بہرحال قابل غور یہ مسئلہ ہے کہ اِس وقت ہم دنیا کے سامنے ایک آئیڈیل اسلامی ریاست کا جو نقشہ پیش کرنا چاہتے ہیں اس میں سوشل سیکیورٹی اور ہر شہری کی بنیادی کفالت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. اور اسلامی ریاست میں ویلفیئر کا جو نظام ہو گا اس کا سب سے بڑا ذریعہ زکوٰۃ ہی ہے. اور زکوٰۃ ایک طریف یقینا عبادت‘ارکانِ اسلام میں شامل ہے تو دوسری طرف یہ اسلام کے معاشی نظام کا ایک اہم ستون ہے. اس اعتبار سے یہ ریاستی سطح ہی کی چیز ہے. لیکن میں یہ عرض کروں گا کہ اِس وقت فی الفور ایک آئیڈیل اسلامی ریاست موجود نہیں ہے اور ہم اس کی طرف ایک تدریجی ارتقاء کا مرحلہ طے کر رہے ہیں. اگر ہم انہی چیزوں کو لے کر بیٹھ گئے تو وہ مرحلہ آئے گا ہی نہیں. ظاہر ہے کہ اس میں تو کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا کہ زکوٰۃ صرف ٹیکس نہیں ہے (معاذ اللہ). اگر یہ صرف ایک مالیاتی معاملہ ہوتا‘صرف ایک ٹیکس ہوتا تو اس کی شرح گھٹائی بڑھائی جا سکتی تھی‘جیسا کہ منکرینِ حدیث اور منکرینِ سنت کا موقف ہے. لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ عبادت ہے‘لہٰذا جیسے نماز کا نظام محمدٌ رسول اللہ نے معین کر دیا اور وہ ابدی ہے‘جس میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی اسی طرح زکوٰۃ کا نصاب اور اس کی شرح بھی جو محمد رسول اللہ نے معین فرما دی اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی. تو میرے نزدیک اس میں عبادت کا پہلو یقینا غالب ہے لہٰذا اِس وقت ہمیں اس کے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے کو قبول کرنا چاہیے کہ سنیوں کے اپنے سوشل سیکیورٹی کے ادارے ہوں جہاں ان کی زکوٰۃ جمع ہو اور سنی ہی وہاں سے استفادہ کریں. اہل تشیع کا زکوٰۃ کا نظام علیحدہ رہے. وہ اپنی زکوٰۃ کہیں اور بھیجنا چاہتے ہوں تو پھر اپنے ہاں کی سوشل سیکیورٹی اور ویلفیئر کے لیے کوئی اور ٹیکس اضافی طور پر دینا قبول کریں اور اپنا نظام بنائیں. لیکن بہرحال ہمیں اس طرح کی چیزوں پر غور کرنا پڑے گا‘اس لیے کہ یہ بات اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ اگر سنی شیعہ مفاہمت نہیں ہوتی تو اس ملک میں نفاذ اسلام کا مرحلہ نہیں آئے گا. شیعہ یہاں پر کوئی ایسی اقلیت نہیں ہے جسے آپ نظر انداز کر سکیں. ان کی اپنی ایک حیثیت ہے.