ختم نبوت سے پیدا ہونے والاخلا کیسے پُر کیا گیا؟

مہدی ٔ موعود کے بار ے میں پہلے یہ بات جان لیجئے کہ محمد رسول اللہ  پر نبوت کا سلسلہ ختم ہونے سے رحمت ِخداوندی کا جو باب بند ہوا‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تلافی کس طور سے کی گئی ؟اللہ تعالیٰ نے اس خلا کو تین چیزوں سے پُر کیا :
ِ

۱.حفاظت ِمتن قرآن

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متن کی حفاظت کا خود ذمہ لے لیا کہ اس میں تحریف نہیں کی جاسکتی .انتہائی پُر فتن دور میں جبکہ قرآن کی تعلیمات کو فراموش کردیا جائے گا ‘ ا س وقت بھی اس کا متن محفوظ رہے گا . میں آپ کو حدیث سنا چکا ہوں : ’’لا یَبقیٰ مِن القرآنِ اِلّا رَسمُہ‘‘ شیطانِ لعین اور اس کی ساری صلبی ومعنوی ذریت خواہ جتنا چاہے زور لگا لے‘ قرآن مجید محفوظ رہے گا‘ تاکہ طالب ِ ہدایت کے لیے ایک منارۂ ہدایت ہمیشہ موجود رہے . اس میں شک نہیں کہ اس سے پہلے تورات اور انجیل بھی اللہ کی نازل کردہ کتابیں تھیں ‘ لیکن اللہ نے ان کی حفاظت کا کوئی ذمہ نہیں لیا . یہ معاملہ صرف قرآن مجید کے ساتھ مخصوص ہے کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر:۹’’ یقینا ہم ہی نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں . ‘‘اس ایۂ مبارکہ کا پہلا حصہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ کا اطلاق تو دیگر کتب سماویہ پر بھی ہوتا ہے ‘ لیکن دوسرا حصہ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ صرف قرآن حکیم پر منطبق ہوتا ہے .

۲.مجددین ِ اُمت کا سلسلہ :

ختم نبوت سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے ضمن میں دوسری چیز مجددین ِ امت کا سلسلہ ہے. حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ فِی ھٰذِہ الُامَّۃِ علٰی رأس کُلِّ مِائَۃِ سَنۃٍ مَن یُجَدِّدُ لھَا دینَھا (ابوداؤد) 
’’یقینا اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے سرے پر ایک ایسی شخصیت کو اٹھاتا رہے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کو تازہ کر دے گی.‘‘

مطلب یہ کہ دین پر جب سوبرس کی مدت گزر جاتی ہے تو اس پر کچھ خارجی اثرات آجاتے ہیں. کچھ خارجی فلسفوںکا غبار اور کوئی بدعات کا طوفان اس کی اصل ہیئت کو تبدیل کرسکتا ہے . یہ سب کچھ دشمنی اور بد نیتی سے بھی ہوسکتا ہے اور دوستی میں اور نیک نیتی سے بھی ہوجاتا ہے . مثلاًحضرت مسیحؑ کے پیروکاروں سے نیکی میں غلو ہوگیا تو رہبانیت ایجاد ہوگئی . چنانچہ محمدٌ رسول اللہ کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ 
لَارَھْبَانیۃَ فِی الاسلامِ ’’اسلام می کوئی رہبانیت نہیں‘‘اور یہ کہ النّکاحُ مِن سُنَّتی ’’نکاح میری سنت میں سے ہے ‘‘اور مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنّی ’’جسے میر ا طریقہ پسند نہیں ا س کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں .‘‘تجدید کا مطلب تازہ (renew) کر دینا ہے اور مجدد کا کا م یہ ہوتا ہے کہ دین پر جو بھی خارجی اثرات اور گردوغبار آجائے اسے ہٹا کر دین کا اصل رخ روشن ‘جیسا کہ وہ ہے ‘ دنیا کے سامنے پیش کردے . مجددینِ امت کے بارے میں میں مزید چند باتیں بعد میں عرض کروں گا .

