میرے نزدیک سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ اس اعتبار سے قرآن حکیم کا زروۂ سنام ہے کہ دین اور شریعت میں جو فرق ہے وہ یہاں نہایت عمدگی سے واضح ہوتا ہے! شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی… 

’’(اے مسلمانو!) اس (اللہ) نے تمہارے لیے بھی دین میں وہی شے معین کی ہے جس کی وصیت کی تھی اس نے نوحؑ کو اور جو وحی کی ہے ہم نے (اے محمد ) آپ کی جانب اور جس کی وصیت کی تھی ابراہیم ؑ کو اور موسیٰ ؑ کو اورعیسیٰ ؑ کو…‘‘

ان الفاظِ مبارکہ کا براہ راست جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دین ہمیشہ سے‘از ازل تاابد‘ایک ہی راہ ہے. اس آیت میں تو صرف 
’’اُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُل‘‘ یعنی حضرت نوح‘حضرت ابراہیم‘حضرت موسیٰ‘حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام اورحضرت محمد کا تذکرہ ہے‘ورنہ دین تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ہی ہے جاور یہی دین ہمیشہ برقرار رہے گا. اس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ تک کوئی فرق واقع نہیں ہوا. چنانچہ تمام انبیاء و رسل (علیہم الصلوٰۃ والسلام) کا دین ایک ہی تھا.

اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مختلف رسولوں کی شریعتیں جدا تھیں. کم از کم دو شریعتیں یعنی شریعتِ موسویؑ اور شریعتِ محمدی تو بالکل واضح طور پر جدا ہیں. اس لیے کہ باقی شریعتوں کے بارے میں ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں. حجرت نوح علیہ اسلام نے اپنی قوم کو کون سی شریعت اور کیا احکام دیے‘یہ ہمیں معلوم نہیں‘کیونکہ ان کا کوئی صحیفہ یا کوئی کتاب آج موجود نہیں ہے. اگرچہ اب بھارت میں ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’منو سمرتی‘‘ درحقیقت حضرت نوح علیہ السلام کا صحیفہ ہے اور ’’منو‘‘ اصل میں ’’مہانوح‘‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے (ہندی میں ’’مہا‘‘ بڑے کو کہتے ہیں‘جیسے ’’مہاسبھا‘‘ لیکن یہ محض ایک خیال ہے جس کا میں نے حوالہ کے طور پر ذکر کر دیا‘ورنہ قرآن حکیم میں حضرت نوح علیہ السلام کے کسی مصدقہ صحیفہ کا تذکرہ نہیں ہے. اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ہمیں فطرت کی کچھ چیزیں تو علوم ہیں‘جن کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ 
’’عشرۃ مِنَ الفطرۃِ … الحدیث‘‘ یعنی ’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں…‘‘ اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی سنت ہیں. لیکن آیا انہیں شریعت کے کوئی تفصیلی احکام بھی دیے گئے یا نہیں‘اس کا ہمارے پاس نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی ریکارڈ. البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شریعت یقینا دی گئی جسے ہم شریعتِ موسوی ؑ کے نام سے جانتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنے ماننے والوں کو یہی کہہ کر گئے کہ ’’یہی شریعت تم پر بھی لاگو رہے گی.‘‘ (Do not think i have come to destroy law) پس جو شریعتیں آج معلوم ہیں وہ وہی ہیں: شریعتِ موسوی ؑ شریعتِ محمدی … اور ان دونوں میں بعض اعتبارات سے بڑا فرق ہے. روزے کی صورت اور نماز کی ہیئت میں فرق کے علاوہ اور بھی احکام میں واضح فرق ہے.اس اعتبار سے اس بات میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مختلف رسولوں کی شریعتیں مختلف ہیں لیکن دین ایک ہی ہے. اسی لیے میں آیتِ مبارکہ کے اگلے حصے پر زور دینا چاہتا ہوں: 

