عقائد‘عبادات‘مساجد‘فیملی لازاوروراثت کے قوانین وغیرہ کا تعلق ہے تو ان میں ہر ایک کو مکمل آزادی ہو کہ وہ اپنی فقہ کے مطابق عمل کرے. لیکن ملکی قوانین (Law of the Land) کے معاملے میں صرف اس فقہ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا جائے جس کے ماننے والے اکثریت میں ہیں. عبادات میں‘میں زکوٰۃ کو بھی شامل کر رہا ہوں. زکوٰۃ (معاذ اللہ) صرف کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت ہے . میں نے ۱۸/اگست۱۹۸۰ء کو علماء کنونشن سے قبل ضیاء الھق صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض کیا تھا کہ خدا کے لیے آپ اپنا زکوٰۃ آرڈیننس واپس لے لیں. مسلمان زکوٰۃ پہلے بھی ادا کر رہے تھے‘پہلے مسلمان براہ راست دینی مدارس زکوٰۃ دیتے تھے . اب آپ نے ان سے وصول کر کے ان مدارس کو دینا شروع کر دیا. اس سے فائدہ کیا ہوا؟ البتہ نقصان یہ ہوا ہے کہ آپ نے شیعہ سنی کی تفریق کر دی. میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ عبادات کا معاملہ ہے لہٰذا خد کے لیے اسے چھوڑ دیجیے. نماز کے معاملے میں آپ کسی سے یہ پابندی نہیں کروا سکتے کہ وہ ہاتھ باندھ کر پڑھے یا کھول کر‘اور اگر باندھے تو ناف پر باندھے سینے پر‘یا یہ کہ وہ رفع یدین کرے یا نہ کرے. اسی طرح روزہ پانچ منٹ پہلے افطار کیا جائے یا بعد میں. عبادات کا معاملہ ہر ایک پر چھوڑ دیجیے کہ وہ جس طرح چاہے کرے‘یہ ایک طرح کا انفرادی معاملہ ہے.

لیکن جہاں تک ملکی قانون (Law of the Land) کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ایک ملک میں دو نہیں ہو سکتے‘حدود و تعزیرات سب کے لیے الگ الگ نہیں ہو سکتیں. اس کے لیے ہمیں ایران سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے. وہاں یہ کہا گیا ہے کہ ایران کے دستور میں طے کر دیا گیا کہ ان معاملات میں اکثریت کی فقہ یعنی فقہ جعفری کے مطابق معاملہ ہوگا. اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی حل ہے بھی نہیں. یا تو یہ کہہ دیجیے کہ ہمیں اسلام کی طرف جانا ہی نہیں‘دین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دو‘ہمیں اپنی فقہ زیادہ پسند ہے… لیکن اگر دین کو اولیت حاصل ہے اور آپ ’’لَا تَتَفَرَّقُوافِیہِ‘‘ کے قرآنی حکم پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں کہ دین ایک ہو تو پھر اپنی فقہوں اور اپنے مذاہب و مسالک کو ثانوی درجہ دیجیے. یہی کچھ انہوں نے کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا یہی حل ہے. چنانچہ پاکستان کے دستور میں یا تو یہ طے ہو جائے کہ یہاں فقہ حنفی کو مالکی قانون کی حیثیت حاصل ہو گی کیونکہ یہاں غالب اکثریت احناف کی ہے‘تاہم اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو فقہ حنفی آج سے کئی سو سال پہلے مرتب کی گئی تھی وہ جوں کی توں نافذ کر دی جائے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب جو اجتہاد ہو گا اور جو قانون سازی ہو گی وہ فقہ حنفی کے اصول فقہ کے مطابق ہو گی.

یعنی استنباط اور استدلال کے اصول وہی ہوں گے جو فقہ حنفی کے ہیں. اس موضوع پر بھی میں ’’مستقبل کی اسلامی ریاست‘‘ اور ’’نظامِ خلافت کا سیاسی و دستور ڈھانچہ‘‘ کے عنوان سے مفصل خطبات دے چکا ہوں جن کے آڈیو اور ویڈیوکیسٹ موجود ہیں. تو یہ نہ سمجھا جائے کہ فقہ حنفی جوں کی توں نفاذ ہو جائے گی بلکہ آپ کی ایک نئی مقننہ (Legislative) ہو گی جسے ہر میدان میں اجتہاد کرنا ہو گا. طے یہ کرنا ہو گاکہ قانون سازی میں کتاب و نست کی حدود سے تجاوز نہیں ہو گا. اگر تجاوز ہوتا ہے تو ہر عالمِ دین کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور وہاں جا کر یہ ثابت کرے کہ یہ قانون کتاب و سنت کے خلاف ہے… یا پھر ایسا ہو کہ یہاں پر کتاب و نست کی سنی تعبیرات کو دستور میں ثبت کیا جائے اور فقہ حعفریہ کو عبادات میں بشمول زکوٰۃ مکمل آزادی دے دی جائے. اگر وہ خودمان جائیں کہ ہم زکوٰۃ کا کوئی ایسا اجتماعی نظام بناتے ہیں کہ حکومت ہی وصول کرے تو کیا کہنے ہیں‘چشمِ ماروشن دلِ ماشاد! لیکن اگر وہ اس پر مصر رہیں کہ زکوٰۃ کا معاملہ ان کا پرسنل رہے گا تو بھی ٹھیک ہے‘اس لیے کہ زکوٰۃ میں عبادت کا عنصر زیادہ غالب ہے اور پرسنل لاء میں عبادات لازمی طور پر آتی ہیں. نماز روزہ‘حج اور زکوٰۃ‘ان سب میں انہیں مکمل آزادی ہونی چاہیے. پھر نکاح طلاق اور وراثت کے قوانین کے علاوہ پرسنل لاء میں جتنی چیزیں بھی آتی ہیں ان میں انہیں مکمل آزادی ہو.