علماء کا حالیہ رویہ اور اس کا سبب

اب میں اپنے آج کے موضوع کی طرف آتا ہوں ‘ جس کا اخباری اشتہار آپ نے ملاحظہ کرلیا ہوگا‘ یعنی ’’حضرت مہدی ٔموعود کی شخصیت ‘‘.اس کا سبب یہ ہے کہ راولپنڈی میں اپنے ۴؍اکتوبر کے خطاب جمعہ میں مَیں نے یقین کے درجے کو پہنچے ہوئے اپنے گمانِ غالب کا اظہار کیا تھا کہ عالمِ عرب میں حضرت مہدی کی ولادت ہوچکی ہے اور ان کے منظر عام پر آنے کا وقت اب زیادہ دور نہیں ہے . اس پر مذہبی حلقوں میں بہت لے دے ہوئی ہے اور ایک تہلکہ سا مچ گیا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ کیا کہہ دیا !کسی نے یہاں تک کہا ہے کہ ان کا دماغی معائنہ کروانا چاہیے . مجھے ان صاحب کی اس پیشکش پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں اسے خوش آمدید کہتا ہوں . بہرحال اس سے یہ اندازہ کرنا دشوار نہیں ہے کہ ہمارے علماء کا بھی ایک بہت بڑا طبقہ دین کی مسلمہ باتوں تکً سے کس قدر دور ہوچکا ہے . تحریک خلافت کے ضمن میں جب میں نے بنوں میں جلسہ ٔعام سے خطاب کرتے ہوئے وہ احادیث بیان کیں جن میں دنیا کے خاتمے سے قبل پورے کرۂ ارضی پر خلافت علیٰ منہاج النبوۃکے قیام کی خوشخبری دی گئی ہے تو وہاں کے ایک جید عالم دین مولانا الطاف الرحمن بنوی صاحب (جو کچھ عرصہ پہلے ہمارے ہاں قرآن اکیڈمی لاہور میں مدرس کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں )نے گفتگو کے دوران اعتراف کیا کہ یہ احادیث ہمارے علم میں بھی نہیں ہیں ‘ اس لیے کہ دینی مدارس میں کتب ِحدیث کے شروع کے ابواب تو بڑے اہتمام سے پڑھائے جاتے ہیں اور وضو اور نماز وغیرہ کے مسائل پر بڑی تفصیلی بحثیں کی جاتی ہیں کہ مختلف مسالک ومذاہب میں فقہی اختلافات کے دلائل کیا ہیں اور ان کے ضمن میں ہماری ترجیح کیا ہے اور اس کے کیا دلائل ہیں ‘ لیکن آخر میں کتاب الفتن ‘ کتاب الملاحم اور کتاب اشراط الساعۃوغیرہ پر پہنچتے پہنچتے سارا زور صرف ہوچکا ہوتا ہے او ر ان ابواب کو سرسری طور سے پڑھ لیا جاتا ہے اور ان میں کوئی دلچسپی نہیں لی جاتی . یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں علماء کے نام سے جو لو گ جانے پہچانے جاتے ہیں وہ بھی ان چیزوں سے بڑا ذہنی بُعد رکھتے ہیں اور مستند علماء دین کی اکثریت بھی ان سے بڑی حد تک ناواقف ہے . چنانچہ میں مناسب سمجھتاہوں کہ اس ضمن میں جو مغالطے پید اہوئے ہیں اور لوگوں کو جو اشکالات پیش آرہے ہیں ان کے ازالے کے لیے میں اس موضوع پر ذرا مفصل گفتگو کروں .