تحریر: ڈاکٹر عبدالخالق‘نائب امیر تنظیم اسلام

ی 

امیر تنظیم اسلامی کا چھ روزہ دورۂ ایران


(۱۶؍ تا ۲۳؍ اکتوبر ۹۶ء)
… از قلم: ڈاکٹر عبدالخالق… 
گزشتہ سال (۱۹۹۵ء) نومبر میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں شرکت کی خاطر آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی 
(رئیس المجمع العالمی للتقریب بین المذاہب الاسلامیہ) جب پاکستان تشریف لائے تو امیر تنظیم اسلامی و صدر مؤسس مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور محترم ڈاکٹر اسرار احمد سے ملاقات کے لیے قرآن اکیڈمی بھی تشریف لائے. امیر محترم نے انہیں دعوت دی کہ وہ قرآن کالج میں طلبہ سے خطاب فرمائیں. اپنے اس خطاب میں انہوں نے جو باتیں فرمائیں وہ کافی حد امیر محترم کی ان باتوں سے مماثلت رکھتی تھیں جو وہ شیعہ سنی مفاہمت کی ٹھوس اور مؤثر اساس کے حوالے سے قبل ازیں بیان فرما چکے تھے. چنانچہ ؏ ’’متفق گر دید رائے بو علی بار اے من‘‘ کے مصداق امیر محترم کی ان سے ذاتی دلچسپی قدرتی امر تھا. دوسری جانب جناب آیت اللہ واعظ زادہ بھی اس دلچسپی کو محسوس کر رہے تھے لہٰذا یہی دراصل امیر محترم کے موجودہ دورۂ ایران کا اصل سبب بنا. ورنہ تو اس سے قبل بھی متعدد بار مختلف فنکشن یا سیمیناروں میں شرکت کے حوالے سے دورۂ ایران کی دعوت مل چکی تھی‘لیکن امیر محترم نے ہر بار یہی فرمایا کہ میں اس قسم کی محافل کا آدمی نہیں ہوں‘مجھے تو آپ کبھی شخصی اور انفرادی حیثیت سے انقلاب ایران کے بعد کے ’’ایران‘‘ کو دیکھنے کی دعوت دیں گے تو جاؤں گا.

چنانچہ اسی قسم کی دعوت پر ایک ہفتہ کا دورہ طے ہوا. امیر محترم کے ہمراہ ہم تین افراد تھے: راقم الحروف‘ڈاکٹر نجیب الرحمن جو تنظیم اسلامی کے دیرینہ رفیق ہیں اور آج کل اگرچہ ملائیشیا میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن ۱۳ سال تک ایران میں رہے ہیں. انہوں نے قبل از انقلاب اور بعداز انقلاب کے ایران کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘فارسی میں بے 
تکلف گفتگو کر سکتے ہیں. ابھی دو روز قبل ہی ملائیشیا سے پاکستان چھٹی گزارنے آئے تھے کہ امیر محترم کے حکم پر ہمارے ساتھ ہو لیے. تیسرے ہم سفر عزیزم رشید ارشد (جناب اقتدار احمد مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے) تھے‘جو اپنے ذاتی خرچ پر اس مختصر قافلے میں شریک ہوئے تھے.

۱۶؍ اکتوبر کو چار افراد کا یہ قافلہ کراچی سے ایرانی ایئر لائن کی فلائٹ سے مقامی وقت کے مطابق ۵ بجے شام روانہ ہوا. کسی بھی ملک کی ثقافت کو سمجھنے کے لیے اس ملک کی ایئر لائن کا سفر ابتدائی تعارف کی حیثیت رکھتا ہے. ایرانی ایئر لائن میں عورتوں کو سکارف اوڑھنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے اور اس کی ’’میزبان خواتین ‘‘ (ایئر ہوسٹس) ان کے تصورات کے مطابق حجاب میں ہوتی ہیں‘جس میں چہرے کی ٹکیہ اور ہاتھ کے علاوہ جسم پوری طرح سے ڈھکا ہوتا ہے اور وہ ایئر ہوسٹس کی بجائے ’’راہبائیں‘‘ نظر آتی ہیں. تین گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ایران کے مقامی وقت کے مطابق ( جو پاکستان کے وقت سے ڈیڑھ گھنٹہ پیچھے ہے) ساڑھے چھ بجے ہم تہران کے مہر آباد ایئرپورٹ پر اتر گئے‘جہاں ہوائی جہاز کی سیڑھیوں ہی پر عبدالحمید طالبی استقبال کے لیے موجود تھے. یہ نوجوان اس ادارے میں ملازم ہیں جس نے ہمیں مدعو کیا تھا. ایران میں ہماری مصروفیات کا پروگرام انہی کے حوالے تھا. 

ہمیںV.I.P لاؤنج لے جایا گیا جہاں دو مزید افراد ابوالقاسم اور حجۃ الاسلام غفاری استقبال کے لیے موجود تھے. سامان کی وصولی میں کافی وقت لگ گیا‘محسوس ہوا کہ اس لھاظ سے ایرانی ایئر لائن بھی پاکستانی ایئر لائن جیسی ہی ہے. سامان کے انتظار کے دوران غفاری صاحب سے گفتگو جاری رہی. موصوف خاصی انگریزی بول لیتے ہیں اور اس سے قبل بعض ممالک میں سفیر کے عہدہ پر بھی فائز رہے ہیں (ایران میں علماء فارسی اور عربی پر تو کافی دسترس رکھتے ہیں لیکن انگریزی شاذہی کوئی سمجھ یا بول سکتا ہے) امیر محترم نے ان کے سامنے اپنے دورۂ ایران کا پس منظر بیان کیا‘نیز بین الاقوامی حالات کے تناظر میں شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت اور اس کے لیے ٹھوس اور موثر اساس پر اپنا مو قف بیان کیا. امیر محترم اگرچہ کافی تھک چکے تھے لیکن سامان کی آمد کا انتظار ایک مجبوری تھا. خدا خدا کر کے ایئر پورٹ سے روانہ ہوئے اور قریباً پینتالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہوٹل آزادی پہنچے جس کی کل چھتیس منزلوں میں سے انیسویں منزل پر ہمیں ایک ہفتہ رہنا تھا. ہم نے تو ذہنا اس کے لیے بھی تیار تھے کہ ایک ہی کمرے میں گزارہ کر لیں لیکن یہ ہمارے میزبانوں کو گوارا نہ ہوا اور انہوں نے امیر محترم کو ایک بڑا کمرہ علیحدہ دیا. البتہ باوجود مطالبے کے ہمیں ہماری مصروفیات کے بارے میں کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا گیا‘صرف اتنا بتایا گیا کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے تیار رہیے گا.
۱۷؍ اکتوبر صبح ۹ بجے آیت اللہ تسخیری صاحب سے ملاقات تھی. موصوف رئیس ثقافت و علاقات اسلامیہ ہیں. اور ہمارا ادارہ 
’’المجمع العالمی للتقریب بین المذاہب الاسلامیہ‘‘ انہی کے ماتحت کام کرتا ہے. ان سے یہ ملاقات کوئی پون گھنٹے تک جاری رہی. جناب آیت اللہ نے فارسی زبان میں گفتگو کی جس کے اکثر مفہوم کو امیر محترم نے سمجھ لیا اور پھر اپنی گفتگو میں جو انگریزی زبان میں ہوئی اس کا جواب دیا. آیت اللہ تسخیری بہت ہی خندہ پیشانی سے ملے. موصوف کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے جس نے ان کی شخصیت کو بہت دل آویز بنا رکھا ہے. امیر محترم نے یہاں بھی شیعہ سنی مفاہمت کے حوالے سے اپنی تجاویز کا اعادہ کیا. آیت اللہ تسخیری نے انقلاب ایران کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ ایرانی فوجیوں کو انقلابیوں کا ایک ایک ہجوم منتشر کرنے کے لیے ٹینک دے کر روانہ کیا گیا. جب شاہ کے ٹینک جلوس کے قریب پہنچے تو مظاہرین کے رہنما نے لوگوں کو اللہ کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا. اب سپاہی ٹینک چھوڑ کر کھڑے ہو گئے کہ اس صورت حال میں ہم کیا کر سکتے ہیں. (نیشنل آرمی اپنے عوام پر ناروا ظلم نہیں کر سکتی. گویا یہ واقعہ اس کا ثبوت تھا). جناب آیت اللہ تسخیری نے ایک قرآنی آیت کا خوبصورت فریم امیر محترم کو ہدیتًا پیش کیا . جوابًا امیر محترم نے انہیں اپنی انگریزی و فارسی کتب کا سیٹ ہدیہ کیا.

یہاں سے فارغ ہو کر ہمیں ’’مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی‘‘ لے جایا گیا. اس ادارے کے تحت اسلامی انسا ئیکلوپیڈیا کی تیاری کا کام جاری ہے. یہ فاری زبان میں ہے. ۳۰۰ سکالر اس کا کو سرانجام دے رہے ہیں. اب تک اس کی ۱۹ جلدیں چھپ چکی ہیں‘ساتھ ساتھ اس کا عربی ترجمہ بھی ہو رہا ہے جس کی چھ جلدیں چھپ چکی ہیں. عربی زبان کی پہلی دو جلدیں امیر محترم کو ہدیتًا پیش کی گئیں. اس ادارے کی اپنی لائبریری ہے جس میں ۳۵ ہزار کتابیں موجود ہیں. اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر بجنوردی ہیں. ڈاکٹر موصوف نے اپنے ادارے کا تفصیلی تعارف کروایا. اس ادارے کے تحت ہر سال ایک جلد۷۶۰ صفحات پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا کی تیاری ہو رہی ہے.

امیر محترم نے اس انسائیکلوپیڈیا کے اردو زبان میں ترجمہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پوری دنیا کی ۱۲۰ کروڑ مسلمان آبادی میں سے ۴۰ کروڑ کے قریب آبادی بر عظیم پاک و ہند میں بستی ہے جو تقریباً سب کی سب اردو زبان سمجھتی ہے‘لہٰذا اس انسائیکلو پیڈیا کا اردو ترجمہ 
بہت مفید رہے گا اور بڑی تعداد میں مسلمان اس سے استفادہ کر سکیں گے. ڈاکٹر موصوف نے بتایا کہ ایرانی حکومت نے فلسطیین کے بارے میں ایک خصوصی انسائیکلوپیڈیا تر تیب دینے کا منصوبہ بنایا ہے.

ڈاکٹر بجنوری بہت اہم شخصیت ہیں. ان کے والد آیت اللہ عنصروی ’’مرجع‘‘ تھے. ڈاکٹر موصوف خود سیاسی شخصیت رہے ہیں. شاہ کے زمانے میں انہوں نے ۱۴ سال قید میں گزارے. یہ ملابی اسلامی پارٹی کے صدر تھے. اس پارٹی کے کئی رہنما موجود حکومت میں وزیر ہیں. انقلاب ایران کے بعد ڈاکٹر موصوف اصفہان کے گورنر رہے. انہیں وزیراعظم بھی نامزد کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی خدمات اس ادارے کے لیے وقف کر دیں اور تحقیقی کام کو ترجیح دی.

ظہر کے وقت ہم ہوٹل پہنچ گئے. امیر محترم نے ہوٹل میں آرام کیا‘لیکن ہمارا ارادہ تھا کہ ہم اپنے طور پر بھی کچھ گھومیں پھریں تاکہ کچھ معلومات آزادانہ طور پر بھی حاصل ہوں‘لیکن مجبوری یہ تھی کہ ہمیں جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا وہ مرکز شہر سے ۱۵ کلومیٹر دور تھا اور کوئی براہ راست پبلک ٹرانسپورٹ بھی ادھر نہیں آتی تھی. چنانچہ سرکاری انتظام میں ہی سہ پہر ہم نے شہر کا چکر لگایا. تہران شہر خوب صاف ستھرا ہے. فٹ پاتھ واقعتا پیدل چلنے والوں کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں. شہر میں خوب چہل پہل تھی. مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعداد قریباً برابر ہی کی ہوتی ہے‘گویا عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے لیکن ’’حجاب‘‘ میں (ایرانی تصور کے مطابق). کسی بھی عورت کو ہم نے حجاب کے بغیر نہیں دیکھا. انقلاب کے بعد معاشرتی سطح پر یہ تبدیلی بہت نمایاں ہے‘البتہ معاشی سطح پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکی. مہنگائی بہت زیادہ ہے اور عوام الناس اس سے خاصے پریشان ہیں.

