تواصی بالحق کا ذروۂ سنام

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ. اَمَّا بَعْدُ:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 


اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحُجُرٰت) 

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ (التوبۃ)

الحمد للہ کہ ہم اِس وقت مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کے حصّہ چہارم کا آغاز کر رہے ہیں. یہ حصّہ ’’سورۃ العصر‘‘ میں وارد شدہ لوازمِ فوز و فلاح یا آسان الفاظ میں شرائط نجات میں سے تیسری شرط یعنی تواصی بالحق کی مزید تشریح اور تفصیل پر مشتمل ہے. اس ضمن میں ہمارے اس منتخب نصاب میں مختلف مواقع پر جو مباحث آچکے ہیں‘ آگے بڑھنے سے قبل ان پر ذرا ایک نگاہِ بازگشت ڈال لینا مفید ہو گا. سب سے پہلے تو ’’تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ‘‘ کی اصطلاح ہی پر دوبارہ غور کر لیجیے. لفظ ’’تواصی‘‘ وصیت سے بنا ہے اور وصیت میں تاکید کا مفہوم بھی شامل ہے. کوئی بات ناصحانہ انداز میں‘ خیر خواہی کے جذبے کے تحت‘ انتہائی شد و مد کے ساتھ کہی جائے تو عربی زبان میں اسے وصیت سے تعبیر کیا جائے گا. پھر جب یہ لفظ بابِ تفاعل سے آیا ‘یعنی ’’تواصی‘‘ تو اس میں مبالغے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا. یعنی یہ عمل بڑے اہتمام اور پوری شدت و تاکید کے ساتھ مطلوب ہے. دوسری طرف مزید توجہ دلا دی گئی کہ کسی بھی صحت مند اجتماعیت کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کے شرکاء ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو خیر و بھلائی کی بات کہتے رہیں. اسی طرح لفظ ’’حق‘‘ بھی بہت جامع ہے.
جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے کہ ہر وہ چیز جو عقلاً مسلّم ہو‘ اخلاقاً واجب ہو‘ بامقصد اور نتیجہ خیز ہو‘ جو صرف وہمی و خیالی نہ ہو بلکہ واقعی ہو ’’حق‘‘ ہے. اس اعتبار سے 
’’تواصی بالحق‘‘ کا مفہوم انتہائی وسعت اختیار کر جاتا ہے. چھوٹی سے چھوٹی حقیقتوں اور چھوٹے سے چھوٹے حقوق سے لے کر اس سلسلۂ کون ومکان کی عظیم ترین حقیقت یعنی ’’لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ اور ’’اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ ‘‘ ان سب کی تبلیغ ‘ نشر و اشاعت اور اعلان و اعتراف تواصی بالحق کے مفہوم میں شامل ہے.

اس کے بعد ہمارے اس منتخب نصاب کے حصّہ اوّل میں دوسرا جامع سبق آیۂ بر پر مشتمل تھا. اس کے آخر میں واضح کر دیا گیا کہ یہ تواصی بالحق اس شان کے ساتھ مطلوب ہے کہ خواہ اس کے ضمن میں انسان کو فقر و فاقہ سے دوچار ہونا پڑے‘ خواہ جسمانی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں‘ خواہ اس کا تقاضا ہو کہ انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں حاضر ہو جائے اور اپنی جان کا ہدیہ اس راہِ حق میں پیش کر دے‘ اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے پائے. یہ انسان کے فی الواقع متقی‘ نیک اور صالح ہونے کے لیے ناگزیر ہے.

تیسرے سبق میں تواصی بالحق کے ضمن میں ایک نئی اصطلاح ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ سامنے آئی تھی. وہاں یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ معروف اور منکر کے الفاظ میں جس قدر وسعت اور ہمہ گیریت پائی جاتی ہے اس کے اعتبار سے گویا مفہوم یہ ہو گا کہ ہر خیر‘ ہر نیکی‘ ہر بھلائی‘ ہر حقیقت اور ہر صداقت کی تبلیغ و تلقین‘ دعوت و نصیحت‘ تشہیر و اشاعت اور اعلان و اعتراف حتیٰ کہ ترویج و تنفیذ ہو اور اس راہ کی ہر تکلیف کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا جائے. اس لیے کہ وہاں فرما دیا گیا تھا: یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾ (لقمٰن)

اسی طرح ہر بدی اور برائی کی ردّ و قدح‘ تنقید و احتساب‘ انکار و ملامت‘ حتیٰ کہ انسداد و استیصال کی ہر ممکن سعی و کوشش لازم اور ضروری ہے.

