پھر فرمایا: کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنۡدَ رَبِّکَ مَکۡرُوۡہًا ﴿۳۸﴾ ’’ان میں سے ہر ایک کا بُرا پہلو تمہارے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘.وہی ترغیب (persuation) کا انداز ہے. اگر کوئی شخص خدا کو مانتا ہوتو اس کی ترغیب کے لیے آخری بات یہی ہو گی کہ یہ چیز خدا کو پسند نہیں ہے. اگر اپنے ربّ پر یقین اور ایمان ہے‘ اگر اس سے محبت ہے اور اگر اس کی رضا جوئی تمہاری زندگی کا نصب العین بن چکی ہے یہ تو جان لو کہ یہ چیزیں تمہارے ربّ کو ناپسند ہیں. یہاں اوامر بھی زیر بحث آئے اور نواہی بھی‘ حکم بھی دیے گئے اور روکا بھی گیاکہ یہ کرو اور یہ نہ کرو‘ اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کرو‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے کام لو‘ قرابت داروں کو اُن کا حق ادا کرو ‘اور اگر کہیں مجبوراً ان سے اعراض کرنا ہی پڑ جائے تو ان سے نرمی کی بات کرو‘ اپنے ہاتھ کو نہ گردن سے باندھ لو نہ بالکل کھلا چھوڑ دو‘ میانہ روی اختیار کرو‘ ناحق قتل نہ کرو‘ زنا کے قریب نہ پھٹکو. تو چونکہ یہاں اوامر بھی آئے اور نواہی بھی آئے‘ do's بھی ہیں اور dont's بھی ہیں کہ یہ کرو یہ نہ کرو‘ اس لیے فرمایا: کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنۡدَ رَبِّکَ مَکۡرُوۡہًا ﴿۳۸﴾ کہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہے اس میں جو مکروہات ہیں وہ تمہارے ربّ کو بہت ہی ناپسند ہیں‘ تمہارا ربّ ان کو بالکل پسند نہیں کرتا. جیسا کہ عرض کیا گیا کہ بندۂ مؤمن کے لیے یہ آخری دلیل ہے. اب اس کے بعد اس سے قوی تر کوئی اور دلیل ممکن نہیں.