مجددین کے بارے میں بعض باتیں ایسی ہیں جن پر امت کا اتفاق ہے . مثلاً

(i)حدیث مبارکہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ 
علی رأس کل مائۃ سنۃ توان الفاظ سے صدی کا شروع یاصدی کا آخر مراد نہیں ہے ‘ بلکہ یہ محاورہ ہے اور اس سے مراد ’’ہر صدی کے دوران‘‘ ہے .

(ii)یہ ضروری نہیں کہ ایک وقت میں کوئی ایک شخصیت ہی تجدیدی مساعی میں مصروف ہو‘ بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ جدوجہد بیک وقت کئی لوگ کررہے ہوں . 

(iii) کسی مجدد کو مجدد تسلیم کرنا یا نہ کرنا ایمان اور کفر کا معاملہ نہیں ہے . ایمان اور کفر کا معاملہ کسی نبی کی نبوت کو ماننے یا نہ ماننے سے متعلق ہوتا ہے . چنانچہ غلام احمد قادیانی نے اگر صرف مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہوتا اور وہ نبوت کا دعویٰ نہ کرتا تو اس کی اور اس کی 
امت کی تکفیر نہ ہوتی . لاہوری مرزائی اگرچہ یہ کہتے ہیں کہ ہم مرزا کو نبی نہیں بلکہ صرف مجدد مانتے ہیں ‘ لیکن جب یہ بات ثابت ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو وہ کافر ہوگیا او رکا فر کو مجدد ماننے والا بھی کافر ہے . نبوت کا حد فاصل ہے . سچے نبی کا انکا ر کرنے والا کافر ہے اور جھوٹے نبی پر ایمان لانے والا کافر ہے . اس معاملے میں ’’Give the devil his due‘‘ کے مصداق قادیانیوں کی ہمت او ر جرأت کی داد دینی چاہیے کہ اپنے تیئں ہمیشہ ہمیں کافر قرار دیتے رہے ہیں ‘کیونکہ ہم ان کے نبی کو نہیں مانتے . سرظفر اللہ پاکستان کا وزیر خارجہ تھا اور اس نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا ‘ بلکہ ایک طرف بیٹھا رہا . جب اس سے وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا تھا کہ ’’یا تو مجھے ایک مسلمان حکومت کا کافر وزیر سمجھ لویا کافر حکومت کا مسلمان وزیر !‘‘مجدد کو ماننے کا معاملہ نبوت سے مختلف ہوتا ہے . کسی کو مجدد ماننے یا ماننے سے کو ئی فرق واقع نہیں ہوتا . 

(iv) اکثر مجددین ہونے کا دعویٰ کئے بغیر اپنی تجدیدی مساعی میں مصروف رہے اور بعد میں لوگوں نے سمجھا کہ یہ مجددِ وقت تھے جنہوں نے بہت بڑا کام کیا اور دین کو واقعتا تازہ کر دیا. البتہ بعض مجددین ایسے بھی تھے جنہیں خود بھی اس کا ادراک و شعور تھا کہ وہ مجدد ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی باتیں بھی کیں جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ وقت کے مجدد ہیں. مثلاً شیخ احمد سرہندیؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے ہاں ایسی باتیں ملتی ہیں. معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ!

(V) مجدّدینِ امت کے بارے میں ایک اہم بات میں نے بارہا عرض کی ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کی تاریخ میں پہلے ایک ہزار برس تک سارے کے سارے مجددین عالمِ عرب پیدا ہوئے. پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہیں. ان کے بعد امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہؒ اپنے اپنے وقت کے مجددین تھے. لیکن جیسے ہی دوسرا ہزار سال شروع ہوا تو اس امّتِ مسلمہ کا روحانی اور علمی مرکز ثقل بّرِ عظیم پاک و ہند میں منتقل کر دیا گیا. 
چنانچہ گیارہویں صدی ہجری میں ہندوستان میں دو مجدد ہوئے ہیں. ایک تو مجدّدِ اعظم ہیں، یعنی مجدّدِ الفِ ثانی شیخ احمد سرہندیؒ اور دوسرے شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ . بارہویں صدی کے مجدّدِ اعظم شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہوئے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ہی عالمِ عرب میں شیخ محمد بن عبدالوہابؒ نجدی بھی تھے، اگرچہ ان دونوں کا تقابل کیا جائے تو شاہ ولی اللہؒ کے مقابلے میں شیخ محمد عبدالوہاب نجدیؒ بالکل بونے نظر آتے ہیں.

