اس کے بعد فرمایا: وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ ’’اور وعدے کو پورا کرو‘‘. جب عہد کر لیا ہے تو اسے نبھاؤ‘ وعدہ ہوا ہے تو پورا کرو. اور یہاں اس میں تاکید کے لیے فرمایا گیا: اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۴﴾ ’’یقینا عہد کے بارے میں (خدا کے ہاں)باز پرس ہوگی‘‘. یہ نہ سمجھو کہ یہ تو ہمارے آپس کے معاملات تھے‘ اللہ کو اس سے کیا تعلق . اللہ تو حساب لے اپنے روزوں کا اور اپنی نمازوں کا‘ اپنے احکام کا جو اس نے ہمیں دیے ہیں. اگر ہمارا کوئی معاملہ ہوا ہے اور اس میں اگر ہمارے باہمی معاملات میں اونچ نیچ ہو گئی ہے تو اس کا کوئی تعلق اللہ کے ساتھ نہیں ہے. یہ غلط فہمی ہے‘ بلکہ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۴﴾ عہد کے بارے میں لوگوں کو جواب دہی کرنی ہو گی کہ کیا وعدہ کیا تھا اور اس کا ایفا کیا یا نہیں کیا؟اس کو پورا کیا یا نہیں کیا؟ یہ مضمون ہمارے اس منتخب نصاب میں بتکرار و اعادہ آیا ہے. آیۂ بر‘ جو اس منتخب نصاب کے حصہ اوّل ’’جامع اسباق‘‘ میں سے دوسرا ہی سبق تھا‘ میں بھی فرمایا گیا تھا کہ: وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ (البقرۃ:۱۷۷’’اور اپنے عہد کے پورا کرنے والے جبکہ باہم کوئی معاہدہ کر لیں‘‘. پھر سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی آیات میں فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾ (المؤمنون:۸‘المعارج:۳۲’’اوروہ لوگ کہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں‘‘ یعنی حفاظت کرنے والے ہیں.

عہد کے بارے میں نبی اکرم نے تو یہ فتویٰ صادر فرمایا ہے : 
لَا دِیْنَ لِمَنْ لاَ عَھْدَ لَہٗ (۱’’جس میں عہد کا پاس نہیں( ایفائے عہد کا مادہ نہیں) اُس کا کوئی دین نہیں‘‘. اس لیے کہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دین بھی ایک معاہدہ ہے بندے اور ربّ کے درمیان. اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴کے متعلق سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا قول و قرار ہے‘ ایک بہت بڑا معاہدہ ہے‘ جو پوری زندگی پر پھیلا ہوا ہے. اس معاہدے کو کیسے نبھاؤ گے اگر چھوٹے چھوٹے وعدے پورے نہیں کر سکتے؟اگر ایک پیسے میں خیانت کا ارتکاب کر رہے ہو تو ایک کروڑ میں تمہاری امانت پر کیسے اعتماد کیا جائے گا؟ نبی اکرم آغازِ وحی سے پہلے کاروبار کرتے تھے‘ لیکن اس تجارت کے میدان میں آپ نے اپنی شخصیت اور سیرت و کردار کا لوہا (۱) مسند احمد‘ کتاب باقی مسند المکثرین‘ باب مسند انس بن مالک ؓ . منوایا.آپؐ کہیں معاشرے سے کٹے ہوئے کسی راہب کی خانقاہ اور درگاہ میں زیر تربیت نہیں رہے‘ بلکہ آپؐ نے زندگی کی منجدھار میں‘ معاشرے اور سماج کے عین بیچوں بیچ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے بسر کی ہے. آپؐ نے نوجوانی کے عالم میں بھیڑیں اور بکریاں بھی چرائیں. اسی پر علامہ اقبال نے کہا ہے ؏ ’’شبانی سے کلیمی دو قدم ہے!‘‘یہ وہ کام ہے جو تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا ‘ محمدرسول اللہ نے بھی کیا‘ اس لیے کہ فطرت سے قریب تر ہونے میں اس کو بڑا دخل ہے. اس کے بعد آپؐ نے عمدہ ترین سطح پر تجارت کی. احادیث میں بعثت سے پہلے کا ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص سے کوئی کاروباری گفتگو ہو رہی تھی‘ ابھی معاہدہ اپنی تکمیلی شکل کو نہیں پہنچا تھا کہ اچانک اسے کوئی کام یاد آگیا. اس نے کہا آپؐ یہاں میرا انتظار کیجیے‘ میں ابھی آیا. نبی اکرم نے فرمایا کہ ہاں تم ہو آؤ ‘میں تمہارا انتظار یہیں کروں گا. وہ شخص چلا گیا اور بعد میں بھول گیا. حدیث میں : ’’بَعْدَ ثَلَاثٍ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں کہ تین کے بعد اسے یاد آیا. اب اندازہ یہی ہے جو اکثر شارحینِ حدیث نے کہا کہ ’’بَعْدَ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ‘‘ یعنی تین دن کے بعد یاد آیا. اس کے بعد وہ دوڑتاہوا ‘ہانپتا ہوا آیا ہو گاتو اس نے دیکھا کہ نبی اکرم وہیں موجود ہیں. آپؐ نے فرمایا: لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَیَّ، اَنَا ھَاھُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ اَنْتَظِرُکَ (۱’’تو نے مجھے مشقت میں ڈال دیا‘میں تین (دن) سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں.‘‘ 

اسی کو رسول اللہ نے فرمایا: 
عِدَۃُ الْمُؤْمِنِ دَیْنٌ وَعِدَۃُ الْمُؤْمِنِ کَالْاَخْذِ بِالْیَدِ (۲یعنی ’’مؤمن کا وعدہ تو قرض ہوتا ہے ‘ اور مؤمن کا وعدہ تو ایسے ہے جیسے ہاتھ پکڑ لیا گیا ہو‘‘.اب وہ اس طرح اپنے آپ کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے جیسے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہو‘ اسے جکڑ لیا ہو. یہ ہے وہ نفسیاتی احساس اور کیفیت جس کی شدت کو انسان اپنے باطن میں محسوس کرے کہ میں زبان دے چکا ہوں‘ بات ہو چکی ہے‘ قول و قرار ہو گیا ہے. غور کیجیے کہ کسی معاشرے میں اور خاص طور پر کاروبار‘ لین دین‘ بیع و شراء (۱) تخریج مشکاۃ المصابیح لابن حجر العسقلانی : ۴/۳۹۵. الترغیب والترھیب للمنذری:۴/۷۵. راوی : عبداللّٰہ بن الحمساء ؓ . 

(۲) جامع الصغیر للسیوطی‘ ح:۵۴۰۴. ضعیف الجامع للالبانی‘ ح:۳۶۸۹
اور تجارت میں‘ اور اس کی پھر جتنی بھی زیادہ ترقی یافتہ اور پیچیدہ صورتیں ہیں‘ ان سب میں اصل چیز یہی ایفائے عہد ہے. بلکہ اس سے معاشرے کے نمعلوم کتنے پہلوؤں میں اصلاح ِاحوال اور streamlining کی کیفیت ہوجائے گی‘ بالکل overhauling کا انداز ہو جائے گا. اگر کسی معاشرے میں ایفائے عہد کا رواج ہو جائے اور لوگ واقعتاً اپنے وعدوں کی پابندی کریں اور اس میں جانبین کو یہ اعتماد ہو کہ جو بات ہو رہی ہے وہ یونہی پوری ہو گی تو اندازہ کیجیے کہ اس معاشرے میں کتنا سکون و اطمینان ہو گا اور کتنا کچھ خرچ جو خواہ مخواہ احتیاطی تدابیر کرنے پر ہوتا ہے‘ وہ نہ ہو گا.مثلا ً کہیں چار مزدور کام کررہے ہیں تو ان پر ایک سپروائزر کھڑا کیا جاتا ہے اور ان سپروائزروں پر ایک مزید سپروائزر کی ضرورت ہوتی ہے. یہ سارے غیر ترقیاتی اخراجات ختم ہو سکتے ہیں اگر یہ اطمینان ہو کہ مزدور اپنے اس عہد میں بندھا ہوا کام کرے گا کہ میں نے جو آٹھ گھنٹے کام کرنا طے کیا ہے یہ مجھ پر واجب اور لازم ہے اور اپنی پوری قوتوں کو اس پر انڈیل دینا میرا فرض ہے‘ اس لیے کہ اس کے بغیر جو اجرت میں لوں گا وہ میرے لیے جائز اور حلال نہ ہو سکے گی. پس اندازہ کیجیے کہ واقعتاً سارے انسانی معاملات کے لیے ایفائے عہد ایک بڑی ہی بنیادی اہمیت کی حامل چیز ہے.