ایک مکمل انقلاب کے چھ یا سات مراحل ہیں

(۱) انقلابی نظریہ

ہر انقلاب کی پہلی ضرورت ایک ایسا انقلابی نظریہ اور انقلابی فلسفہ ہوتی ہے جو پہلے سے موجود Politico-Socio-Economic System کی جڑوں پر تیشہ بن کر گرے. اور جب تک اس کے اندر ایسی کاٹ موجود نہ ہو کہ یہ موجودہ سیاسی نظام کو کاٹتا ہو‘ معاشی نظام کو کاٹتا ہو‘ سماجی نظام کو کاٹتا ہو اس وقت تک وہ انقلابی نظریہ نہیں محض وعظ (Sermon) ہے. دوسرے یہ کہ اگر وہ نظریہ اور فلسفہ نیا ہے تو معاملہ آسان ہے. وہ اپنی اصطلاحات خود وضع کر ے گا اور ان اصطلاحات کے معنی خود معین کرے گا .لیکن اگر وہ کوئی پرانا نظریہ ہے تو اب اُس کی جدید تعبیر پیش کرنا ہو گی اور اس کی وضاحت دورِ حاضر کی جدید اصطلاحات کے مطابق وقت کی علمی سطح پر کرنا ہو گی. پھر اس نظریئے کو پھیلایا جائے‘ عام کیا جائے اور اس کے لیے دورِ جدید کے تمام میسر ذرائع ابلاغ استعمال کیے جائیں. پہلے کبھی صرف گلیوں بازاروں میں گھوم پھر کر لوگوں کو جمع کر کے دعوت دی جا سکتی تھی یا لوگوں کو کھانے پر بلا لیاجاتا اور ان کے سامنے کوئی بات رکھی جاتی. لیکن اب جلسے ہو سکتے ہیں‘ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں. چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سمیت دورِ جدید کے تمام ذرائع ابلاغ انقلابی نظریئے کی تشہیر و اشاعت کے لیے استعمال کیے جانے چاہئیں.

(۲) تنظیم

دوسر ے مرحلے کے طور پر جو لوگ اس نظریئے کو قبول کر لیں انہیں ایک ہیئت اجتماعی کے تحت منظم کیا جائے. اس ہیئت اجتماعی یا تنظیم کی بھی دو شرطیں ہیں. اوّلاً یہ بڑی مضبوط ڈسپلن والی تنظیم ہونی چاہئے. اس لیے کہ جب مقابلہ پیش آئے گا اور آپ موجودہ نظام کو ختم کرنے کے لیے میدان میں آئیں گے تومراعات یافتہ طبقات جن کے اس نظام سے مفادات وابستہ ہیں ‘اس نظام کی پاسبانی کی خاطر آپ کو کچلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ع ’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو یہ معرض انقلاب میں ہے!‘‘ تب آپ کو ان کے مقابل ایک فوجی ڈسپلن کی ضرورت ہو گی. محض mob مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ بلکہ یہاں ’’listen & obey‘‘ کے اصول کے تحت منظم ہونے والی مضبوط جماعت درکار ہو گی جس کے ڈسپلن کا یہ عالم ہو کہ ؎

Their's not to reason why?
Their's but to do and die!

ثانیاً یہ کہ اس تنظیم میں کارکنوں کی حیثیت اور مرتبے کا تعین تحریک کے ساتھ وفاداری اور قربانی کی بنیاد پر ہونا چاہئے‘ نہ یہ کہ کوئی برہمن ہو تو اونچا ہے اور شودر ہو تو نیچا ہے. اگر ایسا ہے تو پھر یہ انقلابی تنظیم نہیں. انقلابی تنظیم میں تو ہر شخص کی commitment کی گہرائی اور تحریک کے ساتھ اس کی وابستگی اور وفاداری کی بنیاد پر اس کی حیثیت کا تعین ہو گا‘ یہ بھی دیکھاجائے گا کہ اس نے کتنی قربانی دی ہے. عین ممکن ہے کہ ایک شودر کمیونسٹ پارٹی میں اوپر چلا جائے اور برہمن نیچے رہ جائے.

