علماء کنونشن میں شرکت کی دعوت اور زکوٰۃ آرڈیننس

مرحوم ضیاء الحق صاحب نے ۲۰ /اگست ۱۹۸۰ء کو پہلا علماء کنونشن منعقد کیا تھا‘جس میں شرکت کا مجھے دعوت نامہ موصول ہوا‘لیکن چونکہ اسی تاریخ کو مجھے کراچی سے نیویارک روانہ ہو جانا تھا‘لہٰذا میں نے اس میں شرکت سے اپنی معذوری ظاہر کی. چند روز بعد ضیاء الحق صاحب کا فون آیا کہ اس سے دو روز قبل ۱۸/ اگست کو میں ایک اور میٹنگ بلا رہا ہوں جس میں ہم یہ طے کریں گے کہ اس علماء کنونشن کو کیسے conduct کیا جائے‘آپ اس میں تو آ جائیں. چنانچہ میں اس میٹنگ میں شریک ہوا. اُسوقت تک وہ اسلام آباد والا واقعہ پیش آ چکا تھا کہ اہلِ تشیع نے سول سیکرٹریٹ کاگھیرائو کر کے اپنے لیے زکوٰۃ کی کٹوتی سے استثناء حاصل کر لیا تھا. اخباری اطلاعات کے مطابق اہل تشیع نے اسلام آباد میں قریباً ۵۰ ہزار کی تعداد میں جمع ہو کر سول سیکرٹریٹ کا گھیرائو کیا تھا. ان کا موقف یہ تھا کہ ہم اپنی زکوٰۃ حکومت کو دینے کو تیار نہیں. اُس وقت حکومت کے سامنے دو ہی راستے تھے. ایک راستہ تشدد کا تھا‘یعنی لاٹھی چارج‘آنسو گیس اور گولی جیسے ذرائع استعمال کیے جاتے. لیکن ضیاء الحق صاحب نے اس وقت تحمل کا مظاہرہ کیا جو بلاشبہ بڑی بات تھی‘انہیں سخت کڑوی گولی نگلنی پڑی تھی. اُس وقت وہ‘بقول خود ان کے ’’مقتدرِ مطلق‘‘ (معاذ اللہ) چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اور ان کا مارشل لاء بھی ابھی جو ان تھا‘لیکن انہوں نے اس گھیرائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور اہل تشیع کا مطالبہ منظور کر لیا تھا. ۱۸/ اگست ۱۹۸۰ء کی میٹنگ میں مَیں نے ان سے عرض کیا تھا کہ خدا کے لیے اپنا پورا آرڈیننس واپس لے لیجیے لیکن اس بنیاد پر شیعہ سنی کے درمیان تفریق نہ کیجیے. میں نے ان سے یہ الفاظ بھی کہے تھے (حالانکہ اس وقت کئی شیعہ حضرات موجود تھے) کہ اگر آپ یہ تفریق کریں گے تو گویا کہ بہت سے سنیوں کو شیعہ بننے کی ترغیب دیں گے. اور بعد میں ہمارے ہاں واقعتا یہ ہوا ہے کہ پورے کے پورے گائوں والوں نے اپنے ہاں سیاہ علم بلند کر دیے تاکہ عُشر جمع کرنے والے ادھر کا رخ ہی نہ کریں. کتنے ہی لوگوں نے بینکوں کو لکھ کر دے دیا کہ وہ شیعہ ہیں تاکہ ان کی زکوٰۃ نہ کاٹی جائے. چنانچہ میں نے ان سے عرض کیا کہ زکوٰۃ مسلمانوں کی عبادت ہے‘اسے انہیں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اسے خود ہی ادا کریں. اس بنیاد پر آپ شیعہ سنی کی تفریق نہ کریں. لیکن بہرحال وہ ماننے والے تو تھے نہیں. ان کی جو اپنی مصلحتیں اور اپنی ترجیحات تھیں میں ان کا ذکر نہیں چھیڑنا چاہتا. تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ‘لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ’’وہ اللہ کے حضور حاضر ہو گئے‘اللہ انہیں معاف فرمائے.‘‘