تو اقامت دین اور غلبۂ دین حق کی اس جدوجہد میں‘ جس کے لیے قرآن مجید کی ایک اصطلاح ’’اِظْھَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ کی بھی ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی ناپسند کرے تصادم کی یہ آخری منزل آ کر رہے گی‘ آگ اور خون کی ندیوں کو بہرحال عبور کرنا ہو گا‘ اپنے خون کا نذرانہ بہرکیف پیش کرنا ہو گا. اس لیے کہ یہ نظام کو بدلنے کا معاملہ ہے‘ وعظ اور نصیحت سے آگے بڑھ کر عدل اور انصاف کو بالفعل رائج کرنے کا معاملہ ہے. یہاں وہ تصادم انتہائی شدت پکڑ لیتا ہے‘ اور جہاد بالفعل ’’قتال‘‘ کی شکل اختیار کرتا ہے.
یہ ہے گویا اُس مجاہدہ فی سبیل اللہ کا نقطۂ عروج‘ جس کا نقطۂ آغاز ہے ’’مجاہدہ مع النفس‘‘. نفسِ انسانی سے یہ مجاہدہ جب خارج کی طرف آتا ہے تو یہ تبلیغ دین‘ دعوتِ دین‘ احقاقِ حق‘ ابطالِ باطل اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے. دنیا میں حق کی نشرو اشاعت اور بدی کے سدّباب کے لیے وعظ و نصیحت‘ تلقین و تبلیغ اور افہام و تفہیم کی تمام قوتوں کو بروئے کار لانا اور ابلاغ کے ممکنہ ذرائع کو استعمال کرنا اس جدوجہد کا اوّلین مرحلہ ہے اور اس سے اصل مقصود یہ ہے کہ خلقِ خدا پر خدا کی جانب سے حجت قائم کر دی جائے اور اس کی بلند ترین منزل ہے ’’اِظْہَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ کہ پورے کے پورے دین اور پورے نظامِ زندگی پر اللہ کے دین کو غالب کر دیا جائے.
قرآن مجید اس حقیقت کو کہیں یوں بیان کرتا ہے : وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹) ’’اور (اے مسلمانو!) ان کے ساتھ جنگ کرو (اورتمہاری یہ جنگ جاری رہنی چاہیے) یہاں تک کہ فتنہ بالکل فرو ہو جائے اور دین کُل کا کُل اللہ ہی کے لیے ہو جائے‘‘. اس زمین پر اللہ کا حق ہے کہ اسی کی حکومت قائم ہو. لیکن اگر یہاں کسی اور نے اپنی حکمرانی کا تخت بچھایا ہوا ہے اور کسی فرعون یا نمرود کی مرضی یہاں رائج ہے تو یہی درحقیقت قرآن حکیم کی اصطلاح میں فتنہ ہے. یہ فساد فی الارض کی بدترین شکل ہے. اس فتنے کو ختم کرنا اور اس بغاوت کو فروکرنا ایک بندۂ مؤمن کا مقصد ِ حیات بن جانا چاہیے. اگر وہ واقعتا اللہ کو ماننے والا ہے اور اگر اس نے واقعتا دین کو قلب اور ذہن کی متفقہ شہادت کے ساتھ قبول کیا ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر وہ ایسے ہر نظام کو جس میں خدا کی مرضی اور خدا کے حکم کو فائنل اتھارٹی کی حیثیت سے قبول نہ کیا جائے‘ فتنہ اور بغاوت سمجھے گا‘ چاہے وہاں بظاہر بڑا امن و امان ہو اور وہاں ہر طرح سے زندگی کا کاروبار سکون سے جاری ہو. قرآن کی رو سے غیر اللہ کی حکومت اور غیر اللہ کا نظام مجسم فتنہ‘ مجسم فساد اور مجسم بغاوت ہے‘لہذا اس کے خلاف سینہ سپر ہو جانا اور اپنے جان و مال کو دین کی حمایت میں کھپا دینا ایمان کا لازمی نتیجہ ہے. یہ ایمانِ حقیقی کا رکن لازم ہے.