(۳) تربیت

تیسرا مرحلہ کارکنوں کی تربیت کا ہے. اس مرحلے میں انقلابی جماعت کے کارکنوں کے ذہنوں سے انقلابی نظریہ ایک لحظے کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونا چاہئے. اس لیے کہ اسی نظریئے پر تو ساری انقلابی جدوجہد کا دارو مدار ہے. اگر وہ انقلابی نظریہ ذہنوں میں راسخ ہے تو عمل کا جذبہ بھی بیدار رہے گا اور اگر وہ نظریہ مدھم پڑ گیا تو جذبۂ عمل بھی ختم ہو جائے گا. اس کے ساتھ ساتھ انہیں ڈسپلن کا عادی بنایا جائے کہ سنیں اور مانیں. یہ آسان کام نہیں ہے ‘ بلکہ اس کے لیے بڑی ٹریننگ کی ضرورت ہے. بقول شاعر ؎

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے 
بے نیازی تری عادت ہی سہی!

لیکن تسلیم کی خو ڈالنا آسان نہیں ہے. اس میں اپنی انا آڑے آ جاتی ہے‘ بلکہ انا سے بڑھ کر انانیت راستے کا پتھر بن جاتی ہے. انقلابی تربیت کا تیسرا ہدف یہ ہے کہ تحریک کے کارکنوں میں اپنا تن‘ من‘ دھن سب قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے. اس کے بغیر انقلاب نہیں آ سکتا . بقول اقبال ؎

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں!

یہ تین تو انقلابی تربیت کے لازمی اجزاء ہیں. ان کے علاوہ چوتھا جزو یہ ہو گا کہ آپ انقلاب کے ذریعے سے جو نظام قائم کرنا چاہتے ہیں اس میں اگر کوئی روحانیت کا پہلو بھی مطلوب ہے تو کارکنوں کی روحانی تربیت بھی کرنا پڑے گی. کارکنوں کی روحانی تربیت کے بغیر انقلاب کے اندر روحانیت کہاں سے آجائے گی؟ 

(۴) صبر محض (Passive Resistance)

یہ مرحلہ کہنے کو تو نمبر ۴ ہے لیکن حقیقت میں اس کا آغاز پہلے مرحلے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے. صبر محض (Passive Resistance) کا مطلب یہ ہے کہ انقلابی تحریک کے کارکن اپنے موقف پر ڈٹے رہیں‘ پیچھے نہ ہٹیں‘ لیکن تشدد و تعذیب کے جواب میں کسی قسم کی جوابی کارروائی نہ کریں. اس کی وجہ بہت منطقی (logical) ہے. پہلی بات تو یہ کہ معاشرے کے اندر conflict پیدا کرنے والے یہی انقلابی لوگ ہوتے ہیں. ورنہ لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے. امراء بھی تھے اور غرباء بھی. غرباء اپنی قسمت پر راضی تھے‘ امراء اپنے ہاں عیش کر رہے تھے. غلام بیچارہ اپنا کام کر رہا ہے ‘اس کو پتا ہے میری قسمت یہی ہے‘ مجھے خدا نے غلام بنا دیا. اسی لیے مارکس نے کہا تھا کہ مذہب عوام کا افیون ہے ‘لہذا عوام اپنے حال پر صابر و شاکر رہتے ہیں اور انقلاب کے لیے نہیں اٹھتے. وہ نظام کے خلاف بغاوت نہیں کرتے. چنانچہ جیسے ایک پُرسکون تالاب جس میں کوئی لہریں نہ ہوں‘ اس میں آپ نے پتھر مار کر ارتعاش پیدا کر دیا ہو اسی طرح انقلابی لوگ پہلے سے قائم نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں کہ یہ نظام غلط ہے‘ یہ ایک استحصالی (exploitative) اور استبدادی (repressive) نظام ہے. یہ انسانوں کے اندر امتیازات (discrimination) قائم کر رہا ہے . تو کس نے پتھر مارا؟ داعیانِ انقلاب نے!اب پتھر پانی میں جائے گا تو کچھ لہریں تو اٹھیں گی. تو معاشرے میں جو لہریں اٹھتی ہیں وہ انقلابی دعوت کا ایک فطری ردِّعمل ہیں. البتہ اس ردّعمل کے بھی مختلف درجات اور stages ہوتی ہیں. 

ان میں دو stages بڑی اہم ہیں. پہلی stage میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو شخص داعی انقلاب بن کر سامنے آیا ہے اس کی کردار کشی کی جائے‘ کسی نہ کسی طرح اس کی شخصیت کو مجروح کیا جائے‘ اس کی ہمت کو توڑ دیا جائے اور اس کی قوتِ ارادی کو ختم کر دیا جائے. لہٰذا تشدد اور تعذیب (persecution) کا واحد نشانہ داعی کی ذات بنتی ہے. اور یہ ایذا رسانی اوّلاً زبانی ہوتی ہے کہ یہ پاگل ہے‘ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے‘ ہمارا نظام ٹھیک ٹھاک صدیوں سے چلا آ رہا ہے‘ ہمارے آباء و اجداد سے چلا آ رہا ہے‘ یہ اسے غلط کہتا ہے. اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے یا شاید آسیب کا سایہ ہو گیا ہے‘ اس پر کوئی جن آ گیا ہے.

اگر اس انداز سے داعی کی قوتِ ارادی کو ختم کر دیا جائے تو اس کی ہمت جواب دے جائے گی. اب کسی اور کوکچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں. درخت کی جڑ کٹ جائے تو سارا درخت خود بخود ہی ختم ہو جاتا ہے. لیکن اگر وہ داعی کھڑا رہ گیا‘ اپنی کردار کشی کی کوششوں کو برداشت کر گیا‘ جواباً اس نے یہ نہیں کہا کہ تم پاگل ہو‘میں نہیں ہوں‘ تمہارا دماغ خراب ہے میرا نہیں ہے ‘اور مخالفین نے دیکھا کہ یہ دعوت تو آگے بڑھ رہی ہے اور لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں تو پھر زبانی ایذا رسانی سے آگے بڑھ کر جسمانی تشدد و تعذیب کی stage کا آغاز ہو جاتا ہے اور اب اس کا نشانہ صرف داعی کی ذات نہیں بلکہ انقلابی تحریک کے تمام کارکن بالخصوص کمزور عوام اور اونچے گھرانوں کے نوجوان بنتے ہیں. اب انہیں مارا جاتا ہے‘ بھوکا رکھا جاتا ہے‘ گھروں سے نکال دیا جاتا ہے. جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے‘ انہیں قتل کیا جاتا ہے‘ فائرنگ سکواڈز کے سامنے کھڑے کر کے ان کو سینکڑوں کی تعداد میں گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے. 

اب یہاں ’’صبر محض‘‘ کی ضرورت ہے کہ اس سارے تشدد کو کسی جوابی کارروائی کے بغیر برداشت کیا جائے. اس لیے کہ شروع میں انقلابی تحریک کے کارکن تھوڑے سے ہوتے ہیں. اگر وہ بھی مشتعل 
(violent) ہو جائیں تو اس سسٹم کو حق حاصل ہو گا کہ انہیں کچل کر ختم کر دیا جائے. لیکن اگر وہ کچھ نہیں کر رہے‘ کوئی جوابی کارروائی نہیں کر رہے توانہیں تشدد و تعذیب کا نشانہ تو بنایا جائے گا لیکن انہیں کچلا نہیں جا سکے گا. اس طرح انہیں مہلتِ عمل حاصل ہوجائے گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی دعوت پہنچا سکیں اور اپنا تنظیمی Base زیادہ سے زیادہ وسیع کر سکیں . یہ موجودہ سسٹم سے اسی صورت میں براہِ راست ٹکر لے سکیں گے اگر ان کے پاس طاقت ہو گی. اور طاقت حاصل کرنے کے لیے ابھی انہیں وقت چاہئے‘ جسے میں ’’to buy time‘‘ کہتا ہوں.لہذا ابھی انہیں اپنے تحفظ میں بھی ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے. اس کا نہایت اہم نتیجہ یہ نکلے گا کہ انقلابی کارکنوں کو عوام الناس کی ہمدردیاں حاصل ہو جائیں گی.

دیکھئے معاشرے میں جہاں چوہدری‘ سردار‘ سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں وہاں عوام بھی ہیں. چوہدری‘ سردار‘ تعلقہ دار‘جاگیردار اور سرمایہ دار تو یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہمارے خلاف انقلاب کی جدوجہد ہورہی ہے ‘جبکہ عوام تو یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے ‘ لیکن ان میں انقلابیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہوتی‘ وہ ان کی حمایت میں بول بھی نہیں سکتے. اسی کو ہم خاموش اکثریت (silent majority) کہتے ہیں. عوام کی اکثریت خاموش ہوتی ہے‘ لیکن وہ اندھے بہرے تو نہیں ہوتے. وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے‘ انہیں کیوں مارا جا رہا ہے‘ کیوں قتل کیا جا رہا ہے ‘ کیوں ان کے گھر بارود سے اڑائے جا رہے ہیں‘ کیوں ان کے پورے پورے خاندان کولہوئوں میں پلوائے جا رہے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ان کا آخر جرم کیا ہے؟انہوں نے چوری کی ہے یا ڈاکہ ڈالا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں کیا یہ تو محض ایک نظریئے پر یقین رکھتے ہیں اور معاشرے سے ظلم و ناانصافی اور استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں. عوام محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان پر واقعی ظلم ہو رہا ہے. چنانچہ اندر ہی اندر عوام کی ہمدردیاں ان انقلابیوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں. گویا ع ’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ!‘‘

(۵) راست اقدام (Active Resistance)

انقلابی جدوجہد کا پانچواں مرحلہ اقدام کا ہوگا. یہ انتہائی نازک فیصلے کا وقت ہے اور قیادت کی ذہانت کا امتحان ہے. اس مرحلے کے لیے مناسب وقت کا تعین بہت ضروری ہے. اگر آپ کی تیاری نہیں ہے اور آپ نے اقدام کر دیا تو آپ ختم ہو جائیں گے. دوسری طرف اگر تیاری پوری ہونے کے باوجود اقدام میں تاخیر کر دی تو آپ نے موقع کھو دیا. You have missed the bus گویا اگر آپ نے موقع گنوا دیا تب بھی آپ ناکام ٹھہریں گے اور اگر آپ نے قبل از وقت اقدام کر دیا‘ تب بھی ناکام قرار پائیں گے. اقدا م کا فیصلہ اس وقت کیا جانا چاہئے جب یہ محسوس ہو کہ ایک تو ہماری تعداد کافی ہے. ’’کافی‘‘ کامطلب مختلف حالات میں مختلف ہو گا. ایک چھوٹے سے ملک میں جس کی ایک کروڑ کی آبادی ہے‘شاید پچاس ہزار آدمی بھی ایسے تیار ہو جائیں تو کافی ہو جائیں گے‘ جبکہ پندرہ کروڑ کی آبادی کے ملک میں تین چار لاکھ تربیت یافتہ افراد درکار ہوں گے. دوسرے یہ کہ اب ان کے اندر ڈسپلن کی پوری پابندی ہو‘ یہ listen & obey کے اصول کے خوگر ہو گئے ہوں کہ انہیں حکم دیا جائے گا تو حرکت کریں گے اور جب رُکنے کا کہا جائے گا تو رُک جائیں گے.

ایسے انقلابی نہ ہوں کہ اوّل تو چلتے ہی نہیں اور اگر چل پڑیں تو رُکتے ہی نہیں. مالاکنڈ میں صوفی محمدصاحب کی جو تحریک نفاذِ شریعت چلی تھی اس میں قائد نے حکم ہی نہیں دیا تھااور گولیاں چلنی شروع ہو گئی تھیں. پھر ان کے کارکنوں نے پہاڑوں پر جاکر مورچے بنا لیے تھے. ان کے قائد نے انہیں نیچے اترنے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا مولوی بک گیا .تو یہ منظم جماعت نہیں تھی‘ اس میں ڈسپلن نہیں تھا‘ بلکہ یہ ایک ہجوم (mob) تھا جو ایک جذباتی اپیل کے تحت آگے آ گیا تھا. اس ضمن میں تیسری شرط یہ ہے کہ انقلابی کارکن اپنے مشن کی خاطر اپنے جان و مال سمیت ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہوں. جب یہ تین شرطیں پوری ہوں تو یہ تحریک صبرِ محض (Passive Resistance) سے راست اقدام (Active Resistance)کے مرحلے میں منتقل ہو سکتی ہے. 

اب یہ سمجھ لیجئے کہ راست اقدام 
(Active Resistance) کا مطلب کیا ہے.اس کے لیے بھی میں باہر سے مثالیں دوں گا‘ ابھی میں حضور کی سیرتِ طیبہ سے کوئی مثال نہیں دے رہا. اس لیے کہ پہلے آپ جدید اصطلاحات کے حوالے سے ایک خاکہ اپنے ذہن میں جما لیں‘ پھر ہم اس میں سیرتِ نبویؐ سے رنگ بھریں گے. لیکن واضح رہے کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ طریق انقلاب کے علم و ادراک کے لئے میرے نزدیک محمد رسول اللہ کی سیرت کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں. Active Resistance یہ ہے کہ آپ نظام کی کسی دکھتی رگ کو چھیڑیں‘اگرچہ آپ نے براہِ راست ابھی کوئی چیلنج نہیں کیا‘ کوئی الٹی میٹم نہیں دیا. مثال کے طور پر گاندھی نے انگریز حکمرانوں کے خلاف سب سے پہلے ’’عدم تشدد‘ عدم تعاون‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا. یعنی ہم تشدد نہیں کریں گے ‘ مار دھاڑ نہیں کریں گے‘ لیکن ہم انگلینڈ کی ملوں میں بنا ہوا کپڑا استعمال نہیں کریں گے.

بلکہ ہم تو اپنا چرخہ چلائیں گے ‘اس پر سوت کاتیں گے اور اس سے کھدر بنیں گے اور وہ پہنیں گے.چرخے کو انہوں نے اپنا قومی نشان قرار دے دیا. ذرا غور تو کیجئے کہ بیسویں صدی میں ایک قوم اور اس کی ایک جماعت چرخے کو اپنا قومی نشان قرار دے رہی ہے. اب بتایئے کیاکوئی قانون ہو سکتا ہے کہ تم ضرور ولایتی کپڑا پہنو؟ اور کیا انہوں نے کسی اور کو کوئی نقصان پہنچایا؟ کسی کی جان اور مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا‘ لیکن حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی. اس لیے کہ مانچسٹر کی ملیں بند ہونے لگیں. انڈیا برطانوی کپڑے کی بہت بڑی مارکیٹ تھا اور یہاں انگلینڈ سے آنے والے لٹھے‘ گرم کپڑے اور ململ کی بہت زیادہ کھپت تھی. لیکن اب یہاں صرف ’’کھادی‘‘ چل رہی تھی. یہ انگریز کے خلاف Active Resistance کا پہلا قدم تھا. اس سے انگریزوں کو پتہ چل گیا کہ اب کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے. اس تحریک کا دوسرا قدم عدم تشدد پر مبنی سول نافرمانی کی تحریک تھا کہ ہم کوئی تشدد نہیں کریں گے‘ کوئی توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ نہیں کریں گے‘ لیکن قانون توڑیں گے. اور قانون شکنی کا انداز ملاحظہ ہو کہ پرماتما کا سمندر ہے‘ پرماتما نے اس میں نمک پیدا کیا ہے‘ ہم پرماتما کے سمندر سے نمک نکالنے جا رہے ہیں. ہم نے تو کسی کو کچھ نہیں کہا. لیکن اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ نے برطانوی حکومت کی ٹیکس پالیسی کو چیلنج کر دیا. اس لیے کہ نمک پر ایکسائز ڈیوٹی عائد تھی. چنانچہ اب لاٹھیاں پڑیں‘ بڑے بڑے لیڈروں کے سر پھٹے اور بڑے پیمانے پر جیلیں بھری گئیں. اگرچہ تحریک آزادی کے کارکنوں نے کوئی تشدّد نہیں کیا! 

(۶)مسلح تصادم (Armed Conflict)

اقدام کے بعد چھٹا اور آخری مرحلہ براہِ راست تصادم کا ہو گا. یعنی موجودہ نظام اور اس کے محافظوں کے ساتھ انقلابی کارکنوں کا باقاعدہ جسمانی تصادم ہو گا. کیونکہ جب آپ نے Active Resistanceشروع کر دی ہے تو گویا کہ آپ نے پورے سسٹم کو براہِ راست چیلنج کر دیا ہے‘ لہٰذا اب موجودہ استحصالی نظام انقلابی تحریک کے کارکنوں کو مکمل طور پر کچلنے کے لیے اقدام کرے گا. اس مرحلے پر انقلابی تحریک کا امتحان ہو گا. اگر تحریک نے انقلاب کے لیے تیاری ٹھیک طور سے کی تھی ‘کارکنوں کی تنظیم و تربیت درست نہج پر کی گئی تھی‘ صحیح وقت پر اقدام کا فیصلہ کیا تھا تو یہ تحریک کامیاب ہوجائے گی. اور اگر تیاری کے بغیر ہی اقدام کر دیا‘ابھی نہ تو انقلابی کارکنوں کی معتدبہ تعداد موجود تھی‘ نہ ابھی ان کی تربیت تھی‘ نہ وہ listen and obey کے خوگر تھے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ تحریک ناکام ہو جائے گی. گویاتصادم کے اس مرحلے کے بعد تو تخت یا تختہ والی بات ہو گی‘کوئی درمیانی بات نہیں ہو گی.اس تصادم کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں‘ وہ میں بعد میں بیان کروں گا. 
طریقِ انقلاب کے ضمن میں مَیں نے اب تک جو کچھ عرض کیا ہے اس کو اگر آپ شعری انداز میں سمجھنا چاہیں تو علامہ اقبال کے ایک فارسی شعر کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں ؎

گفتند جہانِ ما آیا بہ تو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد ‘ گفتند کہ برہم زن!

اس شعر میں اقبال اللہ سے اپنا ایک مکالمہ بیان کر رہا ہے . اللہ نے مجھ سے کہا اے اقبال! میں نے تمہیں اپنی جس دنیا میں بھیجا ہے آیا وہ تمہارے ساتھ سازگار ہے؟ کیا تمہیں وہ پسند ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں‘ مجھے پسند نہیں! یہاں ظلم ہے‘ یہاں غریب پس رہا ہے. یہاں مزدور کے رگوں کے خون کی سرخی سے شراب کشید کر کے سرمایہ دار پیتا ہے . ؎

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!!

سرمایہ دار نے مزدور کی رگوں میں دوڑنے والے خون سے سرخ شراب کشید کی ہے اورجاگیرداروں کے ظلم و ستم سے دہقان کی کھیتی خراب ہے. اس کے بچے بھوکے ہیں اور اس کی کھیتی سے ان کی غذا کا اہتمام نہیں ہو رہا. یہ اقبال کی بڑی عظیم نظم ہے جس میں اس نے انقلاب کا نعرہ لگایا ہے. تو اقبال کہتے ہیں کہ جب میں نے کہا کہ مجھے تیرا یہ جہان پسند نہیں‘ یہ میرے لیے سازگار نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’برہم زن!‘‘یعنی اسے توڑ پھوڑ دو‘ درہم برہم کر دو! یہاں انقلا ب برپا کر دو!! 

اب اس انقلاب کا طریق کار کیا ہو؟ اسے اقبال نے د و مصرعوں میں بیان کر دیا ہے. پہلے مصرعہ میں چار مراحل اور دوسرے میں دو مراحل بیان کیے ہیں ؎

با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنتِ جم زن!

پہلے درویشی کی روش اختیار کرو اور اپنا کام کرتے رہو. دعوت و تبلیغ میں لگے رہو. کوئی پاگل کہے یا کوئی گالی دے تو اُسے جواب میں دعا دو. یہ درویشی ہے. گویا بدھ مت کے بھکشو بنے ہوئے ہیں. مارا جا رہا ہے تو جواب نہیں دے رہے ہیں. اور جب تیار ہو جاؤ یعنی تعداد بھی کافی ہو‘ ٹریننگ بھی صحیح ہو چکی ہو‘ ڈسپلن کے بھی پابند ہو جائیں اور ہر شے قربان کرنے کو تیار ہوں تو اب اپنے آپ کو سلطنتِ جم کے ساتھ ٹکرا دو. اس ٹکراؤ کے بغیر انقلاب نہیں آتا. وعظ سے انقلاب نہیں آیا کرتا. ٹکراؤ میں جانیں جائیں گی‘ خون دینا پڑے گا. ٹھنڈے ٹھنڈے انقلاب نہیں آتا. یہ چھ مراحل جو میں نے گنوائے ‘یہ کسی ملک کے اندر انقلاب کی تکمیل کے مراحل ہیں. 

(۷) تصدیر انقلاب

مذکورہ بالا چھ مراحل کے علاوہ انقلاب کا ایک ساتواں مرحلہ بھی ہے اور یہ ایک حقیقی انقلاب کا litmus test ہے. ایک حقیقی انقلاب کبھی بھی اپنی جغرافیائی یا قومی و ملکی اور حکومتی سرحدوں کے اندر محدود نہیں رہتا. کیونکہ اگر انقلابی نظریہ زوردار ‘ قوی ‘مضبوط‘ مدلل اور مبرہن ہے تو یہ لوگوں کے قلوب و اذہان کو اپنی گرفت میں لے گا. چنانچہ حقیقی انقلاب لازماً برآمد (export) ہوتا ہے‘ وہ اپنی حدود میں نہیں رہ سکتا. 

یہ ہے انقلابی عمل کا وہ خاکہ جسے میں نے سیرتِ نبویؐ سے اخذ کیا ہے‘ لیکن دینی اصطلاحات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے عمومی انداز میں آپ کے سامنے پیش کیا ہے. اب ہم اس خاکے میں سیرتِ نبویؐ اور انقلابِ نبویؐ کا رنگ بھرتے ہیں.