ارادہ اور عزم ہو تو کون سا ایسا مئلہ ہے جو حل نہیں ہو سکتا. (Where there is a will there is a way) لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دین کو قائم کرنے کی اہمیت سسامنے ہو‘یہ تینوں dimensions سامنے ہوں‘یہ احساس اجاگر ہو کہ جب تک یہ مفاہمت نہیں ہو گی ہم تینوں اعتبارات سے مفلوج کھڑے رہیں گے. ہم نے شیعہ سنی اختلاف کے باعث ایک طرف دہشت گری اور تخریب کاری کو کمین گاہ فراہم کر دی ہے‘دوسری طرف پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے اور تیسری طرف ان تمام مسلم ممالک میں اتحاد کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں جن کے بارے میں مَیں نے کہا کہ یہ جیو ورلڈ آرڈر کو روکنے کے لیے عالم اسلام میں آخری چٹان ہیں. بہرحال عرض کر رہا ہوں کہ ؎

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی 
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

اگر ہم اس مسئلہ پر سنیجدہ نہیں ہوتے اور یہاں شیعہ سنی مفاہمت نہیں ہوتی تو‘خاکم بدہن‘ملک ٹوٹ جائے گا‘پھر یہ سُنّی کا رہے گا نہ شیعہ کا. اس ملک سے کس کس کی امیدیں وابستہ تھیں. یہ پاکستان اسلامیانِ ہند کی پوری نصف صدی کی جدوجہد کا حاصل تھا. یہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا تھا. یہ ترانہ تو یہاں لہک لہک کر گایا جاتا ہے کہ ؎

’’آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھو جان کی‘‘

کیا ہم وہ قربانیاں بھول گئے ہیں؟ اب تو اس نسل کے‘میری عمر کے لوگبھی یوں سمجھئے کہ چراغِ سحری ہیں جو آگ او خون کے دریا بالفعل عبور کر کے اس سرزمین تک پہنچے تھے. ہم نے حصار سے چل کر سلیمانکی ہیڈور کس تک ۱۷۰ میل کا فاسلہ ۲۰ دن میں طے کیا تھا. مزید چند برس تک اب کون باقی رہ جائے گا جو قیام پاکستان کے حالات و واقعات کا چشم دید گواہ ہو. ع ’’بہت آگے گئے‘باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں!‘‘ پاکستان کی خاطر ہزار ہا مسلمان عورتوں کی عصمتیں لٹی ہیں‘جبکہ ہزار ہا عورتیں ہندوئوں اور سکھوں کے ہاں ہی رہ گئی ہیں. قیام پاکستان کے چند سال بعد ان کی بازیابی کی مہم چلی تھی لیکن ان میں سے بہت سوں نے یہ کہہ کر یہاں آنے سے انکار کر دیا کہ تم لوگ اب ہمیں لینے آئے ہو جب یہاں ہمارے دو دو تین تین بچے ہو چکے ہیں‘اب تمہارے معاشرے میں ہمیں کون قبول کرے گا؟ اس قیمت پر یہ پاکستان بنا تھا.

اب بھی اگر ہم نے نظریہ پاکستان کی طرف کوئی مثبت پیش رفت نہ کی تو پاکستان یا ٹوٹ جائے گا یا اگر رہے گا بھی تو کسی کا طفیلی بن کر. مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک صاحب نے یہ بیان دیا تھا کہ ہم پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی دوبارہ نہیں بننے دیں گے تو اس کے جواب میں کسی صاحب نے‘جن کا نام میں بھول رہا ہوں‘بڑا پیارا مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں سے گئی ہی کب تھی جو آپ کہہ رہے ہیں کہ اسے دوبارہ نہیں آنے دیں گے. وہ تو جوں کی توں قائم ہے‘صرف یہ فرق واقع ہوا ہے کہ اب وائسرائے کی جگہ ایمبیسیڈر نے لے لی ہے. اندازہ کیجیے‘کراچی میں جو دوسفارت کار مارے گئے ان میں سے ایک کی رجسٹریشن بھی حکومت پاکستان کے پاس نہیں تھی. غالباً وہ انٹیلی جنس سے متعلق کوئی شخصیت تھی جو کسی 
cover میں تھی اور اس پر طرہ یہ کہ ان پر قانون بھی پاکستان کا نہیں امریکہ کا لاگو ہو گا. بہرحال اس صورت حال میں اگر یہ ملک باقی رہا تو اس کا ٹھکانا یا تو امریکہ کی جھولی ہے یا پھر بھارت کی. ایک کی جھولی میں گرنے کا سلسلہ تو شروع ہو چکا ہے‘لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا‘کبھی بھی حالات بدل سکتے ہیں. لیکن اس کے بعد تیسری بات یہ ہے‘جو اہل تشیع کو خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے‘کہ اگر پاکستان کی سالمیت کو کوئی گزند پہنچی تو پھر ایران کی بھی خیر نہیں‘کیونکہ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ امریکہ کے ٹارگٹ پر ایران بھی ہے اور اب تو شاید ہم سے کچھ درجے زیادہ ہی ہے. کل آپ نے خبر پڑھ لی ہو گی کہ کس طرح یہ بات کہنی شروع کر دی گئی ہے کہ ایران پانچ سال کے اندر اندر ایٹم بم بنالے گا. یہ خبریں اسی طرح رفتہ رفتہ ریلیز کی جاتی ہیں تاکہ اس کے خلاف ذہنی فضا ہموار ہونی شروع ہو جائے. جیسے کبھی اسرائیلی طیارے سعودی عرب میں سے گزر کر عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر بمباری کر گئے تھے ایسا ہی کوئی اقدام کبھی وہاں بھی ہو سکتا ہے. انگریزی کی کہاوت ہے: "United you stand, divided you fall" چنانچہ اگر کوئی شیعہ سنی اتحاد اور مفاہمت ہو جائے تبھی ان تینوں جہتوں (dimensions) میں بات بہتری کی طرف جا سکتی ہے.