اس مسئلہ کی اہمیت کا بُعدِ اول یا اس کی پہلی جہت یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری نے شیعہ سُنّی اختلاف کو ایک اہم کمین گاہ اور ڈھال (cover) کے طور پر استعمال کیا ہے اور میں صاف صاف عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ معاملہ داخلی نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے باہر ہیں. شاید آج یا کل کے اخبار میں برطانیہ سے یہ خبر تھی کہ وہاں سے کافی عرصے سے عالم اسلام میں مبلغین بھیجے جا رہے ہیں تاکہ شیعہ سنی اختلافات کو ابھارا جا سکے اور یہ میں آپ کو اسی مقام پر امریکہ جانے سے پہلے بتا چکا تھا کہ Samuel P. Huntington جو اس وقت امریکہ کا بہت بڑا سیاسی مبصر اور مشیر ہے‘اس کے ایک بہت بڑے مقالے ’’Clash of Civilizations‘‘ کا اِس وقت دنیا میں بڑا چرچا ہے. اس کے نزدیک اب دنیا میں قوموں اور ملکوں کا ٹکرائو نہیں ہوگا بلکہ تہذیبوں کا ٹکراؤ ہو گا.

اس نے لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں آٹھ تہذیبیں موجود ہیں‘ایک ہماری مغربی تہذیب اور سات دوسری. لیکن ان سات میں سے پانچ کو تو ہم آسانی سے اپنے اندر سمو سکتے ہیں اور انہیں ہضم کر سکتے ہیں‘لیکن دو تہذیبیں ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوں گی جنہیں چبانا آسان نہیں. ایک مسلم تہذیب اور دوسری کنفیوشین تہذیب جس کی نمائندگی اس وقت چین کر رہا ہے. لہٰذا اس نے دو مشورے دیے ہیں… ایک یہ کہ چین اور اسلامی ملکوں کو قریب نہ آنے دیا جائے. یہی وجہ ہے کہ ایشیا پیسیفک (بحرالکاہل) کانفرنس منعقد کی گئی تا کہ چین کو eastward looking کر دیا جائے کہ وہ صرف اپنے مشرق کی طرف دیکھے اور مغرب کی طرف رخ ہی نہ کرے جہاں عالم اسلام ہے. اور دوسرا مشورہ اس نے یہ دیا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ہوا دی جائے. ایک اعتبار سے یہ ان لوگوں کی جرات اور دیانت کا مظہر بھی ہے کہ بات صاف اور کھل کر کر رہے ہیں‘اپنے تاش کے سارے پتے سامنے رکھ دیے ہیں کہ تمہارے اندر اگر ہمت ہے تو راستے روک لو! چنانچہ یہ اس کا مقالہ ہے جو چھپا ہوا ہے. اور اب سوچئے کہ ان خطوط پر کیا کچھ ہو رہا ہو گا. اس حوالے سے ہمارے ہاں دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعہ شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینے کا معاملہ اس مسئلے کا بہت بڑا پہلو ہے. اور میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کی نوعیت محض اندرونی نہیں ہے‘بلکہ اس کے بیرونی ڈانڈے ہیں جو بہت اہم ہیں.

خاص طور پر جہاں تک کراچی کا تعلق ہے وہاں اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور ہو ہے ایم کیو ایم کے دو دھڑوں (الطاف گروپ اور حقیقی گروپ) کا آپس میں تصادم. شیعہ سنی اختلاف کے علاوہ یہ دوسرا پہلو ہے جس کی آڑ میں تخریب کاری ہو رہی ہے. اگرچہ اس میں کچھ نہ کچھ تصادم فی الواقع بھی ہے‘جس طرح شیعہ سنی چپقلش بھی کچھ نہ کچھ فی الواقع بھی موجود ہے‘اس کی نفی کون کرے گا. بہرحال کوئی شے موجود ہوتی ہے تو اسی کو دشمن آڑ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے‘اگر کوئی شے موجود ہی نہ ہوتو اسے آڑ یا ڈھال کیسے بنایا جا سکتا ہے ؎

کچھ تو ہوتے بھی ہیں الفت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

چنانچہ کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے‘تبھی بات بنتی ہے. اسی طرح حقیقی اور الطاف گروپ کے اختلاف کا معاملہ ہے.
بہرحال اگر کسی درجے میں شیعہ سُنّی مفاہمت کا کچھ معاملہ ہو جائے تو دشمن کی کم از کم ایک کمین گاہ تو ختم ہو جائے گی.
آپ جانتے ہوں گے کہ جب سلطان محمد فاتح کی فوجیں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیے کھڑی تھیں تو ایاصوفیہ کے گرجا میں پادری آپس میں لڑ رہے تھے اور ان کے مابین ان مسائل پر بحث ہو رہی تھی کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آ سکتے ہیں اور حضرت عیسیٰ ؑ نے جو روٹی کھائی تھی وہ خمیری تھی یا فطیری؟ اور یہ کہ حضرت مریم‘حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے بعد بھی کنواری رہیں یا نہیں؟ یہ تین ’’عظیم الشان‘‘ مسائل تھے جو اندر زیر بحث تھے اور باہر سلطان محمد فاتح کی فوجیں کھڑی تھیں. اور یہی حشر ہمارا ہوا تھا‘جب انگریز ہندوستان 
میں قدم بقدم آگے بڑھ رہا تھا تو ہمارے ہاں یہ بحثیں چل رہی تھیں کہ اللہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اگر نہیں بول سکتا تو ہر شے پر قادر تو نہ ہوا اور اگر بول سکتا ہے تو یہ اس کی شان کے منافی ہے. پھر یہ کہ اللہ خود بھی کوئی دوسرا محمد پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اُس وقت مسلمانوں کے چوٹی کے علماء ’’امکانِ کذب‘‘ اور ’’امتناعِ نظیر‘‘ کی ان بحثوں میں الجھے ہوئے تھے اور انگریز بڑھتا چلا آ رہا تھا. وہی حال آج ہمارا ہو رہا ہے کہ فرقوں کو لیے بیٹھے رہو‘اپنی انانیت کو لیے بیٹھے رہو لیکن ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹنے دو!