ہمارے اس دورِ انحطاط میں‘جیسا کہ آغاز میں عرض کیا گیا‘ جہا د فی سبیل اللہ پر دو ظلم روا رکھے گئے. ایک یہ کہ اس کو جنگ کے مترادف قرار دے دیا گیا. چنانچہ اس کی وسعت‘ اس کی ہمہ گیری‘ اس کا نقطۂ آغاز ‘ اس کے وہ سارے مراحل جن میں دعوت و تبلیغ بھی ہے‘ نشر و اشاعت بھی ہے‘ پھر جو لوگ اس حق کو قبول کر لیں ان کو ایک نظم میں پرو کر ایک منظم قوت کی شکل دینا اور انہیں آئندہ کے مراحل کے لیے مناسب تربیت دینابھی شامل ہے‘ یہ سب ذہن سے بالکل خارج ہو گئے. دوسرا ظلم یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ہر جنگ کو بہرحال اور بہرنوع جہاد قرار دے دیا گیا. اس طرح ’’جہاد‘‘ کے لفظ کو ہم نے انتہائی بدنام کر دیا اور اس کے مقدس تصور کو بہت بری طرح مجروح کیا گیا. اور تیسرا ظلم اس پر یہ ڈھایا گیا کہ جہاد کو فرائض دینی کی فہرست سے خارج کر دیا گیا کہ یہ فرضِ عین نہیں ہے‘ بلکہ فرضِ کفایہ ہے. یہ درحقیقت مسلمانوں کے اندر سے جذبۂ جہاد کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے. کہیں یہ سازش بڑے ہی گھناؤ نے انداز میں ہوئی‘ جیسے کہ غلام احمد قادیانی (علیہ ما علیہ) نے جہاد اور قتال کو اس دور میں بالکل منسوخ قرار دے دیا کہ ؏ ’’دیں کے لیے حرام ہے اب دوستو قتال!‘‘یہ تو خیر انتہائی گمراہی کا معاملہ تھا‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ خود ہمارے تصوراتِ دینی میں اب یہ جہاد فی سبیل اللہ کسی فرض کی حیثیت سے موجود نہیں ہے. ہم یہ تو جانتے ہیں کہ نماز فرض ہے ‘ہمیں یہ معلوم ہے کہ روزہ فرض ہے‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زکوٰۃ ہر صاحب ِ نصاب پر فرض ہے اور ہمیں یہ بھی خوب معلوم ہے کہ حج ہر صاحب ِ استطاعت پر فرض ہے‘ لیکن یہ بات بالکل ذہن سے نکل چکی ہے کہ جہاد بھی فرضِ عین ہے‘ یہ بھی دین کی طرف سے عائد شدہ کوئی ضروری فریضہ ہے. ضرورت ہے کہ اس تصور کو عام کیا جائے.
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاد کا شمار ’’ارکانِ اسلام‘‘ میں نہیں ہوتا. اسلامی ریاست کے شہری ہونے کے لیے اورایک مسلمان معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے کسی کے قبول کیے جانے کے لیے جو کم سے کم لوازم ہیں‘ ان میں واقعتا جہاد کا نام نہیں ہے. بخاری و مسلم سے مروی حدیث نبویؐ کے الفاظ واضح ہیں:
بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (۱)
’’اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : اس بات کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘ اور نماز قائم کرنا‘ اور زکوٰۃ دینا اور (بیت اللہ کا) حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا.‘‘
ارکان اسلام میں یہی پانچ چیزیں ہیں‘ لیکن وہ ایمانِ حقیقی‘ جس کی بنیاد پر آخرت میں معاملات طے ہوں گے‘ جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کسی کو آخرت میں مؤمن قرار دے گا‘ اس ایمانِ حقیقی کے ارکان دو ہیں: ایک یقین ‘ جو قلب میں جاگزیں ہو گیا ہو اور دوسرا جہاد‘ جو انسان کے عمل میں یقین قلبی کا اوّلین اور نمایاں ترین مظہر ہے. اور یہ وہ کشاکش اور تصادم ہے‘ اس راہ میں جان اور مال کا کھپانا ہے. اس کا نقطۂ آغاز ہے خود اپنے نفس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کا پابند بنانے کے لیے اس کے ساتھ مجاہدہ. اور اس کے لیے پھر ابتدائی مرحلہ یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ‘ نشر و اشاعت اور تمام ممکنہ ذرائع ابلاغ (۱)صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب بنی الاسلام علـٰی خمس. کو کام میں لا کر حق کی دعوت کو پھیلایا جائے. اور اس کی آخری منزل یہ ہے کہ جس طریق سے اس شخص نے اپنے وجود پر اللہ کے دین کو قائم اور اللہ کی مرضی کو نافذ کیا ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کو اس پر بالفعل قائم کر دیا ہے‘ اسی طرح پورے کرۂ ارضی پر اللہ کے دین کو عملاً نافذ اور غالب کرنے کے لیے جان اور مال لگائے. اس کے لیے تن من دھن سے کوشش کرے اور اگر ضرورت داعی ہو تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں حاضر ہو جائے. اور اللہ تعالیٰ توفیق دے تو مرتبۂ شہادت حاصل کرے.
؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت ‘ نہ کشور کشائی!
یہ ہے اسلام میں جہاد کا وہ تصور جو اب ہمارے آئندہ دروس میں مزید وضاحت کے ساتھ سامنے آئے گا.
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo