مہدیٔ موعود، احادیث کے آئینے میں

اب ہم حضرت مہدی کے بارے میں چند احادیث نبویہ کا مطالعہ کرتے ہیں. 
عن عبداللہ بن مسعودؓ قال قال رسولُ اللّٰہ : 
لَا تَذْھَبُ الدُّنیا حتّٰی یَمْلِکَ العربَ رجلٌ مِن اہلِ بَیتِی یُواطِیُٔ اسْمُہٗ اسْمِی (رواہ الترمذی و ابوداؤد) 
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص عرب کا بادشاہ نہ بن جائے. اس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا.‘‘

اب دیکھئے حضور کے بعد آج تک تو آپؐ کے اہل بیت میں سے کسی کی بادشاہت 
عرب پر قائم نہیں ہوئی. خلفائے راشدہ میں سے حضرت علیؓ آپؐ کے اہل بیت میں سے تھے، لیکن ان کی حکومت بھی پورے عرب پر قائم نہیں ہو سکی. بنوامیہ اور بنو عباس بھی آپؐ کے اہل بیت میں سے نہ تھے. تو یوں سمجھئے کہ اہل بیت کا لفظ نسل سے ہو گا. پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کا نام میرے نام پر ہو گا. یہ روایت جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں موجود ہے. جبکہ ابوداؤد کی ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

لَوْلَمْ یَبْقَ مِنْ الدُّنیا اِلّا یَومٌ یطولُ اللّٰہ زٰلک الیَومَ، حتّٰی یَبعثَ اللّٰہُ فیہ رجلاً مِنّٰ… اواھلِ بَیْتِی… یُواطیُٔ اسْمُہُ اسْمِی وَاسْمُ اَبیہِ اسْمُ اَبِی، یَمْلا الارضَ قِسطًا وعَدلًا کما مُلئِتْ ظُلمًا وجوًرا 


’’اگر دنیا (کی عمر) میں سے صرف ایک دن بھی باقی رہ گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کر دے گا، یہاں تک کہ اس میں اللہ تعالیٰ مجھ سے (یا فرمایا: میرے اہل میں سے) ایک آدمی کو اٹھائے گا، جس کا نام میرے نام کے موافق اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے موافق ہو گا. وہ زمین کو انصاف اور عدل سے بھر دے گا جیسا کہ اس سے پہلے وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی ہو گی‘‘. 

عن امّ سلمۃ ؓ قالت: سمعتُ رسولَ اللّٰہ  یقول: اَلْمَھْدِیُّ مِنْ عِتْرَتِیٗ مِنْ اَوْلَادِ فَاطِمَۃَ 
(رواہ ابوداؤد) 
(ام المومنین) ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’مہدی میری عترت سے، اولادِ فاطمہؓ میں سے ہو گا‘‘. (اسے ابوداؤد نے روایت کیا)

اس حدیث میں ان کا ذکر مہدی کے نام سے آگیا. اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث میں مہدی کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن میں اب سعودی عرب کے خاص حالات کے حوالے سے ایک حدیث بیان کر رہا ہوں. جہاں تک میرا احساس ہے سعودی عرب میں اس وقت 
حالات یہ یہی رخ اختیار کر رہے ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے. واللہ اعلم! اس وقت شاہ فہد کی صحت تقریباً جواب دے چکی ہے اور ان کے انتقال کے بعد وہاں ولی عہد شہزادہ عبداللہ کی تخت نشینی کے مسئلہ پر شدید اختلاف کا اندیشہ ہے. مجھے تو ایک صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب شاہ فہد نے زمامِ حکومت سنبھالی تو اس وقت بھی وہ عبداللہ کو اپنا ولی عہد بنانا پسند نہیں کر رہے تھے اور اس مسئلے پر اس قدر جھگڑا ہوا تھا کہ عبداللہ نے فہد پر گولی چلا دی تھی، لیکن وہ بچ گئے تھے. گویا کہ یہ چپقلش آغاز سے موجود ہے. اگرچہ فہد کو عبداللہ کا ولی عہد بننا پسند نہیں تھا لیکن خاندان کے بڑوں نے یہ طے کیا کہ فہد کے بعد عبداللہ کی باری ہے. اب یہ بھی ممکن ہے کہ عبداللہ کو روکنے کے لئے اسے قتل کرا دیا جائے. سی آئی اے سے یہ بعید نہیں ہے. کوئی اور صورت بھی پیش آ سکتی ہے، لیکن اس کا جو نتیجہ نکلے گا اس کا نقشہ اس حدیث کے اندر دیکھ لیجئے. 
عن امّ سلمۃؓ عنِ النبی قال: یَکُونُ اخْتِلافُ عِندَ موتِ خلیفۃٍ فیَخرجُ رجلٌ مِن اہلِ المدینۃ ھاربًا الٰی مکۃَ، فیأتیہِ ناسٌ مِن اھلِ مکۃَ، فیُخرِ جُونَہٗ وھُو کارٌہٗ فیُبایعُونَہٗ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالمُقامِ 

(الم المومنین) حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: ’’ایک خلیفہ (یعنی بادشاہ) کی موت پر اختلاف واقع ہو جائے گا. چنانچہ اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر (پناہ لینے کے لئے) مکہ چلا جائے گا. اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور وہ اسے نکالیں گے (بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ کعبے کے پردے کے پیچھے چھپا ہوگا) اور وے اسے ناپسند کرتا ہو گا (کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے) پھر وہ رکن (خانہ کعبہ کا وہ کونہ جس میں حجر اسود نصب ہے) اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے…‘‘

ظاہر ہے کہ جب بھی کہیں اس طرح کا انتشار پیدا ہوتا ہے تو جو لوگ اپنی سیاسی آراء کے حوالے سے نمایاں ہوتے ہیں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے. اس حدیث میں جس 
شخصیت کا ذکر ہے وہ بھی کوئی نمایاں شخصیت ہو گی جو اپنی جان بچانے کے لئے مدینے سے جا کر مکہ میں پناہ لے گی. اہل مکہ انہیں پہنچان لیں گے کہ یہی مہدیٔ موعود ہیں. چنانچہ انہیں ان کی پناہ گاہ سے (یعنی بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے سے) نکال کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے. زیرنظر حدیث میں اس کے بعد کچھ جنگوں کا تذکرہ ہے کہ شام سے ان کے خلاف جنگ کے لئے لشکر روانہ ہو گا اسے مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء پر دھنسا دیا جائے گا. جب لوگ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہی مہدی ہیں تو پھر شام، عراق اور عرب کے کونے کونے سے لوگ آکر ان کے ساتھ جمع ہو جائیں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے. پھر کچھ جنگیں ہوں گی جن کے بعد مہدی کی حکومت قائم ہو جائے گی. حدیث کے آخری الفاظ کے مطابق: 

ویُعْمَلُ فِی النّاسِ بِسُنَّۃِ نبیِّھِمْ وَیُلْقِی الْاِسلامُ بِجرَانہٖ فِی الاَرْضِ، فیلبَثُ سبعَ سنِین ثمَّ یُتَوَفیّٰ ویُصَلِیّ علیہِ المُسْلِمُون 
(رواہ ابوداؤد) 
’’(پھر وقت آجائے گا کہ) لوگوں پر ان کے نبی کی سنت کے مطابق حکومت ہو گی اور اسلام زمین پر اپنا جھنڈا نصب کر دے گا. پھر وہ (مہدی) سات سال تک رہیں گے، پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے‘‘.

تو یہ ہیں حضرت مہدی جو عرب کے دورِ خلفشار میں ایک نیک شخصیت کی حیثیت سے ابھریں گے. اہل حق ان کے گرد جمع ہوں گے اور اہل باطل کے ساتھ ان کی جنگیں ہوں گی. بالآخر انہیں کامیابی حاصل ہو گی اور یہ عرب میں ایک اسلامی حکومت قائم کر لیں گے.

اب اس کے ساتھ ان احادیث کو جڑ لیجئے جو میں قبل ازیں کئی بار بیان کر چکا ہوں. امام مہدی کو جو مدد ملے گی اس کے ضمن میں ابن ماجہ کی یہ حدیث بہت اہم ہے: 

عن عبداللّٰہ بن الحارثؓ قال قال رسولُ اللّٰہ : یخرجُ ناسٌ مِنَ المشرقِ فیوَطِّئُون لِلمَھْدِی یعنی سُلطانَہٗ 
عبداللہ بن الحارثؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرق سے لوگ نلیں گے جو مہدی کی مدد یعنی ان کی حکومت کے تمکن کے لئے زمین کو روندتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے‘‘. 

اس حدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مشرق کے کسی علاقے میں پہلے سے اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہو گی. اور دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’خراسان‘‘ کا علاقہ ہے، جس کے بارے میں بتا چکا ہے کہ اس میں موجود افغانستان کے اکثر علاقے کے علاوہ پاکستان اور ایران کے بھی بعض علاقے شامل ہیں. حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

یَخْرُجُ مِنْ خُراسَانَ رأیاتُ سُودٌ، فلَا یردُّھاشیئٌ حتّٰی تُنصبَ بایِلیائ 
(رواہ الترمذی) 
’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے، جنہیں کوئی شے واپس نہیں کر سکے گی، یہاں تک کہ وہ ایلیاء (بیت المقدس) میں نصب کر دے جائیں گے.‘‘

اس دور میں ہم نے جن حدیثوں کو بحمدِ اللہ بہت عام کیا ہے ان میں حضورؐ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے مروی یہ حدیث بھی ہے جو سنن النسائی میں وارد ہوئی ہے: 

عِصَابتَانِ مِنْ اُمَّتِی اَحْرَز ھُمَا اللّٰہُ مِنَ النَّارِ، عِصَابَۃٌ تَغْزو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃٌ تَکُونُ مَعَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیھِمَا السَّلَامُ 

’’میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ آگ سے بچالے گا. ایک گروہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گا اور دوسرا گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کا ساتھ دے گا.‘‘

ان دو لشکروں کے بارے میں دنیا ہی میں فیصلہ کر دیا گیا کہ جو ان میں شریک ہو گا وہ جہنم کی آگ سے بچ جائے گا. حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی دجال سے جو جنگ ہونی ہے اس میں یہاں جانے والے لشکر شریک ہوں گے اور ظاہر ہے کہ ا سے پہلے یہاں اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہو گی اور اس کی توسیع مشرق بھی ہو گی اور مغرب میں بھی. چنانچہ 
ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے لشکر کا تعلق بھی یہیں سے ہو گا.