(۱۷مارچ ۱۹۹۵)
خطبہ مسنونہ کے بعد: 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 


شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾ 

صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیُم 
آج میں تمام وقتی امور کو نظر انداز کر کے اور کسی تمہیدی بحث میں وقت صرف کیے بغیر براہِ راست اسی موضوع پر اپنی گفتگو کا آغاز کر رہا ہوں جس کا اعلان کیا گیا ہے. یعنی ’’پاکستان میں شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت اور اس کے لیے کوئی مؤثر اور ٹھوس اساس‘‘. پیش نظر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر مجھے اپنا مافی الضمیر بیان کر نے کی توفیق عطا فرمائے تو میری اس تقریر کا کیسٹ عام کیا جائے‘اسے وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے‘تاکہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیعت میں اس سلسلہ میں کوئی مثبت پیش رفت ہو تو یہ اس کا ایک ذریعہ بن جائے.

اس موضوع پر براہ راست گفتگو سے قبل میں سورۃ الشوریٰ کی آیات ۱۳ تا ۱۵ کے حوالے سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں جو میں نے آغاز میں تلاوت کی ہیں. ان آیات کا براہِ راست تعلق اس موضوع سے ہے اور ان کی روشنی میں ہمیں اس بنیادی کی طرف راہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے کہ اسلام میں فقہی مسالک اور مذاہب کی اہمیت اور ان کی حیثیت کیا ہے اور ان کے بار ے میں صحیح طرز عمل کیا ہونا چاہیے؟ شیعہ سنی مسئلہ پر گفتگو سے قبل اصولی طور پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اسلام میں مختلف فقہی مسالک موجود ہیں. چنانچہ حنیف‘شافعیت‘مالکیت اور حنبلیت کے علاوہ ظاہریت اور لفیت یعنی اہلحدیث اور فقہ جعفری بھی موجود ہیں. تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان چیزوں کی کیا حیثیت ہے‘ان کی کیا اہمیت ہے اور ان کے بارے میں ہمارا طرز عمل اور طرز فکر کیا ہونا چاہئے؟ اس سلسلے میں ان تین آیات کا حوالہ دراصل صرف اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ہمیں اس موضوع سے متعلق ان آیات سے جو ہدایات اور راہنمائی ملتی ہے اسے ہم اخذ کریں. اِس وقت ان آیات کا درس دینا اور ایک ایک لفظ پر گفتگو کرنا مقصود نہیں ہے.