؟ تبذیر اس خرچ کو کہا جاتا ہے جس کی سرے سے کوئی حقیقی ضرورت ہوتی ہی نہیں. صرف نمود ونمائش کے لیے‘ لوگوں پر اپنی دولت کا رُعب گانٹھنے کے لیے اوراپنی دولت مندی کی دھونس جمانے کے لیے دولت خرچ کی جاتی ہے‘ جیسے ہمارے اہل ِثروت کے یہاں شادی کی تقاریب کے موقع پر ہوتا ہے.
یہاں تبذیر کی نہایت شدید مذمت بیان کی گئی ہے. فرمایا گیا کہ یہ مبذّرین (فضول خرچی کرنے والے) دراصل شیطانوں کے بھائی ہیں. غور کیجیے ایسا کیوں کہا گیا؟ شیطان انسانوں پر جو سب سے بڑا حربہ آزماتا ہے‘ خصوصاً معاشرتی‘ سماجی اور تمدنی سطح پر‘ وہ انسانوں کے دلوں سے باہم محبت و اخوت کے رشتوں اور جذبات کو ختم کر کے اس میں نفرت و عداوت کے بیج بو دینا ہے. چنانچہ شراب اور جوئے کے بارے میں سورۃالمائدۃ میں فرمایا گیا: اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ (آیت ۹۱) یعنی’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے دلوں میں بغض و عداوت کے بیج بو دے‘‘. غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ تبذیر سے بھی یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے . ایک بہت بڑے سرمایہ دار کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے‘ اس کا عالی شان بنگلہ جگمگ جگمگ کر رہا ہے‘ اس کے چپے چپے پر اور درختوں کے ایک ایک پتے کے ساتھ روشنی کے قمقمے لگا دیے گئے ہیں‘ پوری کوٹھی بقعہ ٔنور بنی ہوئی ہے. اسی کوٹھی میں اس کا کوئی شوفر بھی ہے‘ کوئی خانساماں بھی ہے‘ اس کے بنگلے میں مختلف کاموں کے لیے بہت سے دوسرے ملازمین بھی ہوں گے. ہو سکتا ہے کہ ان ملازمین میں سے کسی کی جوان بچی اس لیے بیٹھی ہوئی ہو اور اُس کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکتے ہوں کہ بچی کی شادی کے ضمن میں جو کم سے کم ضروری اخراجات ہوں‘ ان کے لیے بھی اس کے پاس پیسہ نہ ہو. اب آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ دولت کے اس طرح اظہار کو دیکھ کرکیا آپس میں محبت اور یگانگت کا احساس پیدا ہو گا؟ا س سے تو نفرت و عداوت کے بیج ہی دلوں میں بوئے جائیں گے. ’’haves‘‘اور ’’have nots‘‘ کا شعور اور طبقاتی فرق و تفاوت کے احساسات و جذبات کے ادراک کو دلوں میں پختہ کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر بات یہی ہے کہ دولت مند اپنی دولت کا اس طریقے سے اظہار کریں‘ اس کی نمائش کریں. اس طرح دلوں کے اندر نفرت و عداوت کا لاوا پکتا رہتا ہے. لہذا فرمایا:
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ﴿۲۷﴾
’’یقینا مبذرین (نام و نمود اور نمائش کے لیے اپنی دولت ا ڑانے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں‘ اور شیطان توہے ہی اپنے ربّ کا بے حد ناشکرا.‘‘
اگلی آیت میں ایک اور بات کی تلقین فرمائی کہ اگر تمہیں کبھی اپنے قرابت داروں‘ ضرورت مندوں یا سائلین سے کسی وقت معذرت کرنا ہی پڑے‘ اس لیے کہ تم خود بھی (فراغت اور کشادگی کے لیے) اللہ کی رحمت کے امیدوار ہو‘ تو بات نرمی کے ساتھ کرو‘ ان کو جھڑکو نہیں‘ جیسا کہ سورۃ الضحیٰ میں خود رسول اللہﷺ سے فرمایا گیا: وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕ۱۰﴾ ’’اور سائل کو نہ جھڑکو.‘‘یہاں ایک معاشرتی اخلاقی قدر (value) کے طور پر ہدایت دی جا رہی ہے :
وَ اِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡہُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ تَرۡجُوۡہَا فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا ﴿۲۸﴾
’’اور اگر تمہیں ان سے اعراض کرنا ہی پڑے‘ اس لیے کہ تم اللہ کی رحمت کے امیدوار ہو‘ تو ان سے بات نرمی سے کرو!‘‘
پھر یہ بھی فرمایا گیا کہ اس خیر اور بھلائی کے کام میں بھی اعتدال و توازن کی ضرورت ہے: وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ ’’اور اپنے ہاتھ کو نہ تو اپنی گردن کے ساتھ باندھ رکھو‘‘. یہ بخل کے لیے ایک تعبیر ہے. وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ ’’اور نہ اس کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو.‘‘اس میں بھی اعتدال کی ضرورت ہے. آدمی جذبات میں آ کر کسی وقت اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیتا ہے‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد میں پچھتائے. فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ﴿۲۹﴾ ’’پھر تمہیں بیٹھ رہنا پڑے ملامت زدہ ہو کر(اور) عاجز بن کر‘‘.اس کی اپنی اولاد فقیروں اور بھکاریوں کی صورت اختیار کر لے. اس لیے اس میں بھی توازن اور اعتدال درکار ہے.
اس مضمون کا اختتام اس آیت مبارکہ پر ہوتا ہے:
اِنَّ رَبَّکَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا ﴿٪۳۰﴾
’’بے شک تیرا ربّ ہی کھول دیتا ہے روزی جس کے لیے چاہے اور تنگ بھی وہی کرتا ہے. بلاشبہ وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا(اور) ان کو دیکھنے والاہے.‘‘
اس آیت کے ذریعے سے دراصل یہ اصول بیان کر دیا گیا کہ کسی کی کشادگی و تونگری اور کسی کی تنگی اور مفلسی کے ذمہ دار تم نہیں ہو اور نہ یہ واقعتاً تمہارے بس کی بات ہے. اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل اور حکمت ِ بالغہ کی بنا پر کرتا ہے اور فراخی و تنگی میں بھی بندے کا امتحان مقصود ہوتا ہے.