قرآنی آیات کے حوالے سے آج ہم اس بات پر غو رکریں گے کہ جہاد فی سبیل اللہ ہے کیا‘ اس لفظ کے لغوی معنی کیا ہیں‘ اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے‘ ہمارے دین میں اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے‘ اس جہاد کی کیا کیا شکلیں ہیں‘ اس کے مقاصد کیا ہیں‘ اس کا نقطۂ آغاز کیا ہے‘ اس کی پہلی منزل کیا ہے اور اس کی آخری منزلِ مقصود کون سی ہے!! یہ بنیادی باتیں حقیقت ِ جہاد کے بارے میں آج کی گفتگو کا موضوع ہیں.

اس ضمن میں یہ بات عرض کر دینا شاید نامناسب نہ ہو کہ جس طرح ہمارے تمام دینی تصورات ایک طویل انحطاط کی بدولت نہ صرف یہ کہ محدود (limited) بلکہ مسخ (perverted) ہو چکے ہیں‘ اسی طرح واقعہ یہ ہے کہ جہاد کا لفظ بھی ہمارے ہاں بہت ہی محدود معنی میں استعمال ہو رہا ہے‘ بلکہ اکثر و بیشتر بہت غلط معنی میں استعمال ہوتا ہے. چنانچہ اس ضمن میں ایک مغالطہ تو یہ ہوا کہ جہاد کو جنگ کے ہم معنی بنا دیا گیا‘ حالانکہ جہاد کے معنی ہرگز جنگ کے نہیں ہیں. جنگ کے لیے قرآن مجید کی اپنی اصطلاح ’’قتال‘‘ ہے جو قرآن میں بکثرت استعمال ہوئی ہے. یہ اصل میں جہاد کی ایک آخری صورت اور آخری منزل ہے‘ لیکن جہاد اور قتال کو بالکل مترادف بنا دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب جہاد کی وسعت اور ہمہ گیری پیش نظر نہیں رہی. اس ایک مغالطے کے بعد ستم بالائے ستم اور ظلم بالائے ظلم یہ ہوا کہ مسلمان کی ہر جنگ کو جہاد قرار دے دیا گیا‘ خواہ وہ خیر کے لیے ہو یا شر کے لیے. کوئی ظالم و جابر مسلم حکمران اپنی نفسانیت کے لیے‘ اپنی ہوسِ ملک گیری کے لیے کہیں خون ریزی کر رہا ہو تو اس کا یہ عمل بھی جہاد قرار پایا اور اس طرح اس مقدس اصطلاح کی حرمت کو بٹہ لگایا گیا ہے. ذرا تفصیل کے ساتھ اور بنظر غائر یہ جائزہ لینا ہو گا کہ قرآن مجید کے نزدیک جہاد کی اصل حقیقت کیا ہے!!

اس منتخب نصاب کے دروس کے دوران اس سے پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ عربی زبان بڑی سائنٹیفک زبان ہے. اس کے ننانوے فیصد سے زیادہ الفاظ وہ ہیں جن کا ایک سہ حرفی مادہ (root) ہوتا ہے اور اس کے تمام مشتقات کا دار و مدار اسی مادے یا ’’جڑ‘‘ پر ہوتا ہے اور اس کا مفہوم اس سے نکلنے والے تمام الفاظ میں موجود رہتا ہے . گویا یہ ’’جڑ‘‘ تو اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ (ابرٰہیم) کے انداز میں اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہتی ہے‘ لیکن مختلف سانچوں میں ڈھل کر وہ مادہ کچھ اضافی مفہوم اپنے اندر جمع کرتا چلا جاتاہے.

لفظ جہاد کا سہ حرفی مادہ ’’ج . ھ . د‘‘ ہے اور یہ لفظ اردو بولنے اور اردو لکھنے والوں کے لیے کسی درجہ میں بھی نامانوس نہیں ہے. جہد مسلسل‘ جدوجہد‘ یہ الفاظ اردو زبان میں مستعمل ہیں. جہد کے معنی ہیں کوشش کرنا انگریزی میں اس کا مفہوم ان الفاظ میں ادا ہو گا: ’’to exert ones utmost‘‘ یعنی کسی بھی مقصد کے لیے‘ کسی بھی معین ہدف کے لیے محنت کرنا‘ کوشش کرنا‘ مشقت کرنا‘ جدوجہد کرنا اصلاً ’’جہد‘‘ ہے. لیکن عربی زبان میں یہی مادہ جب مختلف سانچوں میں ڈھلے گا‘ مختلف ابواب سے اس کے مصادر بنیں گے تو ان میں اضافی مفہوم شامل ہو جائے گا. ’’مفاعلہ‘‘ ثلاثی مزید فیہ کا ایک باب ہے. اس باب میں جو الفاظ آتے ہیں اور جو مصادر اس وزن پر ڈھلتے ہیں. ان میں دو مفہوم اضافی طور پر شامل ہو جاتے ہیں. ایک یہ کہ اس باب میں دو فریقوں یا ایک سے زائد فریقوں کی شرکت و مشارکت کا مفہوم شامل ہو جاتا ہے. (اب یہ ’’مشارکت‘‘ خود بھی ’’مفاعلہ‘‘ کے وزن پر ہے) اور دوسرے یہ کہ ہر ایک فریق کا دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اور بازی لے جانے کی سعی کا مفہوم بھی اس میں خود شامل ہوجائے گا. جیسے ’’مباحثہ‘‘ دو افراد یا دو فریقوں یا دو گروہوں کے مابین بحث کا نام ہے‘ جن میں سے ہر فریق کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کی حقانیت کو دلائل دے کر ثابت کرے اور فریقِ مخالف کے نقطۂ نظر کا ابطال کرے اور اس کی غلطی کو ثابت کرنے کی کوشش کرے. ’’مناظرہ‘‘ اسی سے بنا ہے. اسی طرح دو فریق آمنے سامنے آئیں اور ان میں سے ہر فریق کی کوشش یہ ہو کہ وہ دوسرے کو زیر کرے اور خود بالادستی حاصل کرے تو یہ ’’مقابلہ‘‘ ہے. اسی طرح بے شمار الفاظ بنتے چلے جائیں گے.آپ جانتے ہیں کہ ’’مشاعرہ‘‘ میں بہت سے شعراء کسی ایک دیے ہوئے مصرعے پر طبع آزمائی کرتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مشاعرہ لوٹ لے جائے. تو اس وزن پر آنے والے ان تمام الفاظ میں یہ دو مفہوم لازماً پیدا ہو جائیں گے کہ کسی عمل میں مشارکت اور اس مشارکت میں اس بات کی کوشش کہ ہر فریق دوسرے فریق کو زیرکرنے اور نیچا دکھانے کی کوشش کرے.

اب اسی وزن پر لفظ ’’مجاہدہ‘‘ بنا ہے اور اسی طرح سے ’’مقاتلہ‘‘ بنا ہے. ’’قتل‘‘ اور ’’مقاتلہ‘‘ میں فرق یہ ہو گا کہ قتل ایک یک طرفہ فعل ہے. ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا. جبکہ مقاتلہ یہ ہے کہ دو افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے آمنے سامنے آکھڑے ہوں‘ وہ اسے قتل کرنے کے درپے ہو اور یہ اُسے قتل کرنے کے درپے ہو. اسی طرح لفظ ’’جہد‘‘ میں یک طرفہ کوشش کا تصور سامنے آتا ہے‘ یعنی کسی ہدف اور مقصود کے لیے محنت کی جا رہی ہے‘ مشقت ہو رہی ہے‘ جبکہ مجاہدہ میں ایک اضافی تصور سامنے آئے گا کہ کوشش میں مختلف فریق شریک ہیں. ہر ایک کا اپنا کوئی مقصد اور اپنا کوئی نقطۂ نظر ہے اور ہر ایک اس کوشش میں ہے کہ اپنے مقصد کو حاصل کرے اور اپنے خیال یا اپنے نظریے کو دنیا میں سربلند کرنے کی کوشش کرے. ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ درحقیقت قرآن مجید کی ایک اہم اصطلاح ہے. جہاد اور مجاہدہ دونوں بابِ مفاعلہ سے مصدر ہیں. انگریزی میں اب اس کو یوں ادا کیا جائے گا : ’’ to struggle hard‘‘ اس لیے کہ struggle میں کشمکش اور کشاکش کا مفہوم شامل ہے. جہد صرف کوشش ہے جبکہ جہاد یا مجاہدہ کشمکش اور کشاکش ہے اور انگریزی کے اس لفظ struggle میں بھی وہ تصور موجود ہے کہ مخالفتوں اور موانع کے علی الرغم اپنے مقصد معین کی طرف پیش قدمی کرتے چلے جانا.

اب ظاہر بات ہے کہ مجاہدہ خواہ کسی مقصد کے لیے ہو اِس میں انسان کی صلاحیتیں‘ قوتیں اور توانائیاں بھی صرف ہوں گی اور مالی وسائل و ذرائع بھی صرف ہوں گے. ان دو کے بغیر دنیا میں کوئی کوشش ممکن نہیں ہوگی. واقعہ یہ ہے کہ ابتدائی سطح پر کسی بھی مقصد کے لیے‘ کسی بھی نصب العین کے لیے‘ کسی بھی خیال کی ترویج و اشاعت کے لیے انسان کو کچھ مالی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے‘ جن سے وہ اپنے نصب العین اور آئیڈیا کو 
project کر سکے‘ اس کی تشہیر و اشاعت ہو اور اسے وسیع حلقے میں پھیلایا جائے. لہذا قرآن مجید میں بھی آپ دیکھیں گے کہ اس مجاہدے کے ساتھ دو الفاظ آپ کو ہر جگہ ملیں گے: بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ یعنی اس مجاہدے‘ اس جدوجہد اور اس کی کوشش میں اپنے مال بھی کھپاؤ اور اپنی جانیں بھی کھپاؤ‘ جیسے کہ سورۃالحجرات کی آیت میں ارشا د ہوا: وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ’’اور انہوں نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ‘‘. 

اس جہاد کے لیے ایک تیسری چیز جو ضروری ہے وہ کسی ہدف کا معین ہونا ہے. کوئی مقصودِ معین ہو‘ کوئی نصب العین ہو‘ کوئی آدرش ہو‘ جس کے لیے وہ محنت و مشقت کی جائے.اسی کی نظریاتی سطح پر نشر و اشاعت ہو گی ‘ اسی کے لیے پھر محنتیں ہوں گی‘ اسی کی سربلندی کے لیے کوششیں ہوں گی. تو گویا کہ اس جہاد کے لیے اس ہدف کا تعین ضروری 
ہے. اب فرض کیجیے کہ ایک شخص اپنی برتری کے لیے ‘اپنی بالادستی کے لیے‘ اپنے اقتدار کے لیے اور اپنے مفادات کے لیے محنتیں کر رہا ہے‘ اس کا یہ ہدف معین ہے‘ تو یہ بھی مجاہدہ ہے. اس لیے کہ ظاہر بات ہے کہ یہاں مختلف مقابل قوتیں موجود ہیں‘ ہر شے کے لیے مسابقت (competition) ہے‘ لہذا اس کے لیے اسے struggle کرنا ہو گی‘ محنت کرنا ہو گی‘ اسے دوسروں سے آگے بڑھنا ہوگا‘ اسے محنت و مشقت میں اپنے حریف یا مخالف سے بازی لے جانا ہو گی. اس کے بغیر اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے‘ اپنی ذاتی سربلندی کے لیے یااپنی ذات کے لیے دُنیوی آسائشوں کو زیادہ سے زیادہ جمع کر لینے کے مقصد میں بھی کامیابی حاصل کر سکے. اس کو آپ یوں کہیں کہ یہ ’’مجاہدہ فی سبیل النفس‘‘ ہے. اپنی ذات کے لیے‘ اپنے نفس کے تقاضوں کے لیے مجاہدہ ہو رہا ہے. اور یہ بات کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ مجاہدہ ہر آن ہماری نگاہوں کے سامنے ہے. یہ Struggle for existance ہے. ہر ایک بھاگ دوڑ اور محنت و مشقت کر رہا ہے اور اس کوشش میں ہے کہ وہ دوسرے سے آگے نکل جائے. جیسے کہا گیا: وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا (البقرۃ:۱۴۸’’ہر ایک کے لیے ایک رخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے‘‘. ہر ایک نے اپنا ایک ہدف معین کیا ہوا ہے اور ایک دوڑ لگی ہوئی ہے‘ ایک مسابقت جاری ہے.
اسی طرح فرض کیجیے کہ کوئی شخص اپنا ہدف معین کرتا ہے اپنی قوم کی سربلندی‘ اپنے وطن کی عزت‘ اس کے وقار اور دنیا میں کے نام کو نام روشن کرنے کے لیے. اس قوم پرستانہ اور وطن پرستانہ جدوجہد اور محنت و کوشش کا بھی قوموں اور ملکوں کے مابین مقابلہ ہو رہا ہے. لہذا اس سلسلے میں جو شخص بھی اپنی قوتوں‘ توانائیوں اور اپنی صلاحیتوں کو صرف کرتا ہے وہ مجاہد ہے 
فی سبیل القوم‘ یا مجاہد ہے فی سبیل الوطن. اسی طرح کوئی شخص کسی نظریے (Ideology) کو اختیار کرتا ہے ‘وہ کسی نظریۂ حیات‘ کسی نظامِ زندگی کا قائل ہو گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ انسان کے لیے وہ ایک بہتر طرزِ زندگی ہے‘ اس میں انسانی مسائل کا ایک بہتر‘ متوازن‘ زیادہ معتدل اور زیادہ منصفانہ حل ہے. اگر کسی طرح بھی اسے اس بات کا یقین حاصل ہو گیا ہے اور اب وہ اپنی قوتیں صرف کر رہا ہے‘ محنتیں کھپا رہا ہے‘ اوقات لگا رہا ہے‘ جسم و جان کی توانائیاں اس میں صرف کر رہا ہے کہ وہ نظریہ دنیا میں پھیلے‘ اس نظریے کو بالادستی حاصل ہو‘ اس کا نظام دنیا میں عملاً قائم ہو تو اس کے لیے جو محنت ہو رہی ہے یہ اس نظریے کے لیے جہاد اور مجاہدہ ہے. اس لیے کہ اس سطح پر بھی کوئی خلا موجود نہیں ہے. مختلف نظریات ہیں جو باہم متصادم ہیں. ہر ایک اپنی بالادستی اور supremacy کے لیے کوشاں ہے اور ان کے ماننے والے اس کے لیے تن من دھن لگا رہے ہیں. اب جو شخص کسی نظریے کو اختیار کر کے اس کے لیے محنت و مشقت کرتا ہے وہ اس نظریے کا مجاہد ہے. گویا اس اعتبار سے ہم اس جدوجہد کو مجاہدہ فی سبیل الاشتراکیہ‘ مجاہدہ فی سبیل الوطن یا مجاہدہ فی سبیل الدیموکراتیہ کہہ سکتے ہیں. تو یہ ’’فی سبیل…‘‘ جو ہے جس کو انگریزی میں آپ ’’ in the cause of ‘‘ سے تعبیر کریں گے‘ اس کا تعین بھی اس مجاہدے کے لیے لازم ہے.

اب آپ دیکھئے کہ متذکرہ بالا دونوں آیات
 میں ’’مجاہدہ فی سبیل اللہ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے. سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا: وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ’’اور انہوں نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور کھپائی اس میں اپنی جان بھی اور اپنے اموال بھی‘‘. اسی طرح سورۃ البراء ۃ(التوبۃ) میں فرمایا گیا: وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد‘‘. اس سے پہلے بھی ہمارے اس منتخب نصاب میں یہی لفظ ’’جہاد‘‘ استعمال ہو چکا ہے.تیسرے سبق میں سورۂ لقمٰن کے دوسرے رکوع میں بیان ہوا کہ مشرک والدین اپنی اولاد کو اگر شرک پر مجبور کریں تو یہ ان کا مجاہدہ ہے. ایک مؤمن مجاہد فی سبیل التوحید ہے‘ مجاہد فی سبیل اللہ ہے اور اس کے مشرک والدین بھی مجاہدہ کر رہے ہیں‘ وہ بھی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ اپنی اولاد پر دباؤ ڈال رہے ہیں بالفاظِ قرآنی : وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا (آیت ۱۵’’اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو اُن کی بات ہرگز نہ مان‘‘.یعنی اگر وہ دونوں تجھ سے جہاد کریں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کے لیے تیرے پاس کوئی علمی دلیل نہیں‘ نہ عقل میں اس کے لیے کوئی بنیاد ہے‘ نہ انسان کی فطرت اس کی تائید کرتی ہے ‘ نہ کوئی اور علمی استدلال اس کے حق میں موجود ہے‘ نہ خدا کی اتاری ہوئی کسی کتاب میں اس کے لیے کوئی سند پائی جاتی ہے‘ تو اگر وہ تم سے مجاہدہ کریں تو تم ان کا کہنا نہ مانو!

معلوم ہوا کہ یوں نہیں سمجھنا چاہیے کہ جہاد صرف ایک بندۂ مؤمن ہی کرتا ہے‘ بلکہ جہاد تو اس دنیا کا اصول ہے. یہ دنیا قائم ہی جہاد پر ہے. وہ لوگ جو مُردہ ہوں‘ جن میں سیرت و کردار نام کی کوئی شے موجود نہ ہو‘ جن میں درحقیقت کوئی خیال یا نظریے کی 
بلندی اور پختگی پیدا ہی نہ ہوئی ہو‘ جو حیوانی سطح پر صرف حیوانی جبلتوں کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ زندگی بسر نہ کر رہے ہوں بلکہ زندگی انہیں بسر کر رہی ہو‘ اُن کا معاملہ مختلف ہے.لیکن اگر فی الواقع کسی شخص کا اپنا کوئی خیال اور نظریہ ہے‘ کسی بات کی حقانیت تک اسے رسائی حاصل ہوتی ہے‘ کسی چیز کی صحت پر اس کے دل نے (صحیح یا غلط) گواہی دی ہے‘ اس کی عقل نے اسے قبول کیا ہے‘ اس شخص میں اگر سیرت و کردار نام کی کوئی شے ہے‘ character کی کوئی قوت ہے‘ اگر وہ بامروّت انسان ہے تو اس کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنے اس نظریے اور خیال کے لیے ‘ جس کی حقانیت پر اس کے دل نے گواہی دی ہے اور جس کی صداقت کو اس کے ذہن اور دماغ نے قبول کیا ہے‘ اس میں مجاہدے کی کیفیت پیدا ہو‘ وہ اس کی نشر و اشاعت کے لیے اپنی امکانی سعی بروئے کار لائے‘ اس کے اعلان و اعتراف میں کسی بھی چیز سے خائف نہ ہو‘ یہاں تک کہ اگر جان دینے کا مرحلہ آئے تو اس کی خاطر جان قربان کر دے. یہ درحقیقت کسی بھی انسان کے صاحبِ کردار ہونے کے لیے شرطِ لازم ہے.

اس سے پہلے یہ بات عرض کی گئی تھی کہ سورۃالعصر میں جو چار چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ منطقی اعتبار سے انتہائی مربوط ہیں. عقل و منطق کے اعتبار سے ہر انسان کا طرزِعمل کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی لازماً یہ ہونا چاہیے کہ پہلے وہ یہ دیکھے کہ حق کیا ہے‘ صحیح بات کیا ہے‘ انصاف کا نقطۂ نظر کون سا ہے! یہ تلاش اور تحقیق و تفتیش اس کے لیے لازم ہے. اور جب اسے حق و صداقت معلوم ہو جائے تو اب وہ اگر صاحبِ‘کردار انسان ہے تو اسے قبول کرنا اس کے لیے لازم ہے. پھر اس حق اور صداقت کی تعلیم و تبلیغ ‘اس کا اعلان اور اس کے لیے اگر کوئی تکلیف اور مصیبت آتی ہے تو اسے برداشت کرنا‘ لوگوں کی ناراضگی مول لینی پڑے تو اس کے لیے آمادہ رہنا‘ یہاں تک کہ اگر جان پر کھیل جانا پڑے تو اس سے گریز نہ کرنا اس کے صاحبِ کردار ہونے کا تقاضا ہے. آخر سقراط نے زہر کا پیالہ کیوں پی لیا تھا؟ اس لیے کہ اس پر کچھ حقیقتیں اور صداقتیں منکشف ہوئی تھیں اورجب اس کے سامنے دو متبادل 
(alternatives) آئے کہ یا تو اِن صداقتوں سے اعلانِ براء ت کرو یا زہر کا پیالہ پی جاؤ تو اس نے زہر کا پیالہ پی جانے کو ترجیح دی اور حقائق سے مُنہ موڑلینے کو گوارا نہ کیا. یہ بالکل دو اور دوچار کی طرح کی بات ہے کہ جس شے کی حقانیت پر انسان کے دل و دماغ نے گواہی دے دی اور جس صداقت پر اسے یقین ہو گیا‘ اب اس کی غیرت و حمیت اور شرافت کا تقاضا ہے کہ وہ اس کی نشرو اشاعت‘ اس کے اعلان و اعتراف اور اس کو دنیا میں غالب اور بالفعل رائج او رنافذ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے اور اس کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہو کرگزرے. اگر وہ یہ کرتا ہے تو وہ واقعتا ایک صاحبِ کردار انسان ہے.

دین کے اعتبار سے یہ تمام کیفیات جمع کر لی جائیں تو ان کے لیے جامع عنوان ہو گا 
’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ یا ’’مجاہدہ فی سبیل اللہ‘‘ . جس نے اس کائنات کی اصل حقیقت کو پہچان لیا‘ اللہ کو جان لیا‘ اس کو مان لیا‘ اب اللہ کے لیے اپنی جان اور مال کا کھپانا اس پر لازم ہے. ایک انسان اگر کسی چھوٹی سی حقیقت کا سراغ لگانے کے بعد اس حقیقت کے بیان میں اور اس کے اعلان و اعتراف میں اپنی جان دینا گوارا کرسکتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک بندۂ مؤمن اللہ کو ماننے کے بعد اپنے گھر میں پاؤ ں پھیلا کر سوتا رہے اور اسے اس بات کی فکر نہ ہو کہ اللہ کا دین غالب ہے یا مغلوب!

لفظ جہاد کے لغوی مفہوم کے معین ہو جانے اور اس بات کو اصولی طو رپر سمجھ لینے کے بعد کہ کسی بھی صاحبِ کردار اور صاحب سیرت انسان کے لیے کسی نظریے کو قبول کرنے کے بعد اس نظریے کے لیے اپنی جان و مال کا کھپانا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ اب آیئے ہم یہ دیکھیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کا نقطۂ آغاز کیا ہے‘ اس کی اوّلین منزل کیا ہے اور اس کی آخری منزلِ مقصود کون سی ہے. یہ تین باتیں جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں بہت اہم ہیں.