۳ .حق پر قائم جماعت

اس امت کے لیے تیسری ضمانت یہ دی گئی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایک گروہ ضرور حق پر قائم رہے گا . یعنی اگر ایک طرف ہدایت ِ نظر ی قرآن مجید میں محفوظ رہے گی تو دوسری طرف ہدایت عملی کے نمونے بھی ضرور موجود رہیں گے ‘ خواہ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہوں . چنانچہ حضر ت معاویہؓ سے مروی حدیث ہے ‘ جسے بخاریؒ ومسلمؒ دونوں نے روایت کیا ہے کہ :

سمعت النبی  :
یقول : لَا یَزالُ مِن اُمّتِی اُمَّۃٌ قائِِمۃٌ باَمرِاللّٰہ… وَفی روایۃٍ : قَائمِینَ بِالْحَقِّ …لَا یَضُرُّھُم مَن خَذَلَھُم وَلا مَن خَالفَھُم ‘ حتّی یَاتِیَ اَمرُاللّٰہِ وَھُم علٰی ذٰلک ( متفق علیہ) 
’’حضرت معاویہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی  کو یہ فرماتے ہوئے سنا :میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت اللہ کے امر پر قائم رہے گی . ایک دوسری روایت میں ’’حق پر قائم ‘‘کے الفاظ ہیں …ان کو نہ تو وہ لوگ نقصان پہنچا سکیں گے (جو ان کے اعوان وانصار بننے کے بعد )ان کا ساتھ چھوڑ جائیں اور نہ ہی وہ لوگ جو ان کی مخالفت پر اتر آہیں. یہاںتک کہ اللہ کی بات پوری ہوجائے اور وہ اسی پر قائم رہیں گے .‘‘

یہ تیسری ضمانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ختم ِنبوت سے پیدا ہونے واے خلا کو پُر کرنے کے لیے دی ہے کہ اہل حق کی ایک جماعت ہمیشہ موجو د رہے گی . (یہ دوسری بات ہے کہ ہرزمانے میں اس کا نام اور عنوان بدلتا رہے گا ). 

مجددینِ امت کے سلسلے اور اہلِ حق کی جماعت کے مابین ربط وتعلق کو اس طرح سمجھئے کہ ایک وقت میں ایک مجدد کھڑا ہوا اور اس نے تجدید کا کام کیا تو کچھ لوگ اس کے ساتھی بن گئے . جیسے حدیث نبویؐ کی رو سے ہر نبی کے کچھ ساتھی اور کچھ حواری ہوتے تھے . صحیح مسلم میں حضر ت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی یہ حدیث وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا : 

مَا مِن نبیٍّ بعَثہُ اللّٰہُ فِی اُمَّۃٍ قَبلی اِلَّا قَبلی اِلَّاکانَ لہٗ مِن اُمّتِہٖ حوارِیُّونَ وَاَصحابٌ، یَاْخُذونَ بسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُونَ بِامْرہٖ… 

’’کوئی نبی ایسے نہیں گزرے جنہیں اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث کیا ہو، مگر یہ کہ اس لئے اس کی امت میں سے کچھ (لوگ نکلتے تھے جو اس کے) حواری اور اصحاب ہوتے تھے. وہ اس کی سنت کو مضبوطی سے پکڑتے تھے اور اس کے حکم کے مطابق چلتے تھے…‘‘

اسی طرح کا معاملہ مجددین کا ہے کہ جب بھی کوئی مجدد اُٹھتے تھے تو ان کی تجدیدی مساعی اور 
جدوجہد میں کچھ لوگ ضرور ان کے ساتھ ہو جاتے تھے ‘جو ان کی بات سنتے تھے ‘ ان کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے تھے ‘ ان کے اعوان وانصار اور مددگار بنتے تھے ‘دامے درمے اور سخنے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے تھے ‘ چنانچہ ان سے ایک جماعت وجود میں آجاتی تھی ‘ لیکن ایک مدت گزرنے کے بعد یہ جماعت اخلاقی و عملی انحطاط کا شکار ہوجاتی تھی .ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے ‘بلکہ انبیاء کرام (علیہم السلام ) کی بنائی ہوئی جماعتیں بھی ان کے اضمحلال کا شکار ہوجاتی رہی ہیں . خود محمد رسول اللہ نے جو جماعت بنائی وہ بھی تین چار نسلوں کے بعد زوال وانحطاط میں مبتلا ہوگئی تو تابہ دیگراں چہ رسد !چنانچہ یہی معاملہ مجددین امت کا ہوتا ہے . ایک صدی میں قریباً تین چار چار نسلیں گزرتی ہیں ‘ اس کے بعد پھر نئے مجدد کی ضرورت پیش آ جا تی ہے. ہوتا یہ کہ ایک شخص حق کو حق سمجھ کرFace value پر اسے قبول کرتا ہے.

اس کے لیے اسے کچھ چھوڑنا بھی پڑتا ہے ‘ کچھ لوگوں کی ناراضی بھی مول لینی پڑتی ہے . لیکن اس کی آئندہ نسل یہ سمجھتی ہے کہ یہ چونکہ ہمارے باپ کا مسلک تھا اس لیے اب ہمیں بھی یہی اختیار کرنا ہے . ان کا اسے اختیار کرنا Face Value پر نہیں بلکہ عصبیت کی بنیاد پر ہوتا ہے . جب یہ گروہ کچھ منظم ہوجاتا ہے تو ان کی آپس کی دوستیاں ‘ رشتہ داریاں ‘ کاروبار ‘ ادارے اور مشترکہ مفادات انہیں باہم قریب رکھتے ہیں ‘ جبکہ تیسری نسل محض ان مفادات کی خاطر اس جماعت سے وابستہ رہتی ہے اور پھر یوں سمجھ لیجے کہ بیڑا غرق ہوجاتا ہے . اب اس جماعت کی حیثیت محض ایک فرقے کی رہ جاتی ہے . اس کے بعد اللہ تعالیٰ پھر کسی کو اٹھاتا ہے تو ان میں سے جن کے اندر بھی کچھ جان ہوتی ہے وہ اس کے پاس آجاتے ہیں . ان کے علاوہ کچھ نئے لوگ آتے ہیں اور ایک نئے عنوان سے کام پھر شروع ہوجاتا ہے . 

یہ سلسلہ اسی انداز سے چلتا رہتاہے جیسے اولمپک ٹارچ لے کرایک کھلاڑی دوڑتا ہے اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد دوسرے کھلاڑی کو دے دیتاہے . دوسرا کھلاڑی یہ ٹارچ تیسرے کھلاڑی کے سپرد کردیتا ہے . اس طر ح کھلاڑی اگرچہ بدلتے رہتے ہیںلیکن وہی ٹارچ آگے بڑھتی رہتی ہے . اسی طرح کا معاملہ شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے ڈاک کے نظام کاتھا . آپ اندازہ کیجئے کہ آج سے پانچ سو برس پہلے اس نے ڈھاکہ سے پشاو ر 
تک جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ)تعمیر کروائی اور ڈاک کا نظام قائم کیا.

ہر تیس میل کے فاصلے پر ایک چوکی ہوتی تھی جہاں تازہ دم گھوڑے اور سوار موجود ہوتے . ایک گُھڑ سوار ڈاک کا تھیلا لے کر ایک چوکی سے دوسری چوکی تک سرپٹ دوڑتا اور اگلی چوکی سے دوسرا سوار اسی تھیلا کو لے کر برق رفتار ی سے روانہ ہوجاتا . اسی طرح ہر چوکی پر گھوڑا اور سوار تبدیل ہوجاتے لیکن ڈاک کا تھیلا وہی رہتا جو ڈھاکہ سے چلا تھا . اسی انداز سے جماعتیں اگرچہ بدلتی رہتی ہیں لیکن دین کا اصل پیغام اور اس کی اصل روح اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی رہتی ہے . او رجیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ ہر تین چار نسلوں کے بعد اس عمل میں تجدید کی ضرورت پیش آجاتی ہے . یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ  نے بھی صرف تین نسلوں کی ضمانت دی ہے ‘ جنہیں ہم ’’قَرونُ مَشھودٌ لھَا بِالخیر‘‘ کہتے ہیں.چنا نچہ حضور  کی مشہور حدیث ہے : خَیْرُ اُمَّتِی قَرنِی، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُم …الخ یعنی میر ی امت کا بہترین دور میر ا دور ہے ‘ پھر وہ لوگ جو ان سے قریب کے دور میں ہوں گے ‘ اور پھر وہ جو ان سے قریب ہوں گے . (یہ حدیث متفق علیہ ہے اور عمران بن حصین ؓ سے مروی ہے )