گویا اگر یوں کہا جائے کہ انقلاب کے بعد‘ان کے اسلامی تصورات کے مطابق ہی سہی‘یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ پابندیاں تو لگ گئی ہیں لیکن لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہونے کی بجائے دگرگوں ہو گئی ہے. اگرچہ اس معاشی ابتری کا بڑا سبب آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کو قرار دیا جا سکتا ہے. بہرحال کچھ بھی ہو عوام کو بنیادی ضروریات کی بہ سہولت فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے. اس سے لمبے عرصے تک صرف نظر نہیں کیا جا سکتا. ایسے ہی اسباب Counter Revolution کا باعث بن جایا کرتے ہیں‘اگرچہ‘بحمداللہ‘اس کے کم از کم فی الحال ایران میں کوئی آثار نظر نہیں آتے. ہم نے کچھ خریداری بھی کی. رقم کا حساب کرنا نسبتاً آسان تھا‘ایک روپے کے ۱۰ تمن اور ۱۰ تمن ۱۰۰ ریال‘گویا ۱۰۰ روپے کے مساوی ادائیگی کے لیے دس ہزار ریال ادا کرنے پڑتے. روپوں کے ریال حاصل کر کے جیب ایک دفعہ تو خوب بھاری ہو جاتی لیکن پھر ہلکی بھی اسی سرعت سے ہوتی. ایک عام سوئیٹر کی قیمت قریباً چالیس ہزار ریال ہے. ۱۸؍ اکتوبر ہمیں انقلاب ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر لے جایا گیا . یہ تہران سے قریباً ۱۵ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے. عمارت باہر سے بہت خوبصورت لیکن اندر سے سادہ ہے‘شاید اس لیے کہ ابھی زیر تعمیر ہے. مقبرے کے ساتھ ایک بہت بڑا کمپلیکس بنایا گیا ہے جس میں ایک دانش گاہ (یونیورسٹی) اور ایک لائبریری بنانے کا منصوبہ ہے. اگرچہ تعطیل کا روز تھا لیکن لوگوں کی کوئی بڑی تعداد ہم نے وہاں نہیں پائی. لوگ قبر کے پاس جا کر دعائیہ کلمات ادا کرتے. بظاہر کسی قسم کی شرکیہ حرکات بھی ہم نے نہیں دیکھیں. مقبرے کے باہر ایک بہت بڑے سائن بورڈ کے دواطراف مرحوم آیت اللہ خمینی کے یہ اقوال درج تھے: 

’’ماتا آخرین نفس تا آخرین منزل و آخرین قطرہ خون برای اعلاء کلمۃ اللہ ایستاداہ ایم‘‘. ’’من درمیان شماباشم یانباشم بہ ھمہ شما وصیت و سفارش میکنم کہ نگذارید انقلاب بدست نا اھلان و نامحرامان بفید‘‘. 

یعنی : ’’ہم اپنے آخری سانس‘آخری منزل‘اور آخری قطرۂ خون تک اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے کھڑے رہیں گے!‘‘ اور ’’میں تمہارے درمیان موجود رہوں یا نہ رہوں لیکن سب کو وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ انقلاب کو نا اہل اور ناواقف لوگوں کے حوالے نہ کر دینا!‘‘

آج جمعہ کا روز تھا. پورے تہران میں صرف ایک جگہ یونیورسٹی گراؤنڈ آزادی چوک میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے. جس میں وہاں کے لوگوں کے قول کے مطابق تو 10 لاکھ کے قریب افراد جمعہ ادا کرتے ہیں جو وسیع گراؤنڈ کے علاوہ آس پاس کی سٹرکوں اور گلیوں میں بھی پھیلے ہوتے ہیں. ویسے گرائونڈ میں بھی جہاں تک نگاہ جا سکتی تھی کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ انسان تو نظر آ ہی رہے تھے. خطیب ایرانی حکومت کا کوئی اہم نمائندہ ہوتا ہے. آج کے خطیب چیف جسٹس آیت اللہ یزدی تھے.

ہمارے اس دورے دوران آیت اللہ واعظ زادہ کے پرسنل سیکرٹری حجتہ الاسلام میر آقائی مسلسل ہمارے ساتھ رہے. موصوف بہت خوش اخلاق پختہ عالم دین ہیں‘قم سے فارغ التحصیل ہیں‘انگریزی بول اور سمجھ لیتے ہیں. ان سے ہمیں بہت مفید معلومات حاصل ہوئیں. 
علماء کے مابین درجہ بندی کا معیار ہے. ۴ سال کی مذہبی تعلیم کے بعد ایک شخص ثقہ الاسلام کہلاتا ہے. ۱۰سال کے بعد یہ شخص حجتہ الاسلام کہلانے کا مستحق ہو جاتا ہے. ۱۵ تا ۲۰ سال گزرنے اور کوئی اہم علمی کارنامہ سرانجام دینے کے آیت اللہ مجتہد کا درجہ ہوتا ہے. سب سے اونچا درجہ آیت اللہ العظمیٰ کا ہے جو مرجع بھی کہلاتے ہیں. اس وقت ایران میں کل ۱۰ مرجع ہیں. اس درجہ بندی کو ’’قم‘‘ کے علماء کا ایک بورڈ طے کرتا ہے.
۱۹؍ اکتوبر صبح ۸ بجے ہم ’’قُم‘‘ کے لیے روانہ ہوئے. یہ تہران سے قریباً ۱۶۰ کلو میٹر دور ہے. قم جو ایران کا سب سے بڑا مذہبی علمی مرکز ہے‘یہاں نسبتاً چھوٹے علمی مدارس تو بہت ہیں لیکن دو اہم اور بڑے علمی مرکاز حوضہ علمیہ اور فیضیہ ہیں.

ہم نے ان دونوں مراکز کو دیکھا. قم شہر میں خوب چہل پہلی دیکھی. خیال تھاکہ یہاں صرف علماء اور طلبہ ہی ہوں گے لیکن اس شہر میں عوام الناس کی بھی خوب آبادی ہے. یہاں پر ایک پبلک لائبریری نے کافی متاثر کیا اور بڑتی بات یہ ہے یہ لائبریری شخص واحد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے. یہ لائبریری ۱۹۶۸ء میں قائم کی گئی تھی. آیت اللہ العظمیٰ المرعشی نجفی نے ذاتی دلچسپی اور محنت سے ایک لائبریری کو علم کے متلاشی افراد کا مرجع بنا دیا ہے. اس وقت ان کے بیٹے السد محمود المرعشی ان کے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں. انہوں نے ہمیں لائبریری کے اہم شعبے دکھلائے. سب سے اہم شعبہ قلمی نسخوں کا ہے جس میں ۲۶۳۰۰ مخطوطات ہیں. نادر مخطوطات کو دیکھنے کا موقع ملا. ایک پانچ انچ چوڑی اور قریباً ایک میٹر لمبی پٹی پر مکمل قرآن مجید ہاتھ سے لکھا ہوا دیکھا. لاطینی زبان میں ایک تاب چمڑے پر لکھی ہوئی یہاں موجود ہے. کتابوں کی مائیکروفلمز بنانے کا شعبہ بھی موجود ہے‘جس میں تمام جدید سہولتیں فراہم کی گئی ہیں. ایک پورا شعبہ انسائیکلوپیڈیا کا ہے جس میں دنیا کی تمام زبانوں (سوائے اردو کے) میں انسائیکلوپیڈیا موجود ہیں. ایک دارالمطالعہ بھی ہے جہاں بیٹھ کر علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں. روزانہ ۲۰۰ افراد اس لائبریری سے استفادہ کرتے ہیں. ہفتے میں دو دن صرف خواتین کے لیے مخصوص ہیں. 

