یہ مجاہدہ مع النفس جب انسان کے باطن سے پھوٹتا ہے تو یہ اللہ کے دشمنوں سے اور اللہ کے دین کے دشمنوں سے مجاہدہ‘ کشاکش اور جدوجہد کی صورت اختیار کرتا ہے. اس کی اوّلین منزل دعوت اور تبلیغ و تلقین ہے. یہ درحقیقت اس مجاہدہ فی سبیل اللہ کا خارج میں پہلا ہدف ہے کہ جو بات آپ نے حق مانی ہے اس کی حقانیت کا اعلان کیجیے‘ اس کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیجیے. یہ آپ کی شرافتِ نفس کا تقاضا بھی ہے . نبی اکرم کی بڑی پیاری حدیث ہے کہ :

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (۱)

’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘.
اگر آپ نے ایک حق کو حق جان کر اور اسے اپنے لیے ایک دولت اور نعمت ِ غیر مترقبہ سمجھ کر قبول کیا ہے‘ تو اب آپ کی شرافت و مروّت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے بھائیوں تک بھی اس دولت کو پہنچایئے. اگر فی الواقع آپ ان کے خیر خواہ ہیں تو ان کو اس دولت سے محروم دیکھنے پر آپ کا دل کڑھنا چاہیے. اسی طرح غیرت وحمیت کا تقاضا بھی ہے کہ اس حق کود نیا میں پھیلایا جائے اور عام کیا جائے.