یہ تو وہ چیزیں ہیں جو اہل سنت کے نزدیک متفق علیہ ہیں. رہا یہ سوال کہ وہ کب آئیں گے؟ اور آیا کی پیدائش ہوچکی ہے؟ اس بارے میں قیاس آرائی تو ہو سکتی ہے، یقین کی بنیاد پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی. تاہم میرا قیاس ہے بلکہ گمان غالب ہے کہ ان کی پیدائش ہو چکی ہے. اس لئے کہ میں حالات کو دیکھ رہا ہوں. گزشتہ چار سوسال کی تاریخ میری نگاہوں کے سامنے ہے. کتاب الفتن، کتاب الملاحم اور کتاب علاماتِ قیامت (اشراط الساعۃ) میں شامل احادیث میرے سامنے ہیں. علامہ اقبال نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف‘‘. میں نے اپنے لئے علامہ کے اس شعر میں کچھ ترمیم کی ہے. علامہ خاکِ نجف سے حضرت علیؓ مراد لیتے ہیں جبکہ میرے نزدیک حضرت علیؓ بھی اصلاً خاک مدینہ ہی کے گلِ سرسبد ہیں. میں اسے خاکِ حجاز سے تعبیر کرتا ہوں. میں اسے یوں پڑھوں گا: ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ حجاز و حولِ قدس‘‘. حولِ قدس کیا ہے؟ بیت المقدس کا ماحول، جس کے بارے میں فرمایا گیا: 

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾ 
یہ علاقہ اڑھائی ہزار برس تک نبیوں کا مسکن رہا، سینکڑوں نبی یہاں پیدا ہوئے، سینکڑوں نبیوں نے یہاں وحدت کا گیت گایا اور توحید کا نعرہ بلند کیا. مجھے اقبال کا ایک مصرع یاد آ گیا: ع ’’چشتی نے جس زمیں میں وحدت کا گیت گایا‘‘. بہرکیف یہی وہ سرزمین ہے جس میں حضرت دائود علیہ السلام نے اللہ کی حمد کے ترانے الاپے تھے. پہاڑ اور پرندے ان ترانوں کو سن کروجد میں آ جاتے تھے. اسی زمین میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ دفن ہیں. اسی زمیں میں بنی اسرائیل کے سینکڑوں انبیاء دفن ہوئے. یہی وہ سرزمین ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے مواعظ کی امین ہے. اسی سرزمین کے بارے میں قرآن نے کہا: ’’الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ ‘‘ سرزمینِ حجاز ہو یا ارضِ فلسطین دونوں کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے. حضرت ابراہیمؑ سے ایک شاخ ان کے بڑے بیٹے اسماعیل ؑ کے ذریعے چلی. وہ حضاز میں آباد ہوئے. اسی سرزمین میں آنحضور کی پیدائش ہوئی اور حضرت علیؓ کا تعلق بھی اسی علاقے اور حضرت ابراہیم ؑ کی اسی شاخ سے ہے. اسی اعتبار سے امیں اس ترمیم شدہ شعر میں حضرت علیؓ کو حضور سے علیحدہ نہیں سمجھتا کہ ’’حجاز‘‘ کا لفظ دنوں کو شامل ہے. اسی سرزمین میں آنحضور پر قرآن کا نزول ہوا. ’’حولِ قدس‘‘ سے مراد فلسطین کا وہ علاقہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحٰق آباد ہوئے اور جو سینکڑوں انبیاء کا مسکن اور سابقہ امت کا مرکز بنا. متعدد آسمانی کتابیں اس علاقے میں اتریں. میں نے اسی حوالے سے اس مصرعے میں ’’حجاز‘‘ کے ساتھ ’’حَولِ قُدس‘‘ کو شامل کیا ہے کہ ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ حجاز و حولِ قُدس!‘‘

بہرکیف قرآن و حدیث ہی نہیں سابقہ آسمانی کتابوں کے مطالعے کی بنیاد پر اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے میں یہ بات قریباً یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب حضرت مہدی کے زیر قیادت عرب مسلمان یہودیوں کے خلاف صف آراء ہوں گے. دیکھئے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہمارا یقین ہے، لیکن اسے دیکھا تو کسی نے نہیں ہے. ہاں قرائن سے اسے پہچانا ہے، آیات سے پہچانا ہے: 