ادارہ ’’المجمع العالمی للتقریب بین المذاہب الاسلامیہ‘‘ کی قم برانچ جانا ہوا. اس کے انچارج محمد مہدی نجف ہیں. بہت ہی خوش اخلاق آدمی ہیں. یہاں پر قم کے علماء سے ملاقات کا پروگرام تھا. پانچ علماء تشریف لائے جو سب کے سب آیت اللہ کے منصب پر فائز اور اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر تھے.

آیت اللہ معرفتی‘آیت اللہ جَنّاتی‘آیت اللہ ربانی وغیرھم. اس محفل میں خالص علمی موضوعات زیر بحث رہے. قران میں مذکوریاجوج ماجوج کے بارے میں رائے دی گئی کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ گزر چکا ہے. ذوالقرنین کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہم مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کو صحیح سمجھتے ہیں. چہرے کے پردے کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی. نیزموجودہ بین الاقوامی صورت حال یہود کے کردار اور حزب الشیطان کے کردار اور اس کی چالوں پر گفتگو ہوئی. احادیث میں وارد فتنہ دجال اور الملحمۃ العظمیٰ پر امیر محترم نے اپنی رائے پیش کی. تمام علماء نے بڑی دلچسپی سے امیر محترم کی گفتگو سنی. محسوس ہوا کہ شاید پہلی مرتبہ ان کے سامنے یہ ساری باتیں آ رہی ہیں. قیامت کے بارے میں ایک عالم دین کا خیال تو یہ تھا کہ یہ ابھی کافی دور کی بات ہے اور یہ کہ جب تک انسان تمام کائنات (forces of Nature) پر قابویافتہ نہیں ہو جاتا قیامت نہیں آئے گی. توجیہہ اس کی یہ بیان کی گئی کہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اور نائب کے پاس بھی اصل مالک کے اختیارات کا ہونا ضروری ہے. اس پر امیر محترم نے برجستہ کہا کہ ایسا شخص تو ’’دجال‘‘ ہو گا. جس پر ایک قہقہہ لگا. امیر محترم نے اپنی شیعہ سنی مفاہمت والی تجویز یہاں بھی دہرائی. اس پر تمام حضرات نے خاموشی اختیار کی اور مثبت یا منفی کوئی بات سامنے نہیں آئی.

۲۰؍ اکتوبر کے روز ہمیں تہران کی دویونیورسٹیوں میں لے جایا گیا. یونیورسٹی کو دانش گاہ کہا جاتا ہے. دانش گاہ امام صادق ؒ اصل میں پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی ہے اور صرف لڑکوں کے لیے مخصوص ہے. اس دانش گاہ میں ۸۰۰ طلبہ اور ۸ فیکلٹیز ہیں. رئیس دانش گاہ آیت اللہ مہدوی ہیں موصوف قبل ازیں وزیراعظم و وزیرداخلہ بھی رہ چکے ہیں. ان کے معاون حجتہ الاسلام سید احمد علم الہدیٰ ہیں. ان سے خاصی طویل گفتگو رہی. یونیورسٹی کا تعارف کرواتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی میں علوم اسلامی کو بنیادی جاہمیت حاصل ہے‘چناچنہ ایہاں مختلف فیکلیٹز کے نام کچھ یوں ہے: علوم اسلامی وی سیاسیات‘علوم اسلامی و اقتصادیات‘علوم اسلامی و تاریخ‘و علیٰ ہٰذا القیاس. امیر محترم نے فرمایا کہ ایسی ہی ایک یونیورسٹی کا قیام ان کا ایک خواب تھا جو انہوں نے ۱۹۶۸ء میں دیکھا تھا‘جس کی ایک جھلک انہیں یہاں نظر آئی ہے. ان کا اشارہ اس قرآن یونیورسٹی کی جانب تھا جس کا نقشہ انہوں نے اپنے کتابچے ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ میں پیش کیا ہے‘یعنی ایک ایسی یونیورسٹی ہو جس میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جدید علوم کے شعبہ جات ہوں. امام صادق ؒ یونیورسٹی کا تعلیمی معیار خاصا بلند ہے. پوچھنے پر بتایا گیا کہ پاکستان سے بھی کچھ 
طلبہ نے اس یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا لیکن اس کے سخت تعلیم ڈسپلن کی وجہ سے وہ یہاں چل نہیں سکے.

نماز ظہر ہم نے اس یونیورسٹی کے 
Paryer Hall میں ادا کی. نماز ظہر کے بعد امیر محترم کو ۱۵ منت اظہار خیال کا موقع دیا گیا. اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امیر محترم نے دو احادیث کے حوالے سے گفتگو کی. حضرت نعمان ابن بشیرؓ سے مروی حدیث: ’’تکون النبوۃ فیکم ماشاء اللہ تکون…‘‘ اور حضرت ثوبان ؓ سے مروی حدیث ’’ان اللہ زویٰ لی الارض…‘‘. امیر محترم کی گفتگو انگریزی زبان میں تھی جس کو اگرچہ پوری طرح تو بہت کم حضرات ہی سمجھ سکے‘تاہم ان کے تاثرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اصل مضمون سب کی سمجھ میں آ رہا ہے. ایران میں فارسی زبان کے بعد سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان عربی ہے. خصوصاً علماء فارسی کے علاوہ اکثر و بیشتر صرف عربی جانتے ہیں اور اس پر خوب دسترس رکھتے ہیں. حتیٰ کہ اس دانش گاہ کے تمام طلبہ عربی سمجھ اور بول سکتے ہیں. بعد میں یونیورسٹی کے ایک استاد نے کہا بھی کہ کاش آپ عربی زبان میں گفتگو کرتے تو بہت اچھا ہوتا. بہرحال بعد میں بہت سے حضرات نے امیر محترم کی گفتگو کی تحسین کی. چند ایک طلبہ کو فارسی زبان میں ’’قرآن مجید کے حقوق‘‘ بھی پیش کیے گئے. اپنی اس گفتگو کے حوالے سے امیر محترم نے فرمایا کہ ہم نے یہاں بھی ’’اذانِ خلافت‘‘ دے دی ہے. امیر محترم کا یہ خطاب ظہر اور عصر کی نمازوں کے مابین ہوا جو اہل تشیع کے یہاں ’’ظہرین‘‘ کے نام کے ساتھ ہی ادا کی جاتی ہیں. چنانچہ ۱۵ منٹ کا یہ خطاب نماز ظہر کے بعد شروع ہوا اور عصر سے قبل ختم ہو گیا.

یہاں سے فارغ ہو کر ہم دانش گاہ الزھراء ؓ پہنچے. یہ یونیورسٹی صرف طالبات کے لیے ہے. البتہ اساتذہ میں مرد حضرات بھی ہیں. ڈاکٹر عبدالکریم شیرازی نے ہمارا استقبال کیا. یہاں ہمارے لیے ایک استقبالیہ بینر بھی لگایا گیا تھا. ڈاکٹر شیرازی 
Head of Theology Deppt ہیں.

امیر محترم نے خواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹی کے قیام پر انہیں مبارکباد پیش کی. پاکستان میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ یونیورسٹی کا قیام اہل پاکستان کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے‘کئی مرتبہ اس کا وعدہ بھی بکیا گیا ہے. ضیاء الحق مرحوم نے بھی اس کا عزم کیا تھا لیکن افسوس کہ تاحال یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا. الزہراء یونیورسٹی میں 
B.A., B.Sc . اور M.A., M.Sc . کے علاوہ کچھ مضامین میں Ph.D. بھی کرائی جاتی ہے. بتایا گیا کہ اس وقت ۵۰۰۰ کے قریب طالبات یہاں زیر تعلیم ہیں‘جن سے کوئی فیس نہیں لی جاتی. ہوسٹل میں رہائش کا بھی کوئی خرچ نہیں لیا جاتا. صرف طعام کا خرچہ لیا جاتا ہے اور وہ بھی Subsidised ہے. کل وقتی ۲۵۰ اساتذہ میں سے ۱۵۰ خواتین ہیں. اس کے علاوہ ۳۰۰ اساتذہ جزو وقتی یعنی visting professors ہیں. یونیورسٹی کے اندر بھی تمام طالبات ایرانی حجاب میں تھیں. ہمیں کانفرنس روم میں بٹھایا گیا. تھوڑی دیر میں وائس چانسلر جناب ڈاکٹر کوھیان بھی تشریف لے آئے. دوپہر کے کھانے کے انتظام یہیں تھا. کھانے کے دوران اس یونیورسٹی کے بارے میں معلومات کے علاوہ مزید موضوعات پر بھی گفتگو جاری رہی. انقلاب کے بعد ایران کے معاشی نظام کے حوالے سے ڈاکٹر موصوف نے تسلیم کیا کہ ہم معاشی نظام میں اسلام کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکے. وائس چانسلر نے کہا کہ ہم اس کے لیے کوشاں ہیں.

امیر محترم نے فرمایا کہ شیعہ سنی کے مابین بعد کو دور کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ جو شیعوں نے حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے لیے الاٹ کر لیا ہے اور سنیوں نے عائشہؓ کو ‘تو اگر حضرت خدینہؓ کی شخصیت کو جاگر کریں کہ وہ حضرت فاطمہؓ کی والدہ بھی تھیں اور بالاتفاق ’’الصدیقہ الکبریٰ‘‘ بھی‘اور اسلام قبول کرنے میں بھی اول تھیں‘جنہوں نے اپنا سارا سرمایہ بھی حضور پر اس نئے اور انوکھے تجربہ (وحی الٰہی کے نزول) کی وجہ سے گھبراہٹ کے آثار تھے. چنانچہ دونوں حلقوں کی جانب سے ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی شخصیت کو اجاگر کیا جائے تو تفرقہ کی موجودہ فضا کو ختم کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے. حاضرین نے امیر محترم کی رائے سے اتفاق کیا.

سہ پہر ۴ بجے پاکستانی سفارت خانہ جانا ہوا. انفرمیشن سیکرٹری جنرل جناب فضل الرحمن صاحب نے استقبال کیا. پاکستانی سفیر جناب محمود صاحب سے ایران میں موجود پاکستانیوں کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی. تہران میں پاکستانی سکول کرایہ کی ایک عمارت میں ہے جو کافی شکستہ بھی ہے. یہاں پر موجود پاکستانی سکول کے لیے نئی اور وسیع تر عمارت خریدنا چاہتے ہییں لیکن نامعلوم و جوہات کی بنا پر اجازت نہیں مل رہی. دیگر باہمی دلچسپی کے موضوعات بھی زیر بحث آئے . 

رات کا کھانا دانش گاہ مذاہب الاسلامی کے رائیس ڈاکٹر تبریان کے ہاں تھا. یہ دانش گاہ ابھی حال ہی میں قائم کی گئی ہے. ڈاکٹر موصوف کی راہئش بھی اسی عمارت میں ہے. 
Comparativ Study کے اس پوسٹ گریجویٹ کالج میں طلبہ کی تعداد ۱۰۰ ہے. طلبہ سے کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ چیدہ طلبہ کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے. کھانے کے موقع پر چند مزید شخصیات سے بھی ملاقات ہوئی جیسے ڈاکٹر سید مصطفی میر داماد جو تہران یونیورسٹی میں visiting professor ہیں. مولانا اسحاق مدنی سے بھی یہیں ملاقات ہوئی. مولانا اسحاق مدنی کا تعلق ایرانی بلوچستان سے ہے. کراچی سے فارغ التحصیل ہیں اور اس وقت صدر ایران رفسنجانی کے مذہبی مشیر برائے سُنّی امور ہیں. مولانا اسحاق مدنی جب آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی کے ہمراہ دورۂ پاکستان کے موقع پر ان کے ہمراہ قرآن اکیڈمی تشریف لائے تھے‘ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی.

