رسولِ انقلاب ﷺ ‘کا انقلابی نظریہ اور اس کے تقاضے

محمد رسول اللہ کا انقلابی نظریہ کیا ہے؟ ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ ہے ’’توحید‘‘ جس کے بارے میں اقبال کہتا ہے ؎ 

زندہ قوت تھی زمانے میں یہ توحید کبھی
اور اب کیا ہے ‘ فقط اک مسئلہ علمِ کلام! 

جو کبھی انقلابی نظریہ تھا وہ آج ایک مذہبی بحث و نزاع کا موضوع بن کر رہ گیا ہے. اب اس نظریہ کے جو انقلابی نتائج و مضمرات ہیں ذرا ان پر ایک نظر ڈال لیں. 

۱) انسانی حاکمیت کی بجائے خلافت

میں نے عرض کیا تھا کہ انقلابی نظریہ کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ وہ موجود الوقت نظام کی جڑوں پر تیشہ بن کر گرے . نظریۂ توحید کے متضمنات میں سب سے پہلی بات اللہ کی حاکمیت ہے. اللہ کی زمین پر نہ کوئی انسان حاکم ہے اور نہ کوئی قوم حاکم ہے. اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ 

؎ سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آزری!

نظریۂ توحید انسانی حاکمیت کی ہر شکل میں نفی کرتا ہے. انسانی حاکمیت نہ تو فردِ واحد کی بادشاہت کی شکل میں قابلِ قبول ہے نہ کسی قوم کی دوسری قوم پرحاکمیت کی شکل میں‘ جیسے انگریز ہم پر حکمران ہو گیا تھا. اور نہ ہی عوام کی حاکمیت جائز ہے. حاکمیت (Sovereignty) کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور انسان کے لیے خلافت ہے. حاکمیت کی دوسری تمام صورتیں شرک ہیں اور دورِ حاضر میں حاکمیت جمہوری (Popular Sovereignty) کا تصور بدترین شرک ہے. شارع (قانون ساز) صرف اللہ تعالیٰ ہے اور رسولؐ اس کے نمائندے ہیں. اب بتایئے اس سے بڑا کوئی انقلابی نعرہ ہو گا؟

۲) ملکیت کی بجائے امانت

توحیدکا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ہر شے کا مالک حقیقی اللہ ہے. یہ انقلابی نعرہ سیاسی نظام کی جڑوں پر تیشے کی طرح گرتا ہے. کوئی شخص کسی شے کا مالک نہیں ہے نہ انفرادی طور پر نہ قومی طور پر.اس طرح سرمایہ داری کی بھی نفی ہو گئی اور کمیونزم کی بھی. مالک صرف وہ ہے : لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ ’’اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘. ہر شے کا مالک وہی ہے اور انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امانت ہے ؎ 

ا یں امانت چند روزہ نزدِ ماست
در حقیقت مالکِ ہر شے خدا ست!

میں اپنے جسم کا بھی مالک نہیں ہوں‘ میرا یہ جسم بھی اللہ کی ملکیت ہے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون. یہ ہاتھ پاؤں‘ یہ آنکھیں‘ یہ دماغ سب کچھ میرے پاس اللہ کی امانت ہے. اُس نے مجھے کوئی گھر دے دیا ہے تو وہ بھی اس کی امانت ہے‘ اولاد دی ہے تو وہ بھی اُسی کی امانت ہے. چنانچہ ملکیت تامّہ اسی کے لیے ہے. ہم مالک و مختار نہیں ہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں. حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا کہ ’’اے شعیبؑ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے؟ اور یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟‘‘ سرمایہ دار کا موقف یہ ہوتا ہے کہ یہ میرا مال ہے‘ میں اسے جیسے چاہوں تصرف میں لاؤں‘ خواہ اس سے سودی کاروبار کروں یا کسی کو سود پر قرضہ دوں. اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو سرمائے کا مالک سمجھتا ہے. اگر آپ اپنے آپ کو امین سمجھیں گے تو آپ کا نقطۂ نظر یکسر مختلف ہو گا . پھر آپ اپنا ہاتھ بھی وہیں استعمال کریں گے جہاں اللہ کی اجازت ہے. آپ اپنے پاؤں سے بھی اسی راستے پر چلنا چاہیں گے جس پر اللہ چاہتا ہے کہ آپ چلیں. آپ کا مال وہیں خرچ ہو گا جہاں اللہ چاہتا ہے کہ آپ خرچ کریں. 

۳) کامل معاشرتی مساوات

سماجی سطح پر توحید کا تقاضا یہ ہے کہ بنیادی طور پر‘ پیدائشی طور پر تمام انسان برابر ہیں‘ کوئی اونچا نہیں‘ کوئی نیچا نہیں. اس ضمن میں ایچ جی ویلز کی گواہی آپ کو بتا چکا ہوں کہ ’’انسانی اخوت ‘مساوات اور حریت کے وعظ تو پہلے بھی بہت کہے گئے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میں پہلی بار ان بنیادوں پر ایک معاشرہ قائم کیاہے محمد ( ) نے‘‘. اسلامی معاشرے میں اگر کوئی اونچ نیچ ہے تو وہ ان کمالات کی بنیاد پر ہے جو آپ نے از خود حاصل کیے ہیں. آپ نے علم حاصل کیا تو آپ اونچے ہو گئے ‘ آپ کی عزت کی جائے گی. آپ نے تقویٰ کی روش اختیار کی ‘ روحانی مقام حاصل کیا‘ اب آپ کی عزت کی جائے گی. اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہو‘‘.پیدائشی طور پرتمام انسان برابر ہیں. شودرہو یا برہمن‘کالا ہو یا گورا‘ مرد ہو یا عورت‘ کوئی فرق نہیں. مرد اور عورت کے درمیان فرق انتظامی اعتبار سے ہے. جیسے کسی محکمے میں ایک انچارج اورایک باہر کھڑے ہوئے قاصد میں بحیثیت انسان بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں‘ لیکن منصب کے اعتبار سے سربراہ شعبہ کا منصب اونچا ہے‘ قاصد کا نیچا ہے. یہ انتظامی معاملہ ہے. 

ہمارے ہاں پٹھانوں میں بالعموم یہ مساوات نظر آتی ہے کہ سب ایک سا لباس پہنتے ہیں. بڑے سے بڑا زمیندار ہو یا اس کا ملازم ہو‘ دونوں کا لباس ایک ہی طرح کا ہو گا‘ اور یہ کہ کھانا بھی دونوں ساتھ بیٹہ کر کھائیں گے. میں نے سنا ہے کہ عربوں کے ہاں بھی یہ مساوات قائم ہے اور لنچ ٹائم پر ایک منسٹر کا بو ّاب (دربان)اور سو ّاق (ڈرائیور) اس کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں. مرد اور عورت میں بھی بحیثیت انسان کوئی فرق نہیں‘ صرف انتظامی اعتبار سے فرق ہے. ازروئے الفاظ قرآنی : 
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآء (النساء:۳۴’’مرد عورتوں پر قو ّام ہیں‘‘. یعنی مرد کو خاندان کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہے. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد افضل ہے اور عورت کمتر ہے. ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے کروڑوں مردوں سے اوپر چلی جائے. کتنے مرد ہوں گے جو حضرت مریم ‘ حضرت آسیہ‘ حضرت خدیجہ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنھن اجمعین) کے مقام کو اس طرح دیکھیں گے جیسے آپ آسمان کو دیکھتے ہیں .تو نظریۂ توحید کے یہ تین نتیجے ہیں جو سیاسی سطح پر ‘ معاشی سطح پر اور سماجی سطح پر نکلتے ہیں حاکمیتِ مطلقہ اللہ کے لیے‘ملکیتِ مطلقہ اللہ کے لیے اور کامل مساوات انسانی. 

رسول اللہ نے اس نظریۂ توحید کی تبلیغ مکہ کی گلیوں میں گھوم پھر کر کی. آپؐ نے لوگوں کو پکارا : 
یَا اَیُّھَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ تُفْلِحُوا ’’اے لوگو! کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘. ابتدائی دعوت میں ابھی آپؐ نے اپنی رسالت کا ذکر شامل نہیں کیا‘ پورے کا پورا زور (emphasis) توحید پر ہی رکھا.اس انقلابی نظریئے کی دعوت و اشاعت میں آپؐ نے اُس وقت کے جو بھی ذرائع میسر تھے‘ انہیں استعمال کیا. آپؐ نے گھر گھر جا کر دعوتِ توحید پیش کی. پھر دو مرتبہ اپنے خاندان والوں (بنوہاشم) کو کھانے پر بلا کر دعوت پیش کی. ایک مرتبہ تو لوگوں نے بات سنی ہی نہیں‘ شور مچا دیا. دوسری مرتبہ بات سن لی لیکن سب کے سب خاموش بیٹھے رہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو. حاضرین میں سے صرف حضرت علی ؓ کھڑے ہوئے جو پہلے ہی ایمان لا چکے تھے.

انہوں نے کہا اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں‘ اگرچہ میں سب سے چھوٹا ہوں ‘ اگرچہ میری آنکھیں بھی دکھتی ہیں‘ لیکن میں آپؐ کا ساتھ دوں گا. اور اس پر سارا مجمع کھل کھلا کر ہنس پڑا کہ یہ چلے ہیں انقلاب لانے کے لیے اور یہ ان کے ساتھی ہیں.پھر آپ ‘کو حکم ہوا: فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴﴾ (الحجر:۹۴’’اے نبیؐ ! جس چیز کا آپ کو حکم ہوا ہے اسے ڈنکے کی چوٹ بیان کیجئے اور مشرکین کی ذرا پروا نہ کیجئے‘‘. چنانچہ آپ نے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر واصباحا کا نعرہ لگایا. پھر عکاظ اور دوسرے میلوں میں جا کر دعوت دی. حج کے اجتماعات میں لوگوں کے سامنے دعوت رکھی. الغرض جو طریقہ بھی ممکن تھا اسے استعمال کیا. اُس وقت نہ تو لاؤ ڈ سپیکر تھا نہ کوئی ٹیلی ویژن تھا. الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی نہیں تھے. نہ کوئی چھاپہ خانہ تھا‘ نہ کتابیں نہ رسالے نہ اخبار! لیکن جو بھی میسر ذرائع اور وسائل تھے انہیں آپؐ نے استعمال کیا.