اس مجاہدہ فی سبیل اللہ کا آخری ہدف اور اس کی غایت قصویٰ کیا ہے؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اس کائنات کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اُسی کا حکم نافذ ہونا چاہیے. اَلْاَرْضُ لِلّٰہِ وَالْحُکْمُ لِلّٰہِ. زمین بھی اللہ کی ہے اور حکم بھی اللہ کا ہے. بالفاظ قرآنی : اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ (یوسف:۶۷) حکم (اور فیصلے )کا اختیار سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں‘‘. گویا تمام حقائق میں سب سے فائق حق یہی ہے کہ اللہ کی زمین پر اُسی کے اختیار کو عملاً نافذو غالب ہونا چاہیے‘ جبکہ بالفعل معاملہ اس کے برعکس ہے. چنانچہ اس حق کو بالفعل دنیا میں نافذ کرنے کے لیے اب ایک مزیدمحنت درکار ہو گی‘ مزید جدوجہد کی ضرورت ہو گی.دعوت و تبلیغ کے لیے محنتیں اور کوششیں اپنی جگہ اہم ہیں‘لیکن یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اگر کسی بے ضرر قسم کی بات کی تبلیغ کی جا رہی ہو ‘ جس میں کسی پر کوئی تنقید نہ ہو اور جس میں کسی کے مفادات پر کوئی آنچ نہ آتی ہو تو کوئی تصادم نہیں ہو گا‘ کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا‘ بلکہ بالعموم ایسے واعظین کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور ان کی خدمت کی جاتی ہے. لیکن اگر تبلیغ ہو صحیح معنی میں کہ جس میں حقیقت ہی کو سامنے لایا جائے اور حق بات کے کہنے سے دریغ نہ کیا جائے‘ خواہ اس سے لوگوں کے مفادات پر آنچ آ رہی ہو‘ یا ان کے غلط نظریات اس سے مجروح ہو رہے ہوں‘ تو ظاہر بات ہے کہ تصادم اور کشمکش کا مرحلہ آ کر رہے گا. یہی وجہ ہے کہ یہ تصادم اور کشمکش مکی دَور میں بھی ہمیں نظر آتی ہے.لیکن اس سے آگے مرحلہ آتا ہے جب داعیٔ حق یہ کہتا ہے کہ ہم صرف مبلغ نہیں ہیں ‘ ہم صرف داعی نہیں ہیں‘ بلکہ ہم تو حق کو قائم اور غالب کرنے کے لیے اٹھے ہیں‘ ہم عدل وانصاف کا صرف وعظ کہنے کے لیے نہیں آئے‘ بلکہ ہم عدل و انصاف کو بالفعل نافذکرنا چاہتے ہیں. یہ بات ہے جو سورۃ الشوریٰ میں نبی کریمﷺ سے کہلوائی گئی کہ اے نبی! ان سے کہہ دیجیے : وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (آیت :۱۵) ’’اورکہ مجھے تو یہ حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل کروں‘‘. ظاہر بات ہے کہ جب دعوت یہ ہو گی کہ اللہ کا عطا کردہ نظامِ عدل قائم کیا جائے‘ اسے نافذ اور رائج کیا جائے تو یہ صرف تبلیغ و تلقین اور وعظ و نصیحت کا مرحلہ نہیں ہے‘ بلکہ اقامت دین کا مرحلہ ہے. یہ صرف کسی نظام کی برکات کو علمی سطح پر پیش کر دینے کا مرحلہ نہیں بلکہ اس نظام کو فی الواقع قائم اور نافذ کر دینے کا مرحلہ ہے. تو سیدھی سی بات ہے کہ یہاں تصادم اب مزید شدت اختیار کرے گا. جن کے مفادات پر آنچ آئے گی وہ اسے کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے. وہ اپنی پوری قوتوں کو اور اپنے تمام وسائل و ذرائع کو مجتمع کر کے مزاحمت کریں گے اور اس دعوت کی راہ روکنے اور اسے کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے. اس مرحلے پر یہ کشاکش اور تصادم انتہائی شدید اور ہولناک صورت اختیار کرے گا.