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا 
یہ آیاتِ آفاقی جو ہمارے گرد و پیش پھیلی ہوئی ہیں، ان کے ذریعے اللہ کو پہچانا ہے. تو موجودہ حالات پر اگر نگاہ ہو اور جو علامات احادیث کے اندر بیان ہوئی ہیں، ان پر اگر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل حق و باطل کا جو آخری معرکہ (Final Show down) ہونے والا ہے، جو درحقیقت یہود اور مسلمان کے درمیان ہو گا، وہ اب بہت قریب آ چکا ہے. یہود کے مذہبی عناصر کا شدید دباؤ ہے کہ یہودیوں کی ریاست کے قیام کے بعد اب فی الفور تھرڈ ٹمپل تعمیر ہونا چاہیے. یعنی ہیکل سلیمانی کو اس کی بنیادوں پر تیسری بار تعمیر کیا جائے، جس کے لئے لازم ہے کہ مسجدِ اقصیٰ گرائی جائے. اس کے قریب جو سرنگ ہے وہ اب اسرائیلی ریاست نے کھول دی ہے، ہفتے میں پانچ دن کھلی رہے گی اور دو دن یعنی سَبت اور سَنڈے کو بند رہے گی. گویا مسجد کو گرانے کا سامان کر لیا گیا ہے.

اب کسی دن مذہبی یہودیوں میں سے کوئی جنونی جائے گا، جیسا کہ اس سے قبل ایک موقع پر مسجد خلیل میں جا کر ایک یہودی نے کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اور پھر خودکشی کر لی تھی، اسی طرح کا کوئی جنونی جائے گا، اور اس سرنگ میں کوئی بڑا دھماکہ کر دے گا، خود بھی ختم ہو جائے گا اور مسجد اقصیٰ بھی منہدم ہو جائے گی. اسرائیلی حکومت یہ موقف اختیار کرے گی کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں، یہ جنونی آدمی تھا، اس طرح کے پاگل ہر جگہ ہوتے ہیں، عیسائیوں میں بھی، مسلمانوں میں بھی اور یہودیوں میں بھی، ہمارے ہاں کا بھی ایک پاگل تھا جس نے یہ حرکت کی. تاہم اب جبکہ یہ مسجد منہدم ہو ہی گئی ہے تو ہمیں اپنا ٹمپل تعمیر کرنے دو. اس کا ریہرسل اس سے قبل ہندوستان میں ہو چکا ہے کہ بابری مسجد جب کچھ ہندو جنونیوں نے گرا ہی دی تو بابا اب رام مندر ہی بنانے دو. یہی معاملہ اب یروشلم میں ہونے والا ہے. اس کے بعد جو طوفان اٹھے گا اور عالم عرب کے مخلص مسلمان جس طرح ایک دم اٹھ کھڑے ہوں گے، چشمِ تصور سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے. ہمارے یہاں خلافت کانفرنس میں نیویارک سے جو مہمان مقرر تشریف لائے تھے، عمران این حسین، جنہوں نے بحمداللہ تنظیم اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے، انہوں نے گزشتہ رات قرآن آڈیٹوریم میں اپنی تقریر کے دوران بعض بہت پتے کی باتیں کی ہیں.

انہوں نے فتنہ دجال پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ قربِ قیامت کے واقعات کے ضمن میں بعض احادیث میں حج کے موقوف ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے کہ حج بند ہو جائے گا، اور اس کے آثار موجود ہیں، اس لئے کہ سعودی عرب کے اندر حالات اب خاصے مخدوش ہیں. ماضی قریب میں دوبم دھماکے امریکیوں کے خلاف ہو چکے ہیں اور دوسرے دھماکے میں تو بیس افراد مارے گئے. اس کے بارے میں امریکہ کی سی آئی اے کی رپورٹ یہ ہے کہ یہ کسی باہر کے آدمی کا کام نہیں ہے بلکہ سعودی فوج کے اندر کے بعض عناصر نے یہ کام کیا ہے. آخر سعودی فوجیں مسلمان ہیں. یہودیوں اور عیسائیوں کی
وہاں موجودگی انہیں یقینا کھلتی ہو گی. اگر ان میں سے اکثر بے غیرت ہو گئے ہوں تب بھی ان میں کچھ افراد تو غیرت مند بھی ہوں گے. لہٰذا اندیشہ ہے کہ کوئی بہت بڑا طوفان وہاں آنے والا ہے. اور فرض کیجئے، جیسا کہ گمانِ غالب ہے، شدید اندیشہ ہے کہ اگلے سال ۹۷ء میں مسجد اقصیٰ شہید کر دی جائے گی. اس کے لئے فضا ہموار کی جا رہی ہے. ٹی وی پر ایک فلم دکھائی جا رہی ہے جس میں وہ سرنگ (tunnel) دکھائی گئی ہے جو مسجد اقصیٰ کے نیچے کھولی گئی ہے، کہ یہاں پہلے ان کا ٹمپل ہوتا تھا جس کے انہدام کے بعد اس جگہ مسلمانوں نے مسجد تعمیر کر لی.

