تربیت کے لیے میں نے چار عنوانات مقرر کیے تھے. اولاً یہ کہ انقلابی فکر مستحضر رہے. رسول اللہ کے انقلابی فکر کا منبع و سرچشمہ قرآن تھا اور اس منہج پر اب جو بھی دعوت اٹھے گی اس کا منبع و سرچشمہ بھی یہی قرآن ہو گا کہ اسے پڑھتے رہو تاکہ تمہارا فکر تازہ رہے. اس کے لیے اجتماعی مذاکرہ بھی کرو. مل کر بیٹھو اور قرآن پڑھو ‘سیکھو اور سکھاؤ. اسی سے تمہارا فکر تروتازہ رہے گا. 

ثانیاً سمع و طاعت جس کا سب سے بڑا امتحان یہی تھا کہ چاہے تمہارے ٹکڑے کر دیئے جائیں تم نے ہاتھ نہیں اٹھانا. دیکھئے ایک شخص کو جب یہ معلوم ہو کہ یہ مجھے مار دیں گے تو وہ 
desperate ہو کر دوچار کو مار کر ہی مرے گا.بلی کو اگر آپ کارنر (Corner) کر لیں اور اسے اندازہ ہو جائے کہ اب میرے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو وہ سیدھی آپ کی آنکھوں پر جھپٹے گی. لیکن یہاں اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی. حضرت خبابؓ بن ار ّت کے سامنے دہکتے ہوئے انگارے بچھائے گئے‘ اور ان سے کہا گیا کہ کُرتا اُتار کر ان پر لیٹ جاؤ. آپؓ لیٹ گئے. پیٹہ کی کھال جلی‘ چربی پگھلی تو اس سے وہ انگارے ٹھنڈے ہوئے. جسے یہ نظر آ رہا ہو کہ یہ مجھے انگاروں پر بھوننے والے ہیں‘ زندہکے کباب بنانے والے ہیں ‘وہ دوچار کو مار کر ہی مرتا ہے ‘ یا کم از کم اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مارنے کی کوئی کوشش کرتا ہے‘ لیکن یہاں اس کی اجازت نہیں تھی. میرے نزدیک سمع و طاعت کا اس سے بڑا کوئی مظہر ممکن ہی نہیں.

ثالثاً اپنی جان‘ مال‘ تن‘ من‘ دھن ‘ اولاد‘ غرض ہر شے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو. ویسے تو دنیاوی انقلابات میں بھی لوگوں نے یہ سب کام کیے ہیں. کمیونسٹ انقلاب نہیں آ سکتا تھا جب تک کہ لوگ جانیں نہ دیتے اور لوگوں نے 
ساری سختیاں نہ جھیلی ہوتیں. لیکن مسلمان کے لیے اپنی جان اللہ کی راہ میں پیش کرنا اتنا آسان ہے کہ دوسروں کو اُس کا اندازہ نہیں ہو سکتا. اس لیے کہ اس کا ایمان آخرت پر ہے اور اُس کے نزدیک اصل زندگی آخرت کی ہے.لہذا وہ اگر اپنا سب کچھ اللہ کی خاطر لگا دے‘ کھپا دے تو اسے گھاٹا کس اعتبار سے ہے؟وہ تو سوچتا ہے کہ مجھے آخرت میں اس کا کئی گنا مل جائے گا‘ سات سو گنا مل جائے گا‘ ہزار گنا مل جائے گا‘ تو اس معاملے میں میرا کوئی نقصان نہیں ہے. آدمی کو آخرت پر جتنا یقین ہو گااتنا ہی آدمی اپنے آپ کو invest کر دے گا.

میں اپنی جمع پونجی بینک میں بچا کر رکھوں تو مجھ سے زیادہ پاگل کون ہو گا؟ یہ مجھے زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ فیصد منافع دے دیں گے‘ لیکن اللہ کا بینک کھلا ہوا ہے جو سات سو گنا دیتا ہے. تو یہاں بچا بچاکر رکھنا یقینا بے وقوفی ہے. جیسے حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا تھا :زمین پر جمع نہ کرو‘ یہاں کیڑا بھی خراب کرتا رہتا ہے‘ چوری بھی ہوتی ہے‘ ڈاکہ بھی پڑتا ہے. آسمان پر جمع کرو‘ جہاں نہ کیڑا خراب کر سکے‘ جہاں چوری نہیں‘ ڈاکہ نہیں‘ اور میں تم سے سچ کہتا ہوں جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل بھی ہو گا‘‘. تم نے مال اگر یہاں جمع کیا تو دل یہیں اٹکا رہے گا. جب فرشتے جان نکالنے کے لیے آئیں گے تو سوائے حسرت و افسوس کے کچھ نہ کر سکو گے. حدیث میں آیا ہے کہ فرشتے ایسے جان نکالیں گے جیسے گرم سلاخ کے اوپر سے کباب کھینچا جاتا ہے. اگر آپ کی جمع پونجی اللہ کے بینک میں جمع ہے تو آپ کا دل بھی وہیں اٹکا ہو گا. فرشتہ آئے گا تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ ہو گی ؎ 

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم 
چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست!

اگر آپ نے کروڑوں روپیہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کر رکھا ہو اور آپ سے کہا جائے کہ ’’نکل جاؤ ملک سے‘‘ تو آپ کو کوئی افسوس ہو گا؟ لیکن اگر ملک سے باہر آپ کا کچھ نہیں‘ نہ کوئی جاننے والا ہے‘ تب کہا جائے نکل جاؤ تو آپ کو یقینا تشویش ہو گی. یہ دراصل عقیدۂ آخرت ہی ہے جو آج دنیا کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جانیں دینے کے لیے اس طرح آمادہ ہیں. انہوں نے فلسطین‘ کشمیر‘ چیچنیا اور افغانستان میں مسلمانوں کا یہ جذبہ دیکھ لیا ہے. یہ سب عقیدۂ آخرت پر یقین کی علامتیں ہیں. 
ایک زمانے میں جب مولانا مودودی ؒ مرحو م کو سزائے موت ہوئی تھی میں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا. میں نے ’’عزم‘‘ کے ٹائٹل پر یہ نظم شائع کی تھی اور پھر جیل میں مولانا کو بھیجی تھی ؎

وہ وقت آیا کہ ہم کو قدرت ہماری سعی و عمل کا پھل دے
بتا رہی ہے یہ ظلمتِ شب کہ صبح نزدیک آ رہی ہے
ابھی ہیں کچھ امتحان باقی ‘ فلاکتوں کے نشان باقی
قدم نہ پیچھے ہٹیں کہ قسمت ابھی ہمیں آزما رہی ہے
سیاہیوں سے حزیں نہ ہونا‘ غموں سے اندوہ گیں نہ ہونا
انہی کے پردے میں زندگی کی نئی سحر جگمگا رہی ہے
رئیسؔ اہلِ نظر سے کہہ دو کہ آزمائش سے جی نہ ہاریں
جسے سمجھتے تھے آزمائش وہی تو بگڑی بنا رہی ہے!

یہ رئیسؔ امروہوی کے اشعار تھے. میں نے رئیس کی اضافت کے ساتھ یہ اشعار ’’رئیسِ اہلِ نظر‘‘ کی خدمت میں پیش کیے.

نبی اکرم کے انقلاب میں روحانی تربیت کو بھی انتہائی اہمیت دی گئی. روحانیت پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے قرآن حکیم کو دلوں میں اتارا گیا‘ اس سے سینوں کو منور کیا گیا‘ اور اس کے ساتھ ساتھ نفس کے تقاضوں کی مخالفت کرائی گئی. نیند بہت عزیز ہے‘اللہ کی راہ میں جاگتے رہنے کی ترغیب دلائی گئی اور تہجد میں قرآن کو اپنے اندر اتارنے کا حکم دیا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۶﴾ (المزمل) 

’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو. ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں. درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے.‘‘

قرآن تو ویسے ہی نور ہے‘ یہ دلوں کی تاریکیاں دور کر کے انہیں منور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ‘ اور رات کا جاگنا نفس کو کچلنے میں بہت مؤثر ہے. تزکیہ نفس کے لیے جس تیسری شے کی ترغیب دی گئی ہے وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے. تو یہ ہے نظام محمد رسول اللہ کی انقلابی تربیت کا. ہمارے ہاں بعد میں جو بھی خانقاہی نظام وجود میں آیا اس میں تربیت اور تزکیہ کے اسلوب اور انداز اپنے ہیں. ان کے مراقبے ‘ ان کے چِلّے اور ذکر کے طریقے اپنے ہیں. میں اس نظام کی بات نہیں کر رہا‘ سلوکِ محمدیؐ کی بات کر رہا ہوں . وہ انقلابی تربیت جورسول اللہ نے صحابہ کرام ؓ کی فرمائی اس کے عناصرِ ترکیبی میں نے بیان کر دیئے ہیں.