کھانے کے اس اجتماع کے موقع پر بھی مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہی. امیر محترم نے انجمن و تنظیم کا تعارف اور ان کے دائرہ کار کو واضح کیا کہ انقلاب کے آخری مرحلہ کے لیے جناب خمینی کی سربراہی میں برپا کیا گیا انقلاب ایران مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے. افغانستان کی صورتحال اور اس میں طالبان کا کردار بھی زیر بحث آیا. امیر محترم نے سوال کیا کہ کیا انقلاب ایران کے بعد اب عوام الناس کی جانب سے اس انقلاب کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی ہو رہی ہے؟ یہ سوال چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لیے پہلے تو گول مول سا جواب ملا کہ عوام حکومتی اجتماعات میں کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں‘نیز یہ کہ انقلاب مخالف لوگ اگرچہ موجود ہیں لیکن بہت قلیل تعداد میں اور دبے ہوئے ہیں. لیکن بعدازاں جناب غفاری نے تسلیم کیا کہ انقلاب کے بعد لوگوں کے لیے معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں.

اس میں کچھ توبین الاقوامی مہنگائی اور بہت سے ممالک کی جانب سے تجارتی بائیکاٹ بھی ایک عامل ہے. نیز ۸ سال کی ایران عراق جنگ نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے. تاہم جناب غفاری نے کہا کہ حکومت ایران نے بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کر رھے ہیں‘مثلاً بیسییوں کی تعداد میں ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں‘سینکڑوں فیکٹریاں زیر تعمیر ہیں‘ظاہر ہے کہ حکومت کو ان منصوبوں پر کثیر رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے‘لہٰذا عوام کے لیے معاشی مسائل تو یقینا ہیں‘لیکن جناب غفاری نے کہا کہ عوام اس بات کو سمجھتے ہیں اور بقول ان کے انقلاب کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے. ایران میں بعض اداروں میں تو مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار کو علیحدہ کیا گیا ہے لیکن بعض مقامات پر اس کا اہتمام نہیں ہے‘مثلاً مردوں کے ہسپتال میں خواتین نرسیں کام کرتی ہیں ایئرہوسٹس کسی محرم کے بغیر دور دراز کا سفر کرتی ہیں جو دینی تعلیمات کے خلاف ہے. جناب غفاری نے اس ضمن میں بھی حکومت کی کوتاہی کا اعتراف کیا.

۲۱؍ اکتوبر. آج صبح۹ بجے پاکستانی سکول میں اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات اور خطاب کا پروگرام تھا‘لیکن امیر محترم کی طبیعت اچانک بہت ناساز ہو گئی جس کی بنا پر یہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا. ساڑھے دس بجے رہبر انقلاب جناب آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات اور بدھ کا دن عوام الناس کے لیے مختص ہے. بعدازاں معلوم ہوا کہ ہماری ان سے ملاقات اسی اجتماعی ملاقات کے حوالے سے بھی‘خصوصی نہ تھی. تاہم یہ اجتماعی ملاقات ایک لحاظ سے ہمارے حق میں بہتر ہی ثابت ہوئی جس کا ذکر ابھی آئے گا. رہبر انقلاب کے لیے سیکیورٹی کے بہت سخت انتظامات کیے جاتے ہیں. ملاقاتی کو کوئی چیز اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں. ہماری گھڑیاں‘پن‘بٹوے‘ڈائریاں وغیرہ سب رکھوالی گئیں. کسی کیمرے یا ٹیپ ریکارڈر کے لے جانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں. اس سب کے باوجود دو مرتبہ ایک خاص دروازے (غالباً ) 
Metal Detector سے بھی گزارا جاتا ہے اور تلاشی بھی لی جاتی ہے.

یہ تو اچھا ہو کہ عین اس موقع پر آیت اللہ تسخیری تشریف لے آئے جن کی وجہ سے امیر محترم کے لیے بہت آسانی پیدا ہو گئی. رہبر انقلاب جناب خامنہ ای سے اجتماعی ملاقات میں قریباً ۵۰ کے قریب حضرات موجود تھے. کچھ لوگ اپنے مسائل بھی بیان کر رہے تھے جو فارسی زبان میں بیان کیے جانے کے سبب ہمارے لیے ناقابل فہم تھے. تھوڑی دیر بعد جناب خامنہ ای ہماری جانب متوجہ ہوئے اور مختصر سی گفتگو میں ہمارے (امیر محترم ‘وفد) لیے استقبالی اور خیر سگالی کے کلمات کہے. امیر محترم نے اپنی جوابی تقریر میں شکریہ کے بعد اپنا اور اپنے مشن کا تعارف کروایا. تنظیم اسلامی کے ہدف اور اس کے طریق کار خاص طور پر انقلاب کے آخری مرحلہ کے لیے انقلاب ایران سے رہنمائی حاصل کرنے کا تذکرہ کیا. نیز پاکستان میں اسلامی انقلاب ے لیے شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے بعد اس مفاہمت کے لیے اپنے فارمولے کا ذکر کیا. گویا امیر محترم نے مختصر الفاظ میں تنظیم اسلامی کی دعوت اور اس وقت کے بین الاقوامی حالات کے بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کیا. یہ ملاقات اس لحاظ سے اہم تھی کہ ساری باتیں ایران کی اس وقت کی سب سے بڑی شخصیت کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم حضرات کے سامنے بھی آ گئیں اور اس طرح یہ ’’اجتماعی ملاقات‘‘ ایک اعتبار سے مفید تر ہو گئی. جناب خامنہ ای نے بعد میں فرمایا کہ آپ کی باتیں بڑی قیمتی اور قابل غور ہیں.

چار بجے سہ پہر پریس کانفرس سے خطاب تھا. بتایا تو یہی گیا تا کہ یہ پریس کانگرنس انگریزی زبان میں ہو گی لیکن وہاں موجود اکثر صحافی انگریزی سے ناواقف نکلے‘لہٰذا دو طرفہ ترجمانی کی وجہ سے کافی وقت صرف ہو گیا. امیر محترم نے قریباً ۲۰۲۵ منٹ خطاب کیا. امیر محترم نے تفصیلاً اپنا اور اپنے مشن کا تعارف کروایا. تنظیم اسلامی کے اہداف‘اس کے طریق کار اور تنظیمی اساس کا ذکر کیا. گویا بیعت کا تذکرہ یہاں بھی تفصیل سے ہو گیا. نظام خلافت کی بات بھی ہوئی اوری ہ کہ تنظیم اسلامی اولاً پاکستان اور بالاخر پوری دنیا پر نظام خلافت کی جدوجہد کے لیے قائم کی گئی ہے. امیر محترم نے فرمایا کہ ہمارا ہدف اگرچہ بہت بلند ہے لیکن ہماری تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے. لیکن ہمارے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ہم اپنی فہم اور سوچ کے مطابق سیرت کی روشنی میں صحیح سمت میں گامزن ہیں.

امیر محترم نے فرمایا کہ پاکستان اور ایران میں حقیقی دوستی اور تعاون کی شکل تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب پاکستان میں بھی اسلامی حکومت قائم ہو جائے. پاکستان میں نظام خلافت کے لیے شیعہ سنی مفاہمت ضروری ہے اور اس کے لیے واحد قابل عمل فارمولا وہی ہے جس کا تذکرہ ایران کے آئین میں کر دیا گیا کہ چونکہ اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے لہٰذا یہاں پبلک لاتوفقہ جعفریہ کے مطابق ہو گا ہاں البتہ پرسنل لاء میں سینوں کو آزادی ہو گی کہ وہ اپنی عبادات اور نکاح‘طلاق کے معاملات کو اپنی فقہ کے مطابق طے کر لیں. جناب آیت اللہ واعظ زادہ کے حوالے سے امیر محترم نے فرمایا کہ جناب خمینی کا موقف یہی تھا کہ مسلمان ممالک میں جس فقہ کو ماننے والوں کی اکثریت ہو وہاں پبلک لاء وہی ہو گا‘تاہم دوسرے لوگوں کو پرسنل لاء میں مکمل آزادی ہو گی. اسی اصول کو اگر پاکستان میں ہمارے شیعہ بھائی تسلیم کرلیں تو یہاں نفاذ اسلام میں بڑی سہولت پیدا ہو جائے گی. اسی صورت میں پاکستان‘ایران‘افغانستان اور روسی ترکستان کی نو آزاد مسلم ریاستوں پر مشتمل مضبوط اسلامی بلاک نیو ورلڈ آرڈر کا مقابلہ کر سکتا ہے ورنہ ہمارا دشمن ہمیں ایک ایک کر کے اپنا ٹارگٹ بنا کر اپنا مقصد حاصل کر لے گا اور ہم کچھ بھی نہ کر سکیں گے. امیر محترم نے فرمایا کہ میں ایران کے عوام اور حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے تعلقات کو جو ان کے پاکستان میں شیعہ حضرات کے ساتھ ہیں استعمال کرتے ہوئے انہیں اس فارمولا کو قبول کرنے پر آمادہ کریں.

امیر محترم کے بیان کے بعد چند ایک سوالات بھی کیے گئے‘مثلاً ایک سوال یہ تھا کہ کیا 
کیا پاکستان میں جو انقلاب پیش نظر ہے وہ نظریاتی ہو گا یا سیاسی؟ امیر محترم نے فرمایا کہ سیاست اسلام کا جزو ہے اس لیے یہ ایک مکمل انقلاب ہو گا‘لیکن یہ الیکشن کی سیاست سے نہیں آئے گا. کیا خمینہ الیکشن کے ذریعے ایران میں انقلاب لا سکتے تھے؟ ہرگز نہیں! اسی طرح ہم پاکستان میں الیکشن کے ذریعے اسلامی انقلاب نہیں لا سکتے. ایک سوال یہ تھا کہ کیا باہر کی حکومتیں پاکستان میں شیعہ سنی فرقہ بندی کو ہوا دے رہی ہیں؟ امیر محترم نے جواب دیا یقینا! چنانچہ امریکی دانشور Huntington کے مقالے The Clash of Civilizations ? کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ؎ ’’نیشِ عقرب نہ ازپئے کین است. اقتضائے طبیعتیش این است‘‘ کے مصداق ہمارے دشمن کی دشمنی کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیں کمزور کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے. یہ تو ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ ہم اس کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں.

یہ پریس کانفرنس بہت سے اعتبارات سے بڑی اہم رہی‘لیکن افسوس کہ میڈیا نے اس کو زیادہ نمایاں نہیں کیا‘بلکہ محسوس ہوا کہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے ہمارے دورے سے صرف نظر کی پالیسی اپنائی گئی تھی. مثلاً رات کو ٹیلی ویژن کی خبروں میں جناب خامنہ ای کی آج کی اجتماعی ملاقات کو ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس میں بقیہ حاضرین کو تو دکھایا گیا ہماری کوئی جھلک نہیں آنے پائی. ٹیلی ویژن کا تذکرہ آیا ہے تو ایرانی ٹیلی ویژن کی جوبات قابل تعریف ہے اس کو بیان نہ کرنا زیادتی ہو گی کہ ایرانی ٹیلی ویژن عریانی اور فحاشی مکمل طور پر پاک ہے. پروگرام عموماً بامقصد ہوتے ہیں. عورت کو دکھایا بھی جاتا ہے تو ’’حجاب‘‘ میں اور میک اپ کے بغیر. جو تھوڑے بہت ڈرامے دکھائے جاتے ہیں ان میں بھی عورت ’’حجاب‘‘ میں ہوتی ہے. غرضیکہ آپ ایرانی ٹیلی ویژن کو بلاجھجک اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں‘جو پاکستان میں تو ناممکن ہے.

پریس کانفرنس کے بعد ریڈیو کی عربی سروس والوں نے امیر محترم کا ۱۵ منٹ کا انٹرویو ریکارڈ کیا جبکہ اردو سروس کے نمائندے سید امیر علی ہوٹل میں انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لیے آئے. یہ انٹرویو قریباً ایک گھنٹہ پر مشتمل تھا. ریڈیو کی اردو سروس کو امیر محترم نے اپنی کتابوں کا مکمل سیٹ ہدیتاً پیش کیا. اردو سروس کے عملے کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے کہ اگلے ہی روز انہوں نے اس انٹرویو کی آدیو کیسٹ ہمیں فراہم کر دی.

۲۲ ؍ اکتوبر. آج کا دن مشہید کے لیے مختص تھا. اہل تشیع کے نزدیک یہ نہیں مقدس شہر ہے جس میں ان کے آٹھویں امام جناب علی رضاؓ مدفون ہیں. شیعہ حضرات ان کے مزار کو حرم 
کہتے ہیں. یہ شہر تہران سے قریباً ۹۵۰ کلو میٹر دور ہے. فلائٹ نے ایک گھنٹہ دس منٹ لیے. ہمارے لیے یہاں کا visitاس لیے بھی اہم تھا کہ ہمارے اصل میزبان جناب آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی سے ملاقات یہیں ہونا تھی. یاد رہے کہ مشہد ایران کے موجودہ صوبہ خراسان کا ایک اہم شہر ہے. جبکہ وہ خراسان جو کہ حضور کے وقت میں تھا اور جس کو اہل ایران کی اصطلاح میں ’’خراسانِ بزرگ‘‘ کہا جاتا ہے‘ایران کے اس حصے کے علاوہ قریباً پورے افغانستان‘روسی ترکستان اور پاکستان کے شمالی علاقے کے ایک اہم حصے میں مشتمل ایک بہت بڑا ملک تھا. اسی ’’خراسانِ بزرگ‘‘ کے بارے میں حضور کی پیشین گوئی موجود ہے کہ یہاں سے سیاہ پرچم چلیں گے (عینی اسلامی افواج) جنہیں کوئی شے واپس نہیں کر سکے گی یہاں تک کہ وہ ایلیا (بیت المقدس) میں نصب کر دیے جائیں گے.

مشہد میں ہمیں ایک بہت بڑی لائبریری دکھائی گئی جو اپنی نوعیت کی منفرد لائبریری ہے. اپنی خوبصورتی‘وسعت‘اور جدید سہولیات کے حوالے سے اس کا 
visit ہمارے لیے ایک خواشگوار حیرت کا سبب بنا. لائبریری کی عمارت تین منزلہ ہے. ایک بہت بڑا سمپوزیم اور دو وسیع و عریض دارالمطالعہ ہیں. کتابوں کی تعداد ۵ لاکھ ہے. Cataloging کا نظام پوری طرح سے کمپیوٹرائزڈ ہے. لائبریری کی اپنی ایک خوبصورت مسجد ہے جس کے درمیان میں ایک ستون نبی اکرم کے ورودِ یثرب کے موقع پر تعمیر ہونے والی مسجد یعنی مسجد قبا کی اولین تعمیر کی طرز پر بنایا گیا ہے جس کے درمیان کھجور کے تنے کا واحد ستون تھا. چھت پر لکڑی کا کام بہت عمدہ انداز میں کیا گیا ہے. چاروں کونوں میں ’’ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ‘‘ کے الفاظ روشنی پھیلاتے ہیں. غرضیکہ یہ جگہ دیکھنے کے لائق ہے. اسی کے ساتھ ایک کمپلیکس میں ’’دانش گاہ‘‘ بھی ہے. اسی دانش گاہ میں ہماری ملاقات جناب آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی سے ہوئی. جناب واعظ زادہ انگریزی زبان نہیں سمجھ سکتے لہٰذا مترجم کے ذریعے گفتگو ہوئی. ’’دانش گاہ‘‘ کا تعارف کروایا گیا. اس وقت ۲۰۰ طالب علم یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے لیے تعلیم‘رہائش‘کھانا اور دیگر روز مرہ کی ضروریات بالکل مفت مہیا کی جاتی ہیں.

لائبریری اور دانش گاہ ایک بہت بڑے کمپلیکس پر محیط ہیں. امیر محترم نے اگرچہ اکثر و بیشتر وہیل چیئر کی سہولت سے استفادہ کیا جو ہم پاکستان سے ہی ساتھ لے گئے تھے لیکن بعض جگہوں پر سیڑھیاں بھی تھیں اور کچھ پیدل چلنے کی وجہ سے امیر محترم تکان محسوس کر رہے تھے لہٰذا دوپہر امیر محترم نے ہوٹل میں آرام کیا. ہمارا ارادہ تھا کہ ہم اس دوران بازار کا ایک چکر 
لگا لیں گے لیکن معلوم ہوا کہ یہاں ’’قیلولہ‘‘ کے لیے دوپہر کے اوقات میں تمام بازار بند رہتے ہیں. ناچار ہمیں بھی آرام کرنا پڑا.

شام کو جناب علی قمی صاحب سے ملاقات ہوئی. یہ لاہور میں ۵ سال تک قونصل جنرل کے عہدہ پر فائز رہے ہیں. آج کل وزارت خارجہ سے منسلک ہیں اور مشہد میں قیام پذیر ہیں. رات کی فلائٹ سے ہم واپس تہران کے لیے عازم سفر ہوئے. اس سفر میں جناب آیت اللہ واعظ زادہ بھی ہمارے ساتھ تھے. 

۲۳؍ اکتوبر ہماری پاکستان واپسی کا دن تھا. جناب واعظ زادہ نے ناشتہ ہمارے ساتھ ہوٹل ہی میں کیا جہاں قریباً ایک گھنٹہ تک امیر محترم کی ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہی. مثلاً اسلامی حکومت میں تنازعات کے حل کے لیے کس سے رجوع کیا جائے. جناب واعظ زادہ نے تسلیم کیا کہ ہمارے ہاں اس قسم کے ادارے ابھی پوری طرح مستحکم نہیں ہوئے‘ابھی تو شخص واحد (رہبر انقلاب) کی طرف ہی رجوع کیا جاتا ہے. ریاستی سطح پر ابھی بہت سی باتیں یہاں طے کرنا باقی ہیں. امیر محترم نے اپنا فکر پیش کیا کہ آج کے حالات میں تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں قابل عمل صورت یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کی طرف رجوع کیا جائے اور وہ اس کا فیصلہ کریں جبکہ علماء اور اہل علم اپنے دلائل کے ذریعے عدالتوں کی رہنمائی کریں. اس ضمن میں اگر شخص واحد یا علماء کے بورڈ کے حوالے یہ کام کر دیا جائے تو یہ روح عصر کے منافی ہو گا. امیر محترم نے محسوس کیا کہ اگر خطبات خلافت کا فارسی ترجمہ کر کے ہم ان حضرات تک پہنچا سکیں تو شاید ہمارا نقطۂ نظر ان حضرات پر اچھی طرح واضح ہو جائے!

اس کے علاوہ بھی بہت سے علمی مسائل زیر بحث آئے جن سب کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں ہے. مقامی وقت کے مطابق ۹ بجے میزبان جناب آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی سے رخصت ہو کر ہم ’’فرودگاہ‘‘ یعنی ایئر پورٹ کی جانب روانہ ہوئے. رخصت کرتے وقت جناب آیت اللہ واعظ زادہ خراسانی نے ایک طغرہ اور مختلف کتابیں ہدیتاً پیش کیں.

اس پورے سفر کے دوران جناب واعظ زادہ کے پرسنل اسسٹنٹ میر آقائی‘جناب عبدالحمید طالبی اور جناب انصاری نے ہر وقت ہماری ضروریات کا خیال رکھا اور حق میزبانی ادا کر دیا. عربی زبان میں ’’سفر‘‘ کے معنی روشنی کے بھی ہیں اور یقینا سفر سے حقائق و واقعات کے ضمن میں روشنی حاصل ہوتی ہے. بہرحال اس سفر سے جو روشنی ہمیں حاصل ہوئی اس کا کچھ حصہ میں نے آپ تک پہنچانے کی کوشش ہے. ع گر قبول افتدز ہے عزّو شرف!