احادیثِ نبویہؐ کی روشنی میں حضرت مہدی کی شخصیت کے بارے میں مَیں نے اپنا موقف بیان کر دیا ہے. اب یہ سمجھ لئے کہ میرے اور آپ کے کرنے کا اصل کام کیا ہے؟ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم اس جماعت میں شامل ہیں جو دین کی تجدید کے لئے اور صحیح دین کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور اسے دنیا میں قائم کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے یا نہیں؟ اس لئے کہ احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نظامِ خلافت بالآخر قائم ہو کر رہے گا اور قیامت سے قبل پورے کرۂ ارضی پر اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا. ہمیں اپنے بارے میں طے کرنا ہے کہ ہمارا اس میں کردار کیا ہو گا. ابولہب اور حضرت حمزہؓ دونوں حضور کے سگے چچا تھے لیکن غلبۂ دین کی جدوجہد میں دونوں کا کردار ایک دوسرے کے بالکل مخالف تھا. ایک انتہائی محروم ٹھہرا اور سورۂ لہب میں اسے بدترین نمائندہ کردار کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ دوسرا سید الشھداء قرار پایا. ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں. آنحضور کا تیسرا چچا کچھ بین بین تھا، وہ ایمان تو نہیں لایا لیکن آپؐ کی سرپرستی کرتا رہا، یعنی ابوطالب. چوتھے چچاوہ تھے جو ایمان لائے لیکن وہ ’’سابقون الاولون‘‘ میں شامل نہیں تھے اور اس عظیم انقلابی جدوجہد میں ان کا کوئی نمایاں رول سامنے نہیں آتا. شاید اسی لئے جمعہ کے خطبوں میں ان کے لئے الفاظ آتے ہیں: 

’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرلِلْعَبَّاسِ ووَلَدِہٖ مغفرۃً ظاھرۃً وباطنۃً لاتُغادِرُذنبًا‘‘ 
سید الشہداء حضرت حمزہؓ سے اگر ان کا تقابل کریں تو وہ پیچھے نظر آتے ہیں تو آنحضور کے یہ چار چچا ہیں اور عجیب بات یہ ہے چاروں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے. ایک انتہا پر سید الشہداء حضرت حمزہؒ جو ’’ اَسدُ اللّٰہِ و اَسَدُ رَسُولِہٖ‘‘ قرار پائے، دوسری انتہا پر ابولہب ہے جو آپؐ کا بدتری دشمن تھا. درمیان میں ایک طرف ابوطالب ہیں جو اگرچہ ایمان تو نہیں لائے لیکن آپؐ کی مدد اور تعاون کرتے رہے. ان کے بالمقابل دوسری طرف درمیان میں حضرت عباس ہیں جو ایمان تو لائے اور فتح مکہ کے بعد محمدٌ رسول اللہ کے ساتھ بھی رہے لیکن آنحضور کی انقلابی جدوجہد میں ان سے منسوب کوئی قابل ذکر کارنامہ ہمارے علم میں نہیں ہے. واللہ اعلم. تو اصل بات ہمارے سوچنے کی یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو کن لوگوں کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے بارے میں کیا رول طے کرتے ہیں.

میں اس ضمن میں ایک اور حدیث آپ کو سنانا چاہتا ہوں کہ وہ جماعت جو آخر دور میں حق کے لئے میدان میں نکلے گی اس کا مقام و مرتبہ کیا ہو گا! اس حدیث کو امام بیہقی ؒ نے ’’دلائل نبوۃ‘‘ میں درج کیا ہے. ملاحظہ ہو: 

عن عبدالرحمٰن بن العلاء الحضرمیؓ قال حدَّثَنی مَن سمِعَ النبَّی یقولُ: اِنَّہ سیکون فی آخرِ ھٰذہِ الامۃِ قومٌ لھم مثلُ اجرِ اوَّلِھِمْ، یَامُرونَ بِالمعروفِ وَینھَون عَنِ المُنْکَرِویُقاتِلُونَ اَھْلَ الْفِتَنِ 

’’حضرت عبدالرحمن بن العلاء الحرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مجھ سے اس شخص نے بیان کی جس نے خود براہ راست آنحضور سے سنی، کہ یقینا میری امت کے آخری دور میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ جو اپنے اجرو ثواب کے اعتبار سے بالکل ابتدائی زمانے کے اہل ایمان کے مساوی ہوں گے. (یعنی جیسے آنحضور کے دور میں حالات انتہائی نامساعد تھے اسی طرح آخری دور میں بھی مسلمان کو انتہائی مشکل حالات اور آزمائشوں سے سابقہ پیش آئے گا اور اسی وجہ سے ان کا اجر بھی سابقون الاولون کے مثل ہو گا. لیکن یہ اجر کن لوگوں کے لئے ہو گا؟ اس کا جواب حدیث کے اگلے الفاظ میں آ رہا ہے) وہ لوگ نیکی کا حکم دیں گے اور برائیوں سے روکیں گے اور فتنہ برپا کرنے والوں سے جنگ کریں گے‘‘.

