اسی کو رسول اللہﷺ نے فرمایا: عِدَۃُ الْمُؤْمِنِ دَیْنٌ وَعِدَۃُ الْمُؤْمِنِ کَالْاَخْذِ بِالْیَدِ (۲) یعنی ’’مؤمن کا وعدہ تو قرض ہوتا ہے ‘ اور مؤمن کا وعدہ تو ایسے ہے جیسے ہاتھ پکڑ لیا گیا ہو‘‘.اب وہ اس طرح اپنے آپ کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے جیسے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہو‘ اسے جکڑ لیا ہو. یہ ہے وہ نفسیاتی احساس اور کیفیت جس کی شدت کو انسان اپنے باطن میں محسوس کرے کہ میں زبان دے چکا ہوں‘ بات ہو چکی ہے‘ قول و قرار ہو گیا ہے. غور کیجیے کہ کسی معاشرے میں اور خاص طور پر کاروبار‘ لین دین‘ بیع و شراء (۱) تخریج مشکاۃ المصابیح لابن حجر العسقلانی : ۴/۳۹۵. الترغیب والترھیب للمنذری:۴/۷۵. راوی : عبداللّٰہ بن الحمساء ؓ .
(۲) جامع الصغیر للسیوطی‘ ح:۵۴۰۴. ضعیف الجامع للالبانی‘ ح:۳۶۸۹. اور تجارت میں‘ اور اس کی پھر جتنی بھی زیادہ ترقی یافتہ اور پیچیدہ صورتیں ہیں‘ ان سب میں اصل چیز یہی ایفائے عہد ہے. بلکہ اس سے معاشرے کے نمعلوم کتنے پہلوؤں میں اصلاح ِاحوال اور streamlining کی کیفیت ہوجائے گی‘ بالکل overhauling کا انداز ہو جائے گا. اگر کسی معاشرے میں ایفائے عہد کا رواج ہو جائے اور لوگ واقعتاً اپنے وعدوں کی پابندی کریں اور اس میں جانبین کو یہ اعتماد ہو کہ جو بات ہو رہی ہے وہ یونہی پوری ہو گی تو اندازہ کیجیے کہ اس معاشرے میں کتنا سکون و اطمینان ہو گا اور کتنا کچھ خرچ جو خواہ مخواہ احتیاطی تدابیر کرنے پر ہوتا ہے‘ وہ نہ ہو گا.مثلا ً کہیں چار مزدور کام کررہے ہیں تو ان پر ایک سپروائزر کھڑا کیا جاتا ہے اور ان سپروائزروں پر ایک مزید سپروائزر کی ضرورت ہوتی ہے. یہ سارے غیر ترقیاتی اخراجات ختم ہو سکتے ہیں اگر یہ اطمینان ہو کہ مزدور اپنے اس عہد میں بندھا ہوا کام کرے گا کہ میں نے جو آٹھ گھنٹے کام کرنا طے کیا ہے یہ مجھ پر واجب اور لازم ہے اور اپنی پوری قوتوں کو اس پر انڈیل دینا میرا فرض ہے‘ اس لیے کہ اس کے بغیر جو اجرت میں لوں گا وہ میرے لیے جائز اور حلال نہ ہو سکے گی. پس اندازہ کیجیے کہ واقعتاً سارے انسانی معاملات کے لیے ایفائے عہد ایک بڑی ہی بنیادی اہمیت کی حامل چیز ہے.