خاص طور پر جہاں تک کراچی کا تعلق ہے وہاں اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور ہو ہے ایم کیو ایم کے دو دھڑوں (الطاف گروپ اور حقیقی گروپ) کا آپس میں تصادم. شیعہ سنی اختلاف کے علاوہ یہ دوسرا پہلو ہے جس کی آڑ میں تخریب کاری ہو رہی ہے. اگرچہ اس میں کچھ نہ کچھ تصادم فی الواقع بھی ہے‘جس طرح شیعہ سنی چپقلش بھی کچھ نہ کچھ فی الواقع بھی موجود ہے‘اس کی نفی کون کرے گا. بہرحال کوئی شے موجود ہوتی ہے تو اسی کو دشمن آڑ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے‘اگر کوئی شے موجود ہی نہ ہوتو اسے آڑ یا ڈھال کیسے بنایا جا سکتا ہے ؎
کچھ تو ہوتے بھی ہیں الفت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
چنانچہ کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے‘تبھی بات بنتی ہے. اسی طرح حقیقی اور الطاف گروپ کے اختلاف کا معاملہ ہے.
بہرحال اگر کسی درجے میں شیعہ سُنّی مفاہمت کا کچھ معاملہ ہو جائے تو دشمن کی کم از کم ایک کمین گاہ تو ختم ہو جائے گی.
آپ جانتے ہوں گے کہ جب سلطان محمد فاتح کی فوجیں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیے کھڑی تھیں تو ایاصوفیہ کے گرجا میں پادری آپس میں لڑ رہے تھے اور ان کے مابین ان مسائل پر بحث ہو رہی تھی کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آ سکتے ہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ نے جو روٹی کھائی تھی وہ خمیری تھی یا فطیری؟ اور یہ کہ حضرت مریم‘حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے بعد بھی کنواری رہیں یا نہیں؟ یہ تین ’’عظیم الشان‘‘ مسائل تھے جو اندر زیر بحث تھے اور باہر سلطان محمد فاتح کی فوجیں کھڑی تھیں. اور یہی حشر ہمارا ہوا تھا‘جب انگریز ہندوستان میں قدم بقدم آگے بڑھ رہا تھا تو ہمارے ہاں یہ بحثیں چل رہی تھیں کہ اللہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بول سکتا تو ہر شے پر قادر تو نہ ہوا اور اگر بول سکتا ہے تو یہ اس کی شان کے منافی ہے. پھر یہ کہ اللہ خود بھی کوئی دوسرا محمدﷺ پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اُس وقت مسلمانوں کے چوٹی کے علماء ’’امکانِ کذب‘‘ اور ’’امتناعِ نظیر‘‘ کی ان بحثوں میں الجھے ہوئے تھے اور انگریز بڑھتا چلا آ رہا تھا. وہی حال آج ہمارا ہو رہا ہے کہ فرقوں کو لیے بیٹھے رہو‘اپنی انانیت کو لیے بیٹھے رہو لیکن ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹنے دو!