اس طرح رائے عامہ کو ہموار کیا جا رہا ہے اور یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ اسی جگہ پر تھا، اسے سب سے پہلے گرایا تھا بخت نصر نے، پھر اسے حضرت عزیز ؑ نے تعمیر کیا، پھر دوبارہ گرایا ٹائٹس رومی نے ۷۰ء میں، اس کے بعد سے آج تک وہ گرا پڑا ہے. مسلمانوں نے اگرچہ اسے نہیں گرایا لیکن یہ کہ اس جگہ پر مسجد ضرور تعمیر کی ہے. بہرھال اس حوالہ سے اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کے نتیجے میں عالم عرب کے اندر ایک زبردست خلفشار پیدا ہو گا. یہ حدیث میرے سامنے پہلے بھی تھی، کئی دفعہ میں نے تقاریر میں اس کا حوالہ بھی دیا کہ حضور نے ایک دفعہ خواب کی کیفیت میں کچھ دیکھا اور پھر آپؐ چونک کر اٹھے اور آپؐ نے فرمایا: وَیْلٌلِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ فَدِاقْتَرَبَ ’’ ہلاکت اور بربادی ہے عربوں کے لئے اس شر سے کہ جو قریب آ چکا ہے‘‘. تو ابھی تک کوئی خاص ایسا شرعربوں کے لئے مجموعی طور پرنہیں آیا جس پر اس حدیث کا طلاق کیا جا سکے. میرے نزدیک اس حدیث میں اسی ’’الملحمۃ المعظمٰی‘‘ کی طرف اشارہ ہے جس میں سب سے بڑی تباہی عربوں پر آئے گی (واللہ اعلم). بعض اور احدیث سے بھی اسی جانب رہنمائی ملتی ہے. 

میری اس قیاس آرائی کی کہ حضرت مہدیٔ موعود کی آمد اب زیادہ دیر کی بات نہیں، تائید سعودی عرب میں سعودی شاہی خاندان کی موجودہ صورتحال سے بھی ہوتی ہے. یہ ایک قابل تردید حقیقت ہے کہ آل سعود کی حکومت میں جو تسلسل اور استحکام ہے اس کا راز اس میں مضمر ہے کہ ان کے ہاں جا نشینی کا معاملہ ابھی تک طے شدہ اصولوں کے مطابق چل رہا ہے. ملک عبدالعزیز بن سعود کے بیٹوں میں سے ولی عہدی کی ترتیب پہلے 
سے طے شدہ ہے، ایک بھائی کے بعد دوسر اور دوسرے کے بعد تیسرا عنانِ حکومت سنبھالتا چلا آ رہا ہے. بھائیوں کی قطار ماشاء اللہ خاصی لمبی ہے لہٰذا اگلی نسل میں ابھی یہ معاملہ منتقل ہونے کی نوبت نہیں آئی. جیسے ہی کوئی نیا بادشاہ تخت نشین ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے ولی عہد کا اعلان بھی اسی وقت کر دیا جاتا ہے تاکہ اگر شاہ کی اچانک موت واقع ہو جائے تو ولی عہد فوراً چارج سنبھال لے اور کوئی بحرانی صورتحال پیدا نہ ہونے پائے.

یہ ان کی خاندانی روایت ہے اور ان کے ہاں اب تک یہی معاملہ ہوتا رہا ہے لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ شاہ فہد کا جو ولی عہد ہے وہ امریکہ کو پسند نہیں ہے. پرنس عبداللہ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ کچھ مذہبی مزاج کا آدمی ہے اور اسے فنڈامنٹلسٹ سمجھا جاتا ہے. امریکہ چاہتا ہے کہ فہد کے بعد اس کی بجائے کسی اور کو تاج و تخت سونپا جائے جو امریکی مفادات اور عزائم کے راستے کی رکاوٹ ثابت نہ ہو. اگر طاقت کے نشے میں امریکہ نے یہ حماقت کی اور اپنے دباؤ کے ذریعے سعودی روایات کے برعکس موجودہ ولی عہد کے بجائے کسی اور کو فہد کی جگہ تخت پر بٹھایا تو شدید اندیشہ ہے کہ وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی. اور اس خانہ جنگی کے دوران ایک شخصیت ابھرے گی اور وہ مہدی ہوں گے.