یہ اجر و ثواب اور مقام و
 مرتبہ ان لوگوں کے لئے ہو گا جو امر بالمعروفِ اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیں گے اور دشمنانِ دین کے خلاف منظم جہاد کریں گے. دیکھئے، اسلامی انقلاب کے آخری مراحل کے بیان کے لئے میں ہمیشہ ’’نہی عن المنکر‘‘ کا عنوان اختیار کرتا ہوں کہ ’’نہی عن المنکر‘‘ کا عمل جب ’’زبان‘‘ سے بڑھ کر بازو اور قوت کے استعمال کے مرحلے میں داخل ہو گا تو یہی وہ اخری مرحلہ ہو گا جو فیصلہ کن ثابت ہو گا. تاہم یہ کام ایک منظم اجتماعی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے. بہرکیف جو لوگ اس رخ پر جدوجہد کریں گے، اس حدیث میں انہی کے لئے بشارت وارد ہوئی ہے.

مشکوٰۃ شریف کے آخری باب کا عنوان: ’’ثوابُ ھذہِ الامۃ‘‘. یہ حدیث مشکوٰۃ کے اسی بات میں شامل ہے. لہٰذا یہ نہ سمجھئے کہ وہ مقامات بلند تو اب ہمیں سی درجے میں بھی حاصل ہی نہیں ہو سکتے. ابھی موقع ہے، آؤ ہمت کرو!. دنیا کو چھوڑو، رہبانیت کے انداز میں نہیں، مجاہدین کے انداز میں. اس لئے کہ آنحضور نے فرمایا ہے کہ ہمارے دین میں رہبانیت نہیں ہے سوائے دو صورتوں کے، ایک صوم اور دوسرا جہا. دیکھئے روزہ میں بھی کچھ پابندیاں ہوتی ہے. کھانے پینے کی اور بیویوں کے ساتھ تعلقات کی.

یہ گویا چودہ پندرہ گھنٹے کی رہبانیت ہے. اور جہاد میں کیا ہے؟ آدمی اپنے گھر سے نکلتا ہے، تکلیفیں اٹھاتا اور مشقتیں جھیلتا ہے، گویا یہ بھی عارضی طور پر ترکِ دنیا کی ایک صورت ہے. یہ وہ رہبانیت نہیں کہ دنیا سے بالکل کٹ کر غاروں میں چھپ جاؤ، بلکہ یہ تو ؏ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری!‘‘ والی بات ہے. یہ تصوف کی ایک مختلف صورت ہے. یہ وہ فعال تصوف ہے جو سید احمد بریلوی شہیدؒ کا تھا جو انسان کو جہاد و قتال پر آمادہ کرتا ہے. اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سلسلہ محمدیہ ہے جس میں سید احمد بریلویؒ نے بیعت لی تھی. ہمارے ہاں دیگر تمام سلاسل موجود ہیں.

سلسلہ قادریہ بھی ہے اور سلسلہ چشتیہ بھی. اسی طرح سلسلہ صابریہ، سلسلہ مجددیہ، نقشبندیہ اور سلسلہ سہروردیہ سب موجود ہیں. سوال یہ ہے کہ ’’سلسلہ محمدیہ ‘‘ کہاں گیا؟ سید احمد بریلوی شہید پہلے معروف سلاسل میں کچھ سلوک طے کرانے کے بعد پھر بیعت لیتے تھے سلسلہ محمدیہؐ میں ، کہ اب آؤ جہاد کی بیعت کرو! نَحنُ الَّذِینَ بَایَعُوا محمَّدا! عَلَی الجھادِ مَابَقِینا ابدا!! (ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد سے جہاد کی بیعت کی ہے، اب یہ جہاد جاری رہے گا جب تک جان میں جان ہے.) تنظیم اسلامی اسی دعوت کو لے کر اٹھی.

اللّٰھمَّ وَفِّقْنَا لِھٰذَا اقول قولی ھذاواستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات