اس سلسلے میں آخری بات یہ فرمائی گئی : وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ ’’اور زمین میں اکڑ کر مت چلو‘‘. سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے آخر میں بھی آیا تھا : وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ (آیت ۱۸) ’’اور لوگوں کے لیے اپنے گال مت پھلا (اُن سے منہ پھیر کر بات مت کر) اور نہ زمین میں اکڑ کر چل‘‘. دراصل رذائل ِنفس میں سے سب سے آخر میں انسان کا پیچھا چھوڑنے والی چیز تکبر ہے اور آخری چیز جو انسان کو محاسن ِاَخلاق میں سے میسر آتی ہے وہ تواضع ہے‘ جوانسانی شخصیت کی پختگی کی سب سے نمایاں علامت ہے. لہذا سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے آخر میں بھی اس کا ذکر تھا اور یہاں بھی. اتنی کچھ اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی معاملات میں ہدایات دینے کے بعد اب فرمایا: وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ ’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو‘‘.سورۂ لقمان میں تو اس کے لیے الفاظ آئے تھے : اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾ ’’اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے کو یقینا پسند نہیں فرماتا‘‘.کیسا دل میں اتر جانے والا انداز ہے کہ تمہارے ربّ کو یہ پسند نہیں‘ وہ اکڑنے والوں‘ شیخی خوروں‘ چال میں تمکنت پیدا کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا‘ انہیں پسند نہیں کرتا. یہاں ایک دوسرے رُخ سے بات کی گئی ہے کہ چاہے کتنا اکڑ لو‘ کتناپاؤں مار کر چلو‘ کتنے ہی دندناتے ہوئے چلنے کی کوشش کرو‘ تم ہماری زمین کو پھاڑ نہیں سکتے. ہماری مخلوقات بڑی عظیم ہیں‘ ہماری یہ کائنات اور اس کی وسعتیں تمہارے تصور اورتخیل سے بھی ماوراء ہیں. تم کتنی گردنیں اکڑا لو‘ کتنے ہی اونچے طرے لگا لو‘ بہرحال تم پہاڑوں کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتے. اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا ﴿۳۷﴾ ’’تم ہرگز نہ زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ پاؤگے.‘‘