لیکن بہرحال وہ بھی مجدد تھے، انہوں نے مشرکانہ عقائد، غلط روایات، غلط رسومات اور بدعات کے انبار کو صاف کیا. تیرہویں صدی ہجری کے مجددین وہ تھے جنہوں نے مغربی استعمار کے خلاف تلوار اٹھائی. ان میں سوڈان کے مہدی سوڈانی اور لیبیا کے سنوسی بھی تھے، لیکن عظیم ترین مجدد اس خِطّۂ ہند سے سید احمد شہید بریلویؒ تھے، ان کے ساتھ شاہ اسماعیل شہیدؒ بھی تھے. یہ پہلے پنجاب کو سکھوں سے پاک کرنے کے بعد پھر انگریز سے نبرد آزمائی چاہتے تھے، لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا. ان کی تحریک ‘‘تحریکِ شہیدین‘‘ اگرچہ دنیوی اعتبار سے ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، وہ تو مرتبۂ شہادت سے سرفراز ہو کر کامیاب ہو گئے. میں کہا کرتا ہوں کہ بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جو دنیوی اعتبار سے بظاہر ناکام چلے گئے، مجدد تو پھر مجدد ہیں. 

میرے نزدیک چودھویں صدی کے مجددِ اعظم شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تھے، البتہ ان کے ساتھ ساتھ بعض دیگر حضرات کی تجدیدی مساعی بھی بہت اہم ہیں. ان میں ایک شخصیت علامہ اقبال کی ہے جو اگرچہ داڑھی مُنڈے تھے اور ان کا عمل کا پلڑا (ان کے فکر کے مقابلے میں) بہت ہلکا تھا، لیکن ع ’’اگرچہ سرنہ تراشد قلندری داند!‘‘ کے مصداق انہوں نے فکرِ اسلامی کی تجدید کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا. اسی طرح ابوالکلام آزاد نے ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء کے دوران لوگوں کو قرآن کی طرف راغب کرنے کے لئے جتنی زور دار دعوت دی اس کی پوری اسلامی تاریخ میں مثال نہیں ملتی. اس اعتبار سے انہیں دعوتِ قرآنی کا مجدد قرار دیا جا سکتا ہے. یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں وہ علماء کے طرز عمل سے مایوس اور بد دل ہو کر کانگریس میں شامل ہو گئے کہ یہ مولوی نہ خود کچھ کریں گے نہ کسی دوسرے کو کچھ کرنے دیں گے. انہیں میں ایک شخصیت سید ابوالاعلیٰ مودودی 
کی ہے جو میرے نزدیک تحریک اسلامی کے مجدد ہیں. انہوں نے جماعت اسلامی کے نام سے ایک اصولی اسلامی انقلابی جماعت قائم کی جس میں ایسے پاکباز لوگ شامل ہوتے جو پہلے اپنی معاش اور معاشرت کو حرام سے پاک کر کے آتے. یہ نہیں تھا کہ اپنے وجود پر تو اسلام کا نفاذ نہ ہو، اپنے گھر میں اسلامی معاشرت کا نقشہ نظر نہ آئے، معاش میں حرام کی آمیزش بھی ہو، لیکن اسلام کا نعرہ بھی لگا رہے ہوں. مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت آج کی جماعت اسلامی سے بہت مختلف تھی. آج سبابِ ملی اور پاسبان کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تو اُس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.

اسی طرح تبلیغ دین کے ضمن میں مولانا الیاس کی تجدیدی مساعی اس قدر اہم ہیں کہ انہیں مجدد تبلیغ قرار دیتا ہوں. ورنہ تبلیغ تو ایک پیشہ بن چکی تھی. پیشہ ور مبلغ اجرت لے کر فرقہ وارانہ تقریریں کرتے اور مختلف فرقوں کے مبلغ دوسرے فرقوں پر کفر کے فتوے لگاتے. اس طرح کی ’’تبلیغ‘‘ کا نقشہ ہمیں آج بھی کہیں کی ’’عظیم الشان تبلیغی کانفرنس‘‘ میں نظر آ جاتا ہے جہاں رفع یدین کے حق میں یا اس کے خلاف دلائل دیئے جا رہے ہوتے ہیں یا تعدادِ تراویح کا مسئلہ زیر بحث ہوتا ہے. اُس دور میں ’’تبلیغ‘‘ کا یہ انداز بہت عام تھا اور مولوی مرغوں کی طرح لڑتے تھے اور پیسے لیتے تھے. کہتے ہیں کہ گڈا چلتے چلتے دلدل میں کسی کھانچ کے اندر جا کر پھنس جائے تو اسے نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے. لیکن مولانا الیاس جیسے نحیف الحبثہ انسان نے تبلیغ کے اس گڈے کو دلدل سے نکالا اور ایسے مبلغینِ دین کی جماعت تیار کی جو بغیر کسی تنخواہ کے، اپنا راشن اور اپنا کرایہ خرچ کر کے تبلیغ کے لئے نکلتے.

آج اس انداز پر تبلیغ کے عنوان سے دنیا میں لاکھوں آدمی گردش میں ہیں. مولانا الیاس نے اس عظیم کام کا آغاز تن تنہا کیا تھا. ہندوستان میں جب شدھی کی تحریک چلی تو جو علاقے اس سے شدید متاثر ہوئے ان میں میوات کا علاقہ بھی تھا. دراسل بہت سے ایسے لوگ جن کے آباء و اجداد کسی صوفی بزرگ کی کرامات دیکھ کر ایمان لے آئے تھے لیکن اکی تعلیم و تربیت اسلام کے مطابق نہ ہو سکی، ان کا حال یہ تھا کہ وہ اسلامی تعلیمات سے بالکل بیگانہ تھے، بلکہ ان میں سے بہت سوں کو تو کلمہ بھی نہیں آتا تھا، ان کے نام بھی کچھ مسلمانوں کے سے تھے اور کچھ ہندوؤں کے سے. ہندوؤں کے لئے ایسے مسلمانوں کا شکار کرنا اور انہیں شدھی کر لینا بہت آسان تھا. جب ایسے لوگ دھڑا دھڑ شدھی ہونے لگے تو ہندوستان میں تہلکہ مچ گیا اور مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی. چنانچہ ان علاقوں میں تنخواہ دار مبلغ بھجوائے گئے، لیکن وہ بھلا کہاں دیہات کی خاک چھانتے. ملازم آدمی کی ایک اپنی ذہنیت ہوتی ہے، اسے تو بس اپنے ٹی اے، ڈی اے سے غرض ہوتی ہے. لہٰذا وہ ایک گائوں میں تقریر کر کے رپورٹ میں دس دیہات کا دورہ لکھ دیتے. چنانچہ اس تبلیغ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا.

ان حالات میں مولانا الیاسؒ کو ایک عجیب احساس ہوا، اور یہ اس طرح کا احساس تھا جو سیب کو اوپر سے نیچے کی طرف گرتے دیکھ کر نیوٹن کو ہوا تھا اور اس نے زمین کی کششِ ثقل کا راز معلوم کر لیا تھا، یا چولہے پر رکھی دیگچی کا ڈھکنا ہلتے دیکھ کر جارج سٹیفن کے ذہن میں پیدا ہوا تھا اور اس نے بھاپ کی طاقت کا اندازہ کر کے سٹیم انجن ایجاد کر لیا تھا. ہوا یوں کہ مولانا الیاس ایک روز مسلمانوں کی حالتِ زار پر متفکر بیٹھے تھے کہ انہیں چند میواتی اپنے گاؤں میں مزدوری کے لئے آتے دکھائی دیئے. مولانا نے ان سے پوچھا کہ بھائی تمہیں کتنی مزدوری ملے گی؟ انہوں نے بتایا کہ دو آنے روزانہ. اس پر مولانا نے ان سے کہا کہ اچھا بھائی، دو دو آنے تم مجھ سے لینا اور آج کا دن تم میرے پاس رہو. مولانا نے ان میواتیوں کو وضو کرنا سکھایا، نماز سکھائی، ان کا کلمہ درست کیا اور شام کو انہیں دو دو آنے دے دیئے. پھر یہ مولانا روز کا معمول بن گیا. پھر ان میں سے کچھ لوگ نکل آئے جنہوں نے اپنا وقت فارغ کیا اور اب وہ کلمے کی تحریک بن گئی. یہ لوگ بستی بستی جاتے، جنہیں کلمہ نہیں آتا تھا انہیں کلمہ سکھاتے، لوگوں کو نماز سکھاتے اور نماز پڑھنے کی تلقین کرتے، غیر آباد مسجدوں کو صاف کر کے انہیں آباد کرنے کی کوشش کرتے. 

یہ وہ عظیم شخصیتیں ہیں جو چودھویں صدی میں ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوئیں، جبکہ پوری دنیا میں ان کا کوئی پاسنگ بھی نظر نہیں آتا. ایک استثناء حسن البناء شہید کا ضرور ہے جو تحریک اسلامی کے مجدد کی حیثیت سے عالمِ عرب میں ابھرے، لیکن میرے نزدیک مولانا مودودی کی شخصیت اور حسن البناء کی شخصیت کے مابین وہی نسبت ہے جو شاہ ولی اللہ اور محمد بن عبدالوہاب کی شخصیتوں کے مابین ہے. حسن البناء اگرچہ جوش اور 
جذبے میں تو مولانا مودودی سے بہت آگے ہیں، لیکن وہ نہ مصنف ہیں، نہ صاحبِ تفسیر ہیں، اور نہ ہی مفکر ہیں.

اس کے بعد اب پندرہویں صدی کے مجددین کا معاملہ سمجھ لیجئے. میرے گمان میں اس صدی کا مجددِاعظم وہی شخص ہو گا جس کے بارے میں احادیث نبویہؐ میں ’’مہدی‘‘ کا لفظ آیا ہے. آج زمانہ چلتے چلتے جس مقام پر پہنچ چکا ہے اور دنیا کے حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں ان کے پیش نظر مجھے امید ہے کہ عنقریب جزیرہ نمائے عرب میں ان کے منظر عام پر آنے کا معاملہ ہو جائے گا. اس ضمن میں میں چند احادیث پیش کروں گا، لیکن پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اہلِ تشیع اور اہل سُنّت کے نزدیک مہدی کے تصور میں بہت فرق ہے.