اَنْ اَقِیمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوافِیہِ 

’’کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ!‘‘
یہاں پر 
’’فِیہ‘‘ (اس میں) کا لفظ بہت اہم ہے. یعنی اختلاف کسی اور معاملے میں تو ہو سکتا ہے‘لیکن دین کے معاملے میں تفریق اور تفرقہ نہ ہو!… اسی چیز کو قرآن مجید نے دو اور مقامات پر مزید واضح ہے. سورۃ الانعام کی آیت ۱۵۹ کے الفاظ ہیں: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ 

’’(اے نبی ) جن لوگوں نے اپنے دین کے حصے بخرے کر لیے اور وہ گروہوں میں منقسم ہو گئے آپؐ کا پھر ان سے کوئی سروکار نہیں‘‘.
اور جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے کہ اہم مضامین قرآن حکیم میں کم از کم دو مقامات پر لازماً آتے ہیں‘چنانچہ ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ یہ مضمون سورۃ الروم (آیات ۳ٍٍٍ۱,۳۲) میں بھی بایں الفاظ آیا ہے:

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾مِنَ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ ﴿۳۲﴾ 
’’ اور (اے مسلمانو!) تم ان مشرکین کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور وہ کروہوں میں تقسیم ہو گئے. اور ہر کروہ جو کچھ (دین کا حصہ) اس کے پاس ہے (اس کو لے کر بیٹھا ہوا ہے اور) اس پر خوش و خرم (اور مطمئن) ہے‘‘. 
گویا ؎

اڑائے کچھ ورق لالے نے‘کچھ نرگس نے‘کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

یہ وہ مضمون ہے جس کے بارے میں میں نے عرض کیا ہے کہ سورۃ الشوریٰ کی آیت ۱۳ اس کا زروۂ سنام ہے‘جس میں فرمایا گیا کہ 
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ یعنی ’’یہ کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو!‘‘. شریعتوں کے اختلاف کے باوصف دین میں تفرقہ نہ ہو.

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ’’دین‘‘ کیا ہے؟ دین کو اگر ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ ’’توحید‘‘ ہے. لیکن اس کا مفہوم کیا ہے؟ یہ کہ حاکمِ مطلق صرف اللہ کو تسلیم کیا جائے‘پوری زندگی اس کے احکام کے تحت آ جائے. یہ دینِ توحید ہے. البتہ اس کی عملی شکل میں ایک چیز کا اضافہ ہو جائے گا اور وہ یہ کہ حاکمِ حقیقی کا نمائندہ چونکہ رسولِ وقت ہوتا ہے لہٰذا دین نام ہے اللہ کی اطاعت اور رسولِ وقت کی اطاعت کا. حضرات ابراہیم ؑ اپنے وقت میں اللہ کے نمائندے تھے‘اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے نمائندے تھے… اور حضرت محمدٌ رسول اللہ کا دورِ رسالت شروع ہونے کے بعد آپؐ اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کے منصب پر فائز ہوئے اور چونکہ آنحضور کی رسالت ابدی اور دائمی ہے لہٰذا اب قیامت تک ’’دین‘‘ کی تعریف یہی ہو گی کہ ’’اللہ کی حاکمیت اور محمدٌ رسول اللہ کی اطاعت‘‘. اور عملی اعتبار سے چونکہ اللہ کی حاکمیت بہت حد تک ایک نظری شے بن جاتی ہے لہٰذا سنت یا اطاعتِ رسول اہم تر ہو جاتی ہے. یہی بات ہے جسے علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے اس شعرمیں واضح کیا ہے کہ ؎

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است

چنانچہ دین نظری اعتبار سے اگرچہ ’’دین اللہ‘‘ ہے‘دینِ توحید ہے‘بالفاظ دیگر حاکمیت اللہ کی ہے‘لیکن عملی اعتبار سے یہ دینِ محمد ہے. اسی طرح یہ اپنے اپنے وقت میں دینِ موسیٰ اور دینِ عیسیٰ ( علیہ ما السلام) تھا.