اسلام میں مختلف مسالک کی حیثیت اور مفاہمت کا راستہ

خطاب: آیت اللہ محمد و اعظ زادہ خراسانی


حمد و ثنا اور درود کے بعد فرمایا:
ٍ اپنی تقریر سے پہلے میں لازم سمجھتا ہوں کہ اس ادارہ کے منتظمین اور جناب مولانا اسرار احمد صاحب کا شکریہ ادا کروں کہ جنہوں نے ہمیں اس بات کی اجازت دی اور ہمارے لیے اس امر کا اہتمام کیا کہ اس عظیم الشان ادارہ اور خاص طور سے قرآن اکیڈمی کا دورہ کریں اور چند باتیں آپ اساتذہ و تلامذہ کی خدمت میں عرض کریں.

برادران محترم! امت اسلام امت واحدہ‘ 
وَاِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً البتہ عہدِ رسالت کے بعد اختلافات پیدا ہو گئے اور مختلف فرقے وجود میں آ گئے‘جن میں مختلف مسالک کلامی اور مسالک فقہی شامل ہیں اور آج کے دور اکثر و بیشتر مسلمان انہیں چند فقہی مسالک کی پیروی کر رہے ہیں. ان مسالک میں حضرت امام ابوحنیفہ‘امام ابو حنیفہ‘امام شافعی‘امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضوان اللہ علیہم کے فقہی مسالک شامل ہیں‘وہاں ایک اور فرقہ مسلک شیعہ پر ہے جو اہل بیت کے پیروکار ہیں. اور اج کے دور میں اکثر و بیشتر دو مسلک اس فرقہ میں بھی پائے جاتے ہیں. ایک مسلک شیعہ جعفریہ امامیہ اور دوسرا مسلک زیدیہ.

ہم نے ایران میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای رہبر معظم جمہوری اسلامی ایران کے حکم کے مطابق ایک بین الاقوامی فورم تشکیل دیا ہے جس کا مقصد مختلف اسلامی مسالک کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور اس کا نام ’’مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی‘‘ ہے. ہماری دعوت اس بنیاد پر ہے اور ہمارا کہنا یہ ہے کہ زمانہ صدر اسلام میں جو بھی سیاسی اختلافات موجود تھے انہیں تو مکمل طور پر ہمیں بھول جانا چاہیے. البتہ مذہب اور مسلک کے اختلافات برہان و استدلال کے دائرہ میں قابل قبول ہیں اور قابل بحث بھی. 
مختلف مذاہب و و مسالک کے پیروکار اپنے اپنے امام اور رہبر رکھتے ہیں‘ان کا اپنا اپنا مسلک ہے اور ان کی اپنی اپنی فقہ ہے. ہر فرقہ اپنی فقہ پر عمل کرتا ہے اور وہ اپنے امام کی تقلید و پیروی میں ہے. لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک اسلامی امت واحدہ کے طور پر انہیں اکثر اً انہی مسائل کا سامنا ہے جو حضرت نبی اکرم کے دور میں بھی موجود تھے‘خواہ ان مسائل کا تعلق عقیدہ سے ہو یا شریعت و سیاست سے. چاہئے یہ کہ ان جملہ امور پر ہم متفق ہوں.

ہمیں اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے‘کیوں کہ ان جملہ مسالک نے پیغمبر اسلامی ‘قرآن‘قبلہ‘نماز‘روزہ‘حج‘امربالمعروف اور نہی عن المنکر سب کو قبول کیا. سبھی ان اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں. مسلمان ہونے کا معیار و میزان ان جملہ امور کو قبول کرنا اور ان اصولوں پر ایمان لانا ہے‘اور سبھی کے نزدیک یہ امور اصول قابل قبول ہیں. مسالک اور فرقے بعد میں پیدا ہوئے. مسالک تو راستے ہیں اسلام تک پہنچنے کے لیے. ہاں یہ راستے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اسلام تو ایک ہی ہے اور یہ راستے اور مسالک بھی تو اصلی و اصولی مسائل میں ایک ہی امت واحدۂ اسلامی کو تشکیل دیتے ہیں. ان کا اصل و اصول پر کوئی اختلاف نہیں ہے. اختلاف تو بعض مسائل میں ذیلی اور فرعی نوعیت کا ہے جو کہ مجتہدین کے اجتہاد کی بنا پر وجود میں آیا ہے. اس نوع کے اختلافات اہل سنت میں بھی ہیں اور اہل تشیع میں بھی موجود ہیں. ہم لوگ مسلک شیعہ امامیہ میں بھی مسائل فرعی میں اختلاف نظر رکھتے ہیں کیونکہ دلال کے اختلاف کے لحاظ سے ہمارے علماء کے فتاویٰ مختلف ہیں. باعث تعجب بات یہ ہے کہ مسلک امامیہ میں (یعنی فقہ جفعریہ میں) کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کی اہل سنت کے کسی نہ کسی مسلک کے ساتھ مطابقت نہ ہو. اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور اس پر بحثیں بھی موجود ہیں.

میری گزارش یہ ہے کہ ہمیں صدر اسلام کے اختلافی و سیاسی مسائل کو بھول جانا چاہیے. ان باتوں کا تعلق ماضی سے اور گزشتہ تاریخ سے ہے اور ہم پر قطعاً لازم نہیں آتا ے کہ ان مسائل کے بارے میں بحثوں میں الجھے رہیں. ہاں البتہ جو اختلافی مسائل ہمارے درمیان میں موجود ہیں ان پر بات چیت کرتے ہوئے ہمیں رواداری کا ثبوت دینا چاہیے اور اس سلسلہ میں درست علمی روش کو مدنظر رکھتا چاہیے. ہمیں کسی بات کو بھی محض فقہی اختلاف کی وجہ سے آپس میں لڑائی جھگڑے یا تنازعہ کا باعث نہیں بنانا چاہیے یا یہاں تک نوبت نہیں لے آنی چاہیے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے پھریں یا ایک دوسرے کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کرتے پھریں. مسلمان ہونے کی شرط ان اصولوں پر اعتقاد ہے جو حضرت نبی اکرم نے بیان فرمائے ہیں اور آنحضرت 
کے زمانے میں جملہ مسلمانوں میں رائج رہے ہیں. خدا کا شکر ہے کہ ہم تمام مسلمان ان اصولوں پر متفق ہیں. ہاں البتہ مسلکی و فرعی مسائل پر اختلاف رائے موجود ہے اور رہے گا کیونکہ اس سلسلہ میں مجتہدین کا اختلاف رائے موجود ہے‘دلال کا اختلاف موجود ہے‘احادیث کا اختلاف موجود ہے‘مختلف مسالک میں اصول استنباط کا اختلاف موجود ہے. ایک مسلک کے مطابق قیاس کو حجت تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن دوسرے مسلک میں قیاس کو حجت تسلیم کیا جاتا ہے. ایک مذہب کے مطابق ایک روایت صحیہح ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے‘دوسرے مذہب میں دوسری روایت صحیح ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے. اس قسم کے اختلافات موجود رہے ہیں اور رہیں گے. یہ اختلاف تو رحمت ہے. ’’اختلافُ امّتی رحمۃٌ‘‘ کے معنی بھی یہی ہیں کیونکہ فرعی و ذیلی مسائل میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور اس طرح اختلاف کا دروازہ بھی. اور مسلمان زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ان مسالک میں سے کسی ایک پیروکار ہو سکتے ہیں.
شیخ الازہر شیخ محمود شلتوت نے آج سے تقریباً تیس برس پہلے فتویٰ دیا کہ یہ مسالک جن میں اصل فقہ موجود ہے اور یہ مدتوں سے رائج ہیں‘یہ سبھی معتبر ہیں اور ایک مسلمان ان میں سے کسی ایک کی پیروی کر سکتا ہے. یہ ایک ایسی بات ہے جو جناب شیخ محمود شلتوت نے اس وقت کہی‘اس کی عملی اساس یہی ہے کہ مشترک اور مسلمہ امور میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے‘البتہ بعض ایسے مسائل میں اختلاف ہے کہ جن کی وجوہ واضح نہیں ہیں. چنانچہ ان میں اختلاف نظر موجود ہے.

بعض مسائل ایسے ہیں کہ مسلمان ان میں اپنے ہی ائمہ کی تقلید کرتے ہیں. ایسے مسائل میں وہ دوسرے مسالک کی تقلید بھی کر سکتے ہیں. انہیں اپنے اس ایک مسلک ہی کا پابند نہیں ہو کر رہ جانا چاہیے. کسی ایک علاقہ میں کوئی ایک مسلک رواج رکھتا ہو اور وہاں علماء و سابقین کا ایک گروہ اس مسلک کی پیروی کرتا رہا ہو اور عہد حاضر میں بھی اس مسلک کی پیروی اس علاقے میں موجود ہو تو اس سے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہونا چاہیے اور یہ مذہبی و مسلکی اختلاف اس امر کا موجب نہیں بننا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان تسلیم کرنا ہی چھوڑ دیں اور اسلام سے خارج سمجھنے لگ جائیں. جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہو کہ وہ ایسے بنیادی اصولوں پر مکمل اعتقاد رکھتے ہوں جو معیار وحدت ملی اور معیار اسلامی کے عین مطابق ہوں.

یہ وہ بنیادی اصول ہیں جن کی ہم ’’مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی‘‘ (مسالک اسلامی کی قربت کے لیے بین الاقوامی فورم) میں پاسداری کرتے ہیں. یہ فورم ایک ایسا مرکز ہے جس کی پانچ سال پہلے بنیاد رکھی گئی. اس کی ایک مجلس مشاورت ہے جس میں اہل سنت و اہل تشیع کے مختلف 
مسالک کے نمائندے شریک ہیں اور سال میں ایک دفعہ ان کا ماہ میلاد النبی میں اجتماع ہوتا ہے‘جس میں مختلف موضوعات پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں. شرکاء مشترکہ و متفقہ مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو عقائد اسلامی کی پابندی کی تاکید و تلقین کرتے ہیں اور اختلافی مسائل پر بحث و اظہار نظر کا دروازہ ایک دوسرے کے لیے کھلا رکھتے ہیں. عموماً ہر سال ایک موضوع اس سلسلہ میں موردبحث قرار پاتا ہے. اس سال ماہ ربیع الاول میں ’’تقریب مذاہب اسلامی سیمینار‘‘ میں ’’کتاب و سنت‘‘ موضوع دیا گیا تھا. سو سے زائد مقالات اندرون و بیرون ملک سے اہل سنت و اہل تشیع کی طرف سے اس موضوع پر موصول ہوئے. سب کا اس امر پر اتفاق نظر تھا کہ قرآن مجید آسمانی کتاب ہے اور اس میں قطعی طور پر کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور جو کوئی یہ کہے کہ قرآن مجید میں تحریف ہوئی ہے اسے فرق اسلامیہ میں شمار نہیں کرنا چاہیے اور اگر اس نے غلطی سے یہ بات کہی ہو تو اسے اس سے دستبردار ہونا چاہیے اور اگر اس نے یہ بات عمداً کہی ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے. قرآن مجید پر یہ خیالات اس فورم سے اتفاق رائے کے ساتھ پیش کیے گئے اور اس سللہ میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا.

سنت نبوی کے سلسلہ میں سب کا اس امر پر اتفاق تھا کہ یہ اسلام کا دوسرا رکن رکین ہے. ہاں البتہ سنت نبوی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ بھی مسلمانوں تک پہنچی کہ اہل سنت زیادہ تراس ذریعے اور واسطے سے سنت نبوی کے مقلد ہیں. اس طرح سنت نبوی حضرات ائمہ اہل بیت کے ذریعہ بخصوص حضرت بن محمد کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے.‘یہ بھی ہمارے لیے حجت اور سند ہے.

اس امر پر سب کا اتفاق رائے تھا کہ سنت نبوی اور اس پر عملدرآمد کے بارے میں وہ تمام قواعد و موازین مدنظر رکھے جائیں جو علم حدیث میں مصطلح ہیں اور بغیر تحقیق کے کسی حدیث یا روایت پر عمل شروع نہیں کر دینا چاہیے. تحقیق کے بعد اور بیان شدہ موازین کے ساتھ اس حدیث کی مطابقت کریں اور پھر اس حدیث کو قبول کریں اور اس کے بغیر قبول نہ کریں. اس امر پر کامل اتفاق رائے تھا کہ بہت سارے موازین جو اس سلسلہ میں معین ہیں‘قبول سنت نبوی کے لیے معتبر ہیں اور سبھی اس بات پر متفق تھے کہ راوی کو صادق ہونا چاہیے‘عادل ہونا چاہیے‘اس کا مسلک درست ہونا چاہیے‘اسے صاحب اعتماد ہونا چاہیے. اگر کوئی جانبداری کا مظاہرہ کریں تو ان کی روایت قابل قبول نہیں ہے مگر یہ کہ ان کی بیان کردہ روایت کا ساتھ قرائن بھی دیتے ہوں اور دوسروں نے بھی وہ روایت بیان کی ہو تو وہ جملہ مسائل تھے جن پر کتاب و سنت کے حوالے سے 
اتفاق رائے موجود تھا. ہاں اس سلسلہ میں اختلافی مسائل بھی ہیں. آیات قرآنی کے سلسلہ میں مختلف تفاسیر موجود ہیں. ایک ہی آیت کی کئی طرح سے تفسیر کی گئی ہے. ان تفاسیر کو جانچنا چاہیے کہ ان میں سے کون سی ظاہر قرآن سے مطابقت رکھتی ہے. ان میں سے کون سی صحیح روایت حضرت رسول اکرمکی جانب سے ہم تک پہنچی ہے‘اسے انتخاب کریں. بہرحال تفسیر قرآن کے ذیل میں اختلاف نظر موجود ہے. قرآن مجید کی قراء توں میں اختلاف موجود ہے. یہ سب نقطہ ہائے نظر محترم ہیں لیکن انسان کو اس نقطہ نظر پر ترجیح نہیں دی جا سکتی ہے. یہ سب مسائل جو بحث و مباحثہ کے ذیل میں آئے اور ان پر اتفاق رائے بھی موجود تھا. اختلافات بھی پیش کیے گئے لیکن نچلے حلقے میں‘جن کی تفصیل مقالات اور تقاریر میں آ چکی ہے. 

برادران گرامی! ہمیں دوبڑے مسائل کا سامنا ہے. ان میں سے ایک حکومت اسلامی کا مسئلہ ہے. ماضی بعید میں حضرت پیغمبر اکرم کے زمانے کے بعد ایسی حکومتیں آئیں کہ جن پر کچھ طبقات کا اتفاق اور کچھ کا اختلاف تھا. لیکن آج‘کیا آج ہم اس بنیادی امر کو کہ اسلام حکومت کا حامل ہے‘نظر انداز کر سکتے ہیں‘امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کہتے تھے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ حکومت اسلامی کی بنیاد رکھیں. آپ خود اٹھے‘ایرانی عوام نے آپ کی پیروی کی‘ان کی حمایت کی اور آخرکار آپ ایک اسلامی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے. اس اسلامی حکومت کی اساس اسلام ہے اور وہ اس امر کی پابند ہے اور اس پر لازم ہے کہ اسلام احکام کو نافذ کرے. 

اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کی اکثریت شیعہ امامیہ میں مشتمل ہے‘اکثر قوانین اسی بنیاد پر تشکیل دیے گئے ہیں. البتہ ایران میں اہل سنت کے درمیان خود ان کے قوانین کا نفاذ کیا جاتا ہے اور ایران کے آئین جمہوری اسلامی میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ اگرچہ ایران کا سرکاری مذہب‘مذہب امامیہ ہو گا مگر حنفی‘شافعی‘مالکی‘حنبلی اور زیدی مذاہب بھی قابل احترام ہوں گے اور ان مذاہب کے پیروکار ایران میں اپنے قانون (پرسنل لاء) پر عمل کریں گے. نکاح اور وراثت وغیرہ کے سلسلہ میں ان کی پیروی خود ان کے اپنے مذہب کی ہو گی. چنانچہ آج وہ اس پر عمل کر رہے ہیں. وہ اپنے مسلک کے مطابق عبادات انجام دیتے ہیں. ان کے مدارس‘ان کی مساجد اب بھی موجود ہیں اور انقلاب کے بعد ان میں ترقی اور وسعت پیدا ہوئی ہے. وہ اپنے مسلک پر عمل کرنے پر آزاد ہیں. عام طور سے ایران میں اہل سنت کے دو مذاہب ہے. ایک مذہب ابو حنیفہ اور دوسرا مذہب امام شافعی. ان دونوں مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے عمل میں پوری طرح آزاد ہیں. اگر 
آپ کو اس کے برعکس کوئی بات بتائی گئی ہے تو وہ جھوٹ ہے‘جھوٹ ہے اور جھوٹ.

اسلام کے دشمن کوئی کم نہیں ہیں. ان کا سراغنہ امریکہ ہے اور اسی طرح بہت ساری وہ حکومتیں جو اسلامی ممالک میں ہیں اور وہ اپنے ہی ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کے مخالف ہیں. اس خیال سے کہ یہ انقلاب کہیں دوسرے ممالک میں اثر نفوذ پیدا نہ کر لے. ایران کے اسلامی انقلاب کی غلط تصویر دکھائی جاتی اور اس پر افتراء باندھا جاتا ہے. یہ تو رہا ایران کا معاملہ‘جہاں تک دوسرے اسلامی ممالک کا تعلق ہے تو ہم اس امر کے خواہش مند ہیں کہ ہر اسلامی ملک میں‘اس ملک میں رائج مذہب و مسلک کے مطابق اسلامی حکومت تشکیل دی جائے. اور اس ملک میں جہان زیادہ تر امام ابو حنیفہ کے مذہب کے پیروکار موجود ہیں‘اسی مسلک کی بنیاد پر‘افریقی ممالک جہاں پر امام مالک کے پیروکار موجود ہیں وہاں پر امام مالک کی فقہ کے مطابق حکومت اسلامی بنائی جائے.

یہ جو امام خمینی ؒ کہتے تھے کہ ایران کا انقلاب برآمد ہونا چاہیے تو ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ جس طرح ایران میں اسلام کی بنیاد پر حکومت اسلامی وجود میں لائی گئی ہے تو اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک میں‘ان میں رائج اسلامی فقہوں کے مطابق اسلامی حکومتیں تشکیل دی جائیں.

آپ کو جاننا چاہیے کہ ہمارے ہاں سیاسی مسائل پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہے. آخر کار ہمارے ہاں شورائی نظام قبول کر لیا گیا. ایران میں صدر مملکت لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان بھی عوام کے ووٹوں سے انتخاب کیے جاتے ہیں. ہر اسلامی ملک میں اسلامی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے جو اس امر کی پابند ہو کہ اسلامی احکام کو اپنے ہاں نافذ کرے. سربراہ مملکت‘صدر ہو یا خلیفہ یا کسی اور نام سے‘اسے عوام کے ووٹوں اور شورائی نظام کے ذریعہ منتخب کیا جائے. لوگوں کے نمائندے بھی اسی طرح پارلیمنٹ میں ووٹ کے ذریعہ منتخب ہوں. ہمارے ہاں دوسروں کے درمیان اس موضوع پر کوئی فرق نہیں ہے.

یہ خلاصہ ہے ان اصول و مبانی کا جن سے ہم اس وقت ایران میں استفادہ کر رہے ہیں. اس سے زیادہ مجھے کچھ عرض نہیں کرنا ہے.