آگے فرمایا: ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ ’’یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تمہارے ربّ نے تم پر وحی کی ہیں‘‘.بڑے پیارے الفاظ ہیں کہ اے محمد !یہ حکمت ہے‘ یہ دانائی ہے‘ یہ wisdom ہے جو آپؐ کے ربّ نے آپؐ پر وحی کی ہے. لفظ ’’حکمت‘‘ کو سمجھنے کے ضمن میں یہ مقام بڑا اہم ہے. بعض حضرات نے قرآن مجید کی اُن آیات کی‘ جن میں نبی اکرم کے فرائض چہارگانہ کا بایں الفاظ ذکر ہے: یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ (آل عمران:۱۶۴)‘ تفسیر اس طور سے کی ہے کہ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد ُسنت ِرسولؐ یا احادیث رسولؐ لی ہیں.اس خیال کی قرآن مجید کے اس مقام کے حوالے سے تصحیح ضروری ہے. قرآن مجید میں اَحکام بھی ہیں اور قوانین کا بیان بھی ہے‘ شریعت اور فقہ بھی ہے اور قرآن مجید ہی میں حکمت و دانائی (wisdom) بھی ہے. یہ خود قرآن مجید ہی کے دو رُخ (aspects) ہیں‘ ایک طرف قانون ہے اور ایک طرف اس قانون کی پشت پر کارفرما دانائی ہے. ایک طرف حکم ہے تو دوسری طرف اس حکم کی بنیاد جس حکمت پر قائم ہے‘ اس کا بیان ہے.

یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کا اس درس کے دوران بار بار حوالہ آیا ہے. یہ مشابہت اس لفظ حکمت میں بھی موجود ہے. وہاں آغاز ہوا تھا : 
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ (آیت ۱۲’’اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ شکر کرو اللہ کا ‘اور جو کوئی شکر کرے تو شکر کرتا ہے اپنی ہی (فائدے کے) لیے‘‘.وہاں نقطہ ٔ آغاز حکمت تھا‘ جبکہ یہاں اس پوری بحث کا اختتام حکمت کے ذکر پر ہو رہاہے‘ بایں الفاظ: ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ یعنی یہ ہیں وہ باتیں‘ وہ ہدایات‘ وہ اوامر و نواہی اور ان کی تعلیم جو کہ آپ کے ربّ نے وحی کی ہیں اے محمد !آپ پر اَزقسم ِحکمت.