پھر چوتھے سبق میں ’’دعوت الی اللہ‘‘ کی اصطلاح واردہوئی اور اس طرح تواصی بالحق کی بلند ترین منزل کی نشاندہی کر دی گئی. اس لیے کہ بفحوائے الفاظِ قرآنی : 
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ مجسم اور کامل حق صرف ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ ہے اور ؎ 

وہی ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق 

کے مصداق اسی کی اطاعت و عبادت کا التزام‘ اسی کی شہادت علی رؤس الاشہاد اور اسی کی اساس پر انفرادی و اجتماعی زندگی کو استوار کرنے کی سعی و جہد تواصی بالحق کا ذروۂ سنام (climax) یا نقطۂ عروج ہے.

اور آخر میں سورۃ الحجرات زیر درس آئی‘ جس میں حد درجہ جامع آیت حقیقی ایمان کی تعریف کے ضمن میں وارد ہوئی: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

’’یقینا مؤمن تو وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر پھر وہ شک میں نہیں پڑے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ‘ یہی لوگ درحقیقت سچے ہیں.‘‘

گویا ایمان حقیقی کے دو ارکان کا بیان اس آیت مبارکہ میں ہو گیا اوّلاً وہ ایمان جو ایک یقین کی صورت اختیار کر کے قلب میں جاگزیں ہو جائے اور ثانیاً اس کا وہ مظہر جو انسان کے عمل میں‘ اس کی عملی روش میں‘ اُس کے رویے میں نظر آنا چاہیے. اسے تعبیر کیا گیا ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے عنوان سے!

یہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہمارے منتخب نصاب کے چوتھے حصے کے لیے اب ایک عنوان کی حیثیت رکھتا ہے. اس لیے کہ اس اصطلاح نے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر دونوں کو اپنے اندر سمو لیا ہے. سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ میں ہر مؤمن کے لیے ایک ترازو فراہم کر دی گئی ہے کہ وہ اسے اپنے باطن میں نصب کر کے اپنے آپ کو تولے‘ اپنے آپ 
کو جانچے اور پرکھے کہ وہ ایمان کے اعتبار سے حقیقتاً کس مقام پر کھڑا ہے. فرمایاگیا: 

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا... (التوبۃ:۲۴)

’’(اے نبی! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں تمہارے باپ‘ اورتمہارے بیٹے‘ اورتمہارے بھائی‘ اورتمہاری بیویاں‘ اورتمہارے کنبے اور وہ مال جو تم نے جمع کیے ہیں اور وہ کاروبار (جو تم نے بڑی محنت سے جمائے ہیں اور) جن کی کساد بازاری کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے‘ اور وہ مکان (اور جائیدادیں جو بڑے اہتمام سے بنائی گئی ہیں اور جن کی تزئین و آرائش پر بہت کچھ صرف کیا گیا ہے) جنہیں تم بہت پسند کرتے ہو (اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللہ‘ اوراس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے تو جاؤ انتظار کرو…‘‘

یعنی پانچ علائق دُنیوی اور تین مال و اسبابِ دُنیوی کی صورتیں اس ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دو اور دوسرے پلڑے میں ڈالو اللہ کی محبت‘ اس کے رسولؐ کی محبت اور اللہ کی راہ میں جہاد کی محبت‘ اور پھر دیکھو کہ کہیں علائق دُنیوی اور مال و اسبابِ دُنیوی والا پلڑا جھک تو نہیں رہا. اگر ایسا ہے تو جائو انتظار کرو… بلکہ بامحاورہ ترجمے میں اس کا صحیح مفہوم اس طرح ادا ہو گا کہ ’’ـ جاؤ دفع ہو جاؤ‘‘ 
حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ ’’یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ سنا دے‘‘. وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ ’’اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘.