ایک بندۂ مؤمن کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا نقطۂ آغاز خود اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ ہے. اس لیے کہ ایمان کا حاصل تو یہی ہے کہ انسان نے اللہ کو مانا‘ اللہ کے رسولؐ کو مانا‘ اللہ کی کتاب کو مانا‘ آخرت کو مانا‘ بعث بعد الموت‘ حساب کتاب اور جزاء و سزا کو مانا. اگر یہ ماننا صرف اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ کے درجے میں نہیں ہے‘ محض ایک Dogma یا ایک متوارث عقیدہ (Recial Creed) نہیں ہے‘ بلکہ فی الواقع ان حقائق پر انسان کا ذہن مطمئن ہو چکا ہے‘ دل میں یقین جاگزیں ہو گیا ہے اور اس سے اس کا باطن منور ہو گیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے اپنے اندر ایک کشاکش پیدا ہو گی‘ ایک تصادم اس کی شخصیت کے داخلی میدانِ کارزار میں برپا ہو جائے گا. ایک طرف نفس کے تقاضے اور انسان کا وہ نفس امّارہ (Baser Self) ہے جسے قرآن کہتا ہے : اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳) ’’یقینا نفس تو برائی پر اکساتا ہی ہے‘‘.یا جسے جدید محققین مثلاً فرائڈ نے ’’ID‘‘ یا ’’LIBIDO‘‘ سے تعبیر کیا ہے.
انسان کے یہ حیوانی داعیات اور جبلی تقاضے (animal instincts) بڑے مُنہ زور ہیں. واقعہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرائڈ کا مشاہدہ اگر اسے اس طرف لے گیا کہ جنس کا جذبہ انسان میں ایک بڑا قوی محرک ہے تو یہ بات کلیتاً غلط نہیں ہے. فی الواقع یہ سارا تمدن کا ہنگامہ اور یہاں کی چہل پہل اسی کی بنیاد پر قائم ہے. اسی طرح اگر کسی اور مفکر نے اس حقیقت کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا کہ پیٹ انسان کے اندر ایک بہت بڑا عامل اور محرک ہے اور انسان کی معاشی ضروریات اس کے لیے بہت بڑے محرک کی حیثیت رکھتی ہیں ‘تو واقعتا اس میں ہرگز کوئی شک نہیں ‘یہ بڑے مُنہ زور داعیات ہیں. انسان کے اندر سے ابھرنے والے یہ داعیات اپنے طور پر کسی صحیح اور غلط‘ حلال اور حرام یا جائز و ناجائز کی تمیز کرنے سے قاصر ہیں. یہ جذبات اندھے اور بہرے ہیں. انہیں صرف اپنے تقاضے کی تسکین سے غرض ہے. اگر بھوک لگی ہے تو پیٹ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے جہنم کو بھر دیا جائے. اگر شہوت کا جذبہ اُبھرا ہے تو اسے صرف اپنی تسکین سے غرض ہے. اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے‘ جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے. لیکن اگر اللہ کو مانا ہے‘ اللہ کے رسولﷺ کو مانا ہے تو ان کی طرف سے عائد کردہ حلال اور حرام کی قیود کی پابندی کرنی ہو گی. جیسے سورۃ التغابن میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ ایمان کا لازمی نتیجہ اطاعت ہے : وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ (آیت ۱۲) ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی‘‘. یعنی اب تمہارے وجود اور تمہارے اعضاء و جوارح سے ایسی کوئی حرکت صادر نہیں ہونی چاہیے جو اللہ اور اس کے رسولؐکے احکام کو توڑنے والی ہو. تمہارے تمام اعضاء و جوارح سے جو اعمال صادر ہوں وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں. یا جیسے کہ سورۃ الحجرات میں وارد ہے : لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ (آیت ۱) ’’اللہ اور اس کے رسولؐ سے آگے مت بڑھو‘‘. مؤمن کی آزادی کے بارے میں رسول اللہﷺ نے تشبیہاً بیان فرمایا کہ مؤمن کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے. جس قدر رسّی درازہے اسی قدر وہ کھونٹے کے گرد گھوم پھر سکتا ہے‘ اس سے زائد نہیں. یہ حدودُ اللہ ہیں. ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے : تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ(البقرۃ:۱۸۷) ’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں‘ ان کے قریب مت جاؤ‘‘. اور کہیں فرمایا گیا: وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۲۹﴾ (البقرۃ) ’’اورجو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تووہی ظالم ہے‘‘.
تو معلوم ہوا کہ یہ ایک کشمکش اور کشاکش ہے جو ایمان کے نتیجے میں انسان کی شخصیت کے داخلی میدانِ کارزار میں شروع ہو جاتی ہے. اس کشاکش کا آغاز اُسی لمحے ہو جاتا ہے جیسے ہی ایمان دل میں داخل ہوتا ہے. البتہ جب تک یہ ایمان نوکِ زبان پر رہتا ہے کوئی کشاکش نہیں ہوتی. خیال کیا جاتا ہے کہ صرف قول ہی تو ہے‘ کوئی پرواہ نہیں ہے. اس لیے کہ ‘ جیسے کہ آئندہ سورۃ الصف کے درس میں یہ مضمون آنے والا ہے : لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾ ’’کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘ قول اور فعل کا تضاد تو دنیا کی ایک عام مشاہدے کی چیز ہے کہ زبانی اقرار کسی اور بات کا ہے اور عمل کسی اور چیز پر ہو رہا ہے. لیکن واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی خیال یا کوئی نظریہ انسان کے باطن میں اتنا گہرا اتر جائے کہ وہ یقین بن کر دل میں بیٹھ جائے تو اب اس کا نتیجہ تصادم اور کشاکش کی صورت میں برآمد ہو کررہے گا.اب ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ خواہ تمہاری بھوک ہو یا شہوت ہو‘ یا کوئی اور فطری جذبہ اور تقاضا تمہارے باطن میں سے ابھر رہا ہو‘ اس کی تسکین اب حلال اور حرام کی قیود اور حدود کے اندر اندر کرنی ہو گی‘ مادر پدر آزاد ہو کر اب کوئی کام نہیں ہو گا. یہیں سے اس کشاکش کا آغاز ہو جاتا ہے. چنانچہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا: اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’اے اللہ کے رسولؐ ! سب سے اعلیٰ اور افضل جہاد کون سا ہے؟‘‘ جواباً آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ فِیْ طَاعَۃِ اللہِ ’’ کہ تو اپنے نفس کے ساتھ کشمکش کرے اور اسے اللہ کی اطاعت کا عادی اور خوگر بنائے‘‘. یہ نقطۂ آغاز ہے جہاد کا. جیسے کہ ایک اور مقام پر آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا :
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص حقیقی معنی میں (۱) رواہ فی ’’شرح السنۃ‘‘. وقال النووی فی ’’الاربعین‘‘ ھذا حدیث صحیح‘ رویناہ فی ’’کتاب الحجۃ‘‘ باسناد صحیح. مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی ہوائے نفس( اس کی خواہش نفس) تابع نہ ہو جائے اس کے جو میں لے کر آیاہوں‘‘.
یہ بات حقیقت ِ شرک کے ضمن میں عرض کی جا چکی ہے کہ شرک کی ایک ابتدائی اور بڑی بنیادی کیفیت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لے. سورۃ الفرقان کی آیت ۴۳ میں فرمایا گیا: اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ ’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا؟‘‘. مولانا رومؒ نے بھی فرمایا تھا : ؎
نفس ما ہم کمتر از فرعون نیست
لیک او را عون ایں را عون نیست
یعنی میرا یہ نفس بھی فرعون سے کم نہیں ہے‘ یہ خدا کے حکم سے سرتابی کرتا ہے‘ اس کے حکم کے مقابلے میں اپنی چاہت اور اپنی پسند کا تقاضا کرتا ہے کہ اُسے مقدم رکھاجائے‘ اسے بالاتری اور بالادستی حاصل ہونی چاہیے. یہ کشاکش درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ کا نقطۂ آغاز ہے.
اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جو لوگ مجاہدہ فی سبیل اللہ کے اس باطنی میدانِ کارزار میں کوئی فتح اور بالادستی حاصل کیے بغیر باہر کے دشمنوں سے لڑائی لڑنا شروع کر دیتے ہیں وہ دراصل خود فریبی کا شکار ہیں باہر کے دشمنوں سے نبرد آزمائی اور مجاہدہ و مقاتلہ سے پہلے اپنے نفس سے کشاکش اور اسے احکامِ الٰہی کا پابند بنانے کی جدوجہد لازم اور ناگزیر ہے. اس لیے کہ جہاد و مجاہدہ کا صحیح اور فطری طریقہ یہی ہے کہ مجاہدے کا آغاز خود اپنی ذات سے ہو. جس طرح ایک پودا زمین میں سے نکلے‘ پھوٹے اور پھر پروان چڑھے تو وہ ایک مضبوط و تناور درخت بن سکتا ہے. جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:...اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ (ابرٰہیم) ’’اس (شجر طیبہ) کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں.‘‘ اسی طرح مجاہدہ مع النفس وہ جڑ ہے جو انسانی شخصیت کے باطن میں اگر گہری نہ اتر گئی ہو اور صرف اوپر ہی اوپر زمین میں اٹکی ہوئی ہو تو پھر یہ کسی بھی سیلاب اور کسی بھی نوع کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی.