پیش نظر مجموعہ میری چند تحریروں پر مشتمل ہے جو ۶۸۱۹۶۷ء کے دوران ماہنامہ میثاق‘ لاہور میں ’تذکرہ و تبصرہ‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی تھیں.

ان میں ‘میں نے ایک جانب تحریک ِپاکستان کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا ہے اور دوسری جانب موجودہ پاک و ہند مسلم معاشرے میں مذہبی فکر کے جو مختلف حلقے پائے جاتے ہیں اُن کے پس منظر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میرے نزدیک ان کا اہم ترین گوشہ وہ ہے جس سے اُن عظیم غلطیوں کا سراغ ملتا ہے جن کے باعث ہم اس حددرجہ افسوس ناک صورتِ حال سے دو چار ہیں کہ جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اُس میں ثلث صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی.
اس ضمن میں لامحالہ بعض شخصیتوں اور جماعتوں کے کردار پر تنقید بھی آئی ہے جس کی زیادہ شدت کا ظہور فطری طور پر اُن ہی کے حق میں ہوا ہے جن سے احیاۓ اسلام اوراقامت ِ دین کے ضمن میں سب سے زیادہ امیدیں وابستہ تھیں تاہم خدا گواہ ہے کہ اُن کی توہین و تنقیص نہ اُس وقت مقصود تھی جب یہ مضامین لکھے گئے تھے‘ نہ آج مطلوب ہے‘ بلکہ اصل معاملہ تب بھی وہی تھا اور اب بھی وہی ہے جو غالب ؔکے اس شعر میں بیان ہوا کہ ؎ 


رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج پھر درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے!

پیش نظرمجموعے کی اشاعت سے قبل جب میں نے اپنی آج سے پندرہ سولہ سال قبل کی اِن تحریروں کا جائزہ تنقیدی نگاہ سے لیا تو الحمد للہ کہ اس امر کا تو پورا اطمینان ہوا کہ ان میں حالات و واقعات کا جو تجزیہ سامنے آیا ہے وہ صد فی صد درست ہے. البتہ یہ احساس ضرور ہوا کہ ان میں بعض مقامات پر طرزِ تعبیر اور اندازِ تحریر میں تلخی شامل ہو گئی ہے‘ جو نہ ہوتی تو بہتر تھا گویا اگر میں ان موضوعات پر آج قلم اٹھائوں تو تجزیہ تو بنیادی طور پر وہی ہو گا لیکن انداز اتنا تلخ نہ ہو گا.

لیکن اب ان تحریروں سے اس تلخی کو نکالنا نہ ممکن ہے نہ مناسب ممکن اس لیے نہیں کہ وہ ان کے پورے تانے بانے میں بنی ہوئی ہے‘ اور مناسب یا درست اس لیے نہیں کہ پرانی تحریروں کو اگر پرانی تحریروں ہی کی حیثیت سے شائع کیا جائے تو اُن میں ردّو بدل تصنیف و تالیف کے اصولوں کے خلاف ہے اگر صاحب تحریر کی رائے میں بعد میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہو تو اسے اضافی حواشی کی صورت میں درج ہونا چاہیے یا علیحدہ وضاحت کی شکل میں!

اس ضمن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے. اس لیے کہ اُن کے ساتھ میرے ذہنی و قلبی تعلق میں اتار چڑھائو کی کیفیت شدت کے ساتھ واقع ہوئی ہے. چنانچہ اس کا آغاز شدید ذہنی و فکری مرعوبیت اور گہری قلبی محبت و عقیدت کے ساتھ ہوا‘ جس میں ذاتی احسان مندی کا عنصر بھی شدت کے ساتھ موجود تھا. لیکن پھر جب اختلاف پیدا ہوا تو وہ بھی اتنا ہی شدید تھا اور اس کے نتیجے میں طویل عرصے تک مایوسی ہی نہیں شدید بیزاری کی کیفیت قلب و ذہن پر طاری رہی‘ لیکن آخر کار اس پر افسوس‘ ہمدردی اور حسرت کا رنگ غالب آ گیا اور قلب کی گہرائیوں میں کم از کم احسان مندی کے احساسات بتمام و کمال عود کر آئے.

میری پیش نظر تحریریں چونکہ ان تین ادوار میں سے درمیانی دور سے تعلق رکھتی ہیں 
لہٰذا ان میں تلخی کا رنگ بہت نمایاں ہے ‘جس کے لیے میں مولانا مرحوم کے تمام محبین و معتقدین سے بھی معذرت خواہ ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ۱۹۷۹ء میں امریکہ میں مولانا سے میری وہ ملاقات ہو جاتی جس کی ایک شدید خواہش لیے ہوئے میں وہاں گیا تھا تو میں اُن سے بھی معافی حاصل کر لیتا اس لیے کہ اُسی زمانے کے لگ بھگ مجھے ایک اطلاع ایسی ملی تھی جس سے پورا اندازہ ہو گیا تھا کہ مولانا کے دل میں میری جانب سے کوئی تکدر یا رنج نہیں ہے. (یہ اطلاع جناب عبدالرحیم‘ ڈپٹی چیف مکینیکل انجینئر‘ کراچی پورٹ ٹرسٹ نے دی تھی کہ ایک نجی محفل میں جس میں وہ خود موجود تھے مولانا مرحوم نے میرے بارے میں یہ الفاظ فرمائے تھے کہ: ’’اس شخص کے بارے میں مجھے یہ اطمینان ہے کہ وہ جہاں بھی رہے گا دین کا کام کرتا رہے گا!‘‘ جس کی تائید مزید مجھے بفلو میں مولانا کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے موقع پر مل گئی جب مولانا کے خلف الرشید ڈاکٹر احمد فاروق مودودی سے معلوم ہوا کہ میری مولانا سے ملاقات کی خواہش یکطرفہ نہ تھی بلکہ‘ ان کے الفاظ میں: ’’… ادھر ابا جان بھی آپ سے ملاقات کے بہت خواہاں تھے‘ لیکن…‘‘ بہرحال یہ میرا اورمولانا مرحوم کا ذاتی معاملہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ میدانِ حشر میں جب میں اُن سے اپنی تلخ نوائی کی معافی چاہوں گا تو وہ مجھے ضرور معاف کر دیں گے.

اِس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی کے طرزِ عمل کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیں اور اس میں نہ کسی کی محبت و عقیدت کو آڑے آنے دیں نہ کسی کے بغض و عداوت کو راہ پانے دیں‘ بلکہ یہ بے لاگ تجزیہ صرف مستقبل کے لیے سبق حاصل کرنے کے لیے ہو… اور اس اعتبار سے‘ ان شاء اللہ العزیز ‘قارئین کرام ان تحریروں کو مفید پائیں گے.

خاکسار
ڈاکٹر اسرار احمد عفی عنہ 
لاہور‘ یکم جنوری ۱۹۸۳ء