مسلمانوں کی حیاتِ ملّی کی دوسری اہم بنیاد نبی اکرمﷺ کا ادب و احترام


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعۡمَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۸﴾ 
(۱) واضح رہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب پاکستان ٹیلی ویژن پر ۸۲.۱۹۸۱ء کے دوران نشر ہوا تھا. (مرتب) ’’اے ایمان والو! مت بلند کرو اپنی آوازوں کو نبیؐ کی آواز پر اور مت گفتگو کرو انؐ سے بلند آوازی کے ساتھ جیسے تم باہم ایک دوسرے سے گفتگو کر لیتے ہو‘ مبادا تمہارے تمام اعمال رائیگاں ہو جائیں اور تمہیں اس کا شعور تک نہ ہو. یقینا وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو اللہ کے رسول ( ) کے سامنے پست رکھتے ہیں‘ وہی ہیں کہ جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے. ان کے لیے بخشش بھی ہے اور بہت بڑااجر بھی. بلاشبہ وہ لوگ جو(اے نبی  ) آپ کو پکارتے ہیں حجروں کے باہر سے‘ ان میں اکثر ناسمجھ ہیں.اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپؐ خود ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے کہیں بہتر تھا. اور اللہ بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا ہے. اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لے کر آئے تو چھان بین کر لیا کرو‘ مبادا تم نادانی میں کسی قوم کے خلاف اقدام کر بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے. اور جان رکھو کہ تمہارے مابین اللہ کے رسول ( ) موجود ہیں. اگر وہؐ تمہارا کہنا اکثر معاملات میں ماننے لگیں تو تم خود مشکل میں پڑ جاؤ گے‘ لیکن اللہ نے تو ایمان کو تمہارے نزدیک بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں کھبا دیا ہے‘ اور تمہارے نزدیک بہت ناپسندیدہ بنا دیا ہے کفر کو بھی اور نافرمانی کو بھی اور معصیت کو بھی. یہی ہیں وہ لوگ جو اصل میں کامیاب ہونے والے ہیں. یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور مظہر ہے اس کی نعمت کا.اور اللہ سب کچھ جاننے والا‘ کمال حکمت والا ہے.‘‘

سورۃ الحجرات کی آیات ۲ تا ۸ میں مسلمانوں کی ہیئت ِاجتماعیہ یا ان کی حیاتِ ملّی کی شیرازہ بندی کی جو دوسری اہم بنیاد ہے‘ اس کا ذکر ہے. پہلی بنیاد جس کا ذکر اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت میں ہے‘ دستوری اور آئینی نوعیت کی تھی کہ ایک اسلامی ریاست یا ایک اسلامی ہیئت ِاجتماعیہ یا ایک اسلامی معاشرہ پابند ہے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا. اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا دائرہ وہ دائرہ ہے کہ مسلمان خواہ فرد ہو‘ خواہ معاشرہ ہو‘ خواہ پوری ملت ِاسلامیہ ہو‘ خواہ کوئی اسلامی ریاست ہو‘ وہ اس دائرے کے اندرمحدود رہے گی. اب اس دائرے کا ایک مرکز بھی ہے اور وہ مرکزی شخصیت ہے جناب محمد رسول اللہ کی. مسلمانوں کی حیاتِ ملی کی شیرازہ بندی میں جہاں اس پہلی 
اصل کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے جو دستوری و آئینی اصل ہے‘ وہاں دوسری بنیاد مرکزی نقطہ کی حیثیت کی حامل ہے کہ حضور سے دلی محبت ہو‘ حضور سے عقیدت ہو‘ حضور کا ادب و احترام ہر آن ملحوظ رکھا جائے‘ آپ کی توقیر و تعظیم ہو. گویا فی الجملہ ہر مسلمان کے دل میں جناب محمد رسول اللہ کی محبت اور آپؐ ‘کی تعظیم جاگزیں ہو.

یہ درحقیقت وہ جذباتی بنیاد ہے جس سے ہمارے تمدن اور ہماری تہذیب کا نقشہ بنتا ہے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ انسان میں صرف عقل و ذہانت 
(intellect) ہی نہیں بلکہ اس میں جذبات‘ (sentiments) بھی ہیں اور کسی بھی معاشرے میں جہاں اس کی عقلی اور فلسفیانہ اساسات کو اہمیت حاصل ہے‘ وہاں جذبات کے لیے بھی کوئی مرکز ضروری ہے‘ جس کے ساتھ اگر جذباتی وابستگی نہیں ہو گی تو دل پھٹے رہیں گے‘ آپس میں بعد رہے گا اور ثقافت میں کوئی یک رنگی پیدا نہیں ہو سکے گی. چنانچہ کوئی تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی ‘ (cultural homogenity) وجود میں نہیں آ سکے گی. ایک مسلمان معاشرے میں یہ مطلوبہ کیفیت درحقیقت نبی اکرم کے اتباع کے ذریعے سے ہی پیداہوتی ہے.

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ایک ہے اطاعت اور ایک ہے اتباع ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے. اطاعت نام ہے اس رویہ کا کہ جو حکم ملے اسے پورا کر دیا جائے اور یہ رویہ تو اصل میں اس دستوری اور آئینی بنیاد کا جزو ہے جس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے.جبکہ اتباع کا دائرہ بہت وسیع ہے. جو عمل بھی اُس شخصیت سے منسوب ہے جسے اللہ کا رسول مانا گیا ہے‘ جس پر ایمان لایا گیا ہے‘ جس کی اللہ کے نبی و رسول کی حیثیت سے تصدیق کی گئی ہے‘ اب اس شخصیت کی نشست و برخاست کا‘ اس کی گفتگو کا‘ اس کے رہن سہن کا‘ اس کی وضع قطع‘ ا س کی تہذیب اور اس کی پوری نجی و مجلسی زندگی کا جو بھی انداز ہو‘ اس پورے نقشے کو اپنے سیرت و کردار میں جذب کرنا‘ اس رویہ اور اس کیفیت کا نام دراصل اتباع ہے اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے.