اگر کسی حکومت کے خلاف اس طرح کی ایک احتجاجی تحریک چلتی ہے تو ظاہر ہے اسے روکنے کی کوشش کی جائے گی. شروع میں فوج حکومت کا حکم مانے گی اور مظاہرین پر گولیاں چلائے گی. لیکن ایک وقت میں آ کر فوج ہاتھ اٹھا دے گی کہ ہم اپنے ہم وطنوں کا مزید قتل نہیں کر سکتے. یہ کوئی قابض فوج نہیں ہے ‘ قومی فوج ہے‘ اور جو سامنے کھڑے ہیں وہ بھی کہیں اور سے نہیں آئے. ۱۹۱۹ء میں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے اگر سینکڑوں ہزاروں افراد بھون کر رکھ دیئے تھے تو اسےان کا کیا دکھ تھا؟ وہ انگریز تھا اور مرنے والے ہندوستانی تھے‘ چاہے مسلمان ہوں چاہے ہندو یا سکھ ہوں. لیکن اپنی قوم کے لوگوں کو مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا. ایک حد تک تو حکم کی تعمیل کی جاتی ہے‘ پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب اپنے فوجی افسر ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں. جیسے لاہور میں بریگیڈیئر محمد اشرف گوندل‘ اللہ تعالیٰ انہیں اجر و ثواب دے‘ کھڑے ہو گئے کہ اب ہم لوگوں پر مزید گولیاں نہیں چلائیں گے. پھر دو اور بریگیڈیئر کھڑے ہو گئے اور بھٹو صاحب کو پیغام مل گیا. چند دن پہلے انہوں نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے اپنی کرسی کے بازو پکڑ کر اکڑتے ہوئے کہا تھا کہ میری یہ کرسی بہت مضبوط ہے. مجھے آج تک وہ نقشہ یاد ہے. لیکن جب لاہور سے پیغام پہنچ گیا کہ فوج کا اب یہ نقطہ نظر ہے تو وہ کرسی ڈول گئی. پھر انہوں نے پی این اے کو مذاکرات کاپیغام بھجوایا.بہرحال اسلامی انقلاب کے لیے جانیں تو دینی ہوں گی‘ اس کے بغیر یہ کام نہیں ہو گا.
دورِ حاضر میں ہمارے سامنے ایرانیوں کی مثال موجود ہے کہ انہوں نے اپنی جانیں دے کر انقلاب برپا کر دکھایا. اگرچہ ایرانی انقلاب کو میں صحیح اسلامی انقلاب نہیں سمجھتا‘ بلکہ میرے نزدیک تو وہ ایک حقیقی انقلاب بھی نہیں تھا‘ اس لیے کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر نکل نہیں سکا‘ جبکہ ’’تصدیر انقلاب‘‘ ایک حقیقی انقلاب کا لازمی خاصہ ہے .۸۵.۱۹۸۴ء میں مَیں نے مسجد دارالسلام باغ جناح میں اس موضوع پر خطابات کیے تھے کہ کیا ایرانی انقلاب اسلامی انقلاب ہے؟ اور پھر اس کے بعد ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ کے موضوع پر گیارہ تقریریں کی تھیں‘ جن کا خلاصہ آج آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. وہ تقریریں اب ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں .اگر آپ کے دل میں ذرا بھی کوئی جذبہ ابھرا ہے تو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں.