اگلی آیت میں ان تین برائیوں کا بیان آ رہا ہے جن کا اخفا کے ساتھ یا پیٹھ پیچھے ارتکاب ہوتا ہے. ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ ’’اے اہل ِایمان‘ گمان کی کثرت سے بچو‘‘. یعنی خواہ مخواہ کسی کے بارے میں ایک گمان قائم کر لینا‘ کسی کے بارے میں خواہ مخواہ دل میں کوئی برا خیال بٹھا لینا‘ خواہ مخواہ کسی کے بارے میں دل میں یہ رائے قائم کر لینا کہ اسے مجھ سے دشمنی ہے‘ اسے مجھ سے کد ہے‘ جبکہ اس کے لیے کوئی دلیل اور بنیاد موجود نہ ہو‘ اسی طرح خواہ مخواہ کسی کے بارے میں کسی اور اعتبار سے سوئے ظن قائم کر لینا‘ اس سے روکا گیا ہے. یہاں بھی اپیل کا انداز دیکھئے‘ ارشاد ہوا : اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ ’’یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘ .ہو سکتا ہے کہ تمہارا کوئی گمان درست ہو لیکن یہ غلط بھی تو ہو سکتا ہے . گمان تو گمان ہی ہے‘ علم تو نہیں ہے. لہذا تم نے بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی بنیاد کے کسی مسلمان بھائی کے بارے میں کوئی برا خیال اپنے دل میں بٹھا لیا ہے‘ کوئی غلط رائے قائم کر لی ہے تو یہ گنا ہ ہے. اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی پکڑ ہو گی اور تمہیں اس پر سزا بھگتنی پڑے گی.