پہلا حکم یہ ہے کہ محض افواہ پر کوئی اقدام نہ کیا جائے. اگر کہیں سے کوئی خبر آئے اور خبر بھی اہم قسم کی ہو (عربی میں ’’نبأ‘‘ اہم خبر کو کہتے ہیں)تو اس کے ضمن میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ خبر لانے والا کون ہے! اگر وہ کوئی انتہائی معتبر شخصیت ہو ‘مثلاً حضرات ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ عثمان غنی‘ یا علی مجتبیٰ جیسے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی خبر دے رہا ہو تو کسی تحقیق‘ کسی تبیین اور کسی تفتیش کی ضرورت نہیں ہے‘ لیکن اگر اس خبر کو لانے والا کوئی ایسا شخص ہے کہ جو احکامِ الٰہیہ پر اس طور سے کاربند نہیں ہے جس طرح ایک مؤمن صادق کو ہونا چاہیے تو ایسے شخص کی لائی ہوئی خبر پر کوئی اقدام کرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے‘ لہذا اس کی تحقیق‘ تبیین اور تفتیش ضروری ہے. اور اسی سے یہ بات از خود سامنے آتی ہے کہ اگر وہ شخص ایسا ہے کہ جس کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ یہ شخص متقی ہے یا فاسق‘ تو سب سے پہلے اس شخص کے بارے میں تحقیق کرنی ہو گی کہ اس کا کردار کیسا ہے‘ اس کا اخلاق کیسا ہے! دین کے ساتھ اس کے رویے اور طرزِ عمل کا معاملہ کیسا ہے!تو یہ دونوں چیزیں سامنے رکھیے کہ خبر لانے والے کے بارے میں بھی تحقیق و تفتیش اور پھر جو ’’’خبر‘‘ لائی گئی ہو‘ اس کے بارے میں بھی پوری چھان بین کرنی ضروری ہے. ان دونوں مرحلوں سے گزر کر پھر کوئی فیصلہ کیا جائے اور اس فیصلے کے مطابق پھر کوئی اقدام ہو.

واقعہ یہ ہے کہ اگر ان معاملات میں سہل انگاری سے کام لیا جائے اور ان احتیاطوں کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو ہوسکتا ہے کہ نادانی‘ نادانستگی اور جہالت میں کسی غلط اطلاع کی بنیاد پر کوئی اہم اقدام ہو جائے اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ اطلاع ہی سرے سے غلط تھی. یہ معاملہ عام طور پر خود ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے کہ ایک افواہ کہیں سے چلی اور پھر وہ بڑھتی چلی گئی‘ ایک کی زبان سے نکلی اور دوسرے کے کان تک پہنچی. اب دوسرے کی زبان سے نکلتی ہے تو اس میں اضافے ہوتے ہیں اور پھر یہ افواہ اضافوں کے ساتھ معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اور لوگ اس پر یقین کر لیتے ہیں . لہذا یہ بات بڑی اہم ہے کہ تحقیق و تفتیش کے ذریعے صحیح معلومات حاصل کرنے کے بعد کوئی اقدام ہو. اس سلسلے میں نبی اکرم کا ایک فرمان بہت ہی پیارا ہے. آپ نے ہمارے سامنے ایک ایسا معیار رکھا ہے کہ واقعتا اگر اس پر انسان کسی درجے میں بھی عمل پیرا ہو جائے تو اس طرح کے تمام اندیشوں کا سدّباب ہو جائے گا. حضور نے ارشادفرمایا: کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ (۱’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ جوکچھ سنے اسے آگے بیان کر دے‘‘اب دیکھئے کہ یہ بڑی عجیب اور بڑی پیاری بات ہے جو حضور نے ارشاد فرمائی کہ ایک شخص نے کسی سے کچھ سنا‘ اس میں کوئی اضافہ بھی نہیں کیا‘ وہی بات جوں کی توں آگے بیان کر دی تو یہ طرزِ عمل ہی اس کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے. غور کیجیے کہ بات کیا ہے! اسے یہ چاہیے تھا کہ اس بات کو اپنی زبان سے نکالنے سے پہلے خود اس کی تحقیق کر لیتا. بالفرض وہ بات غلط ہے تو اس غلط بات کے پھیلانے میں وہ بھی ایک واسطہ بن گیا. اس کے ذریعے سے وہ جھوٹ کتنی دور تک پھیل سکتا ہے‘ اس کا اندازہ ہر شخص خود کر سکتا ہے.