قومی و مذہبی عوامل کا تناسب

(’تذکرہ و تبصرہ‘ ’میثاق‘ لاہور . مارچ ۱۹۶۷؁) 

اگر کوئی یہ کہے کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا‘‘ تو پورے ملک میں شاید کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکل سکے جو اس کی تردید کرے!لیکن اگر سوال یہ ہو کہ ’’تحریک پاکستان کا اصل محرک مذہبی و دینی تھایا معاشی و معاشرتی؟‘‘ تو اس کے جواب میں اختلاف کی بڑی گنجائش ہے!

حال ہی میں لاہور کے ایک انگریزی روزنامے (۱کے کالموں میں پاکستان کے ایک مشہور و معروف کالم نویس (۲نے اس بحث کو چھیڑا ہے اور اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ: 

’’تحریک پاکستان ہرگز ایک مذہبی تحریک نہ تھی بلکہ دراصل اس کے پیکر میں (برصغیر کے مسلمانوں کی) صرف قومی امنگوں کا اظہار ہوا تھا…‘‘ 

بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کالم نویس صاحب کی بات شاید اس لیے قابل توجہ نہ ہو کہ وہ ’حکومت کے ملازم‘ ہیں‘ 
(۳لیکن جہاں تک اس نظریے کا تعلق ہے یہ صرف ان کا نہیں ہے بلکہ مرحوم حسین شہید سہروردی جو نہ صرف یہ کہ تحریک مسلم لیگ کے پرانے کارکن تھے بلکہ جنہیں بجا طور پر پاکستان میں حزبِ اختلاف کی علامت قرار دیا جاسکتا (۱) پاکستان ٹائمز(۲)مسٹر زیڈ. اے. سلہری (۳) واضح رہے کہ یہ تحریر مارچ ۱۹۶۷ء کی ہے. ہے اور جو یہاں پارلیمانی جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار تھے‘ بارہا ان سے کہیں زیادہ واضح اور غیر مبہم الفاظ میں ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور حال ہی میں پاکستان کے ایک دوسرے بزرگ سیاست دان اور تحریک پاکستان کے پرانے کارکن جناب نورالامین نے بھی ایک ماہنامے کے ایڈیٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نظریے کی تائید کی ہے !

واقعہ یہ ہے کہ سوائے ان عوام الناس کے جنہیں ان معاملا ت کا شعور ہی نہیں ہوتا یا اُن معدودے چند لوگوں کے جو صرف مذہب کے سہارے ملکی سیاست کے میدان میں داخل ہو جانے کی بنا پر تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں باقی جو شخص بھی غیر جانبداری کے ساتھ اس مسئلے پر غور کرے گا وہ اس نظریے کی صداقت سے انکار کی جرأت نہ کر سکے گا!

اللہ تعالیٰ حکیم اور علیم ہے اور اپنی حکمتوں کو وہی بہتر جانتا ہے ‘تاہم بظاہر جو کچھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کی بھی بدقسمتی تھی اور شاید خود اسلام کی بھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی قومی تحریک کو ابتدا ہی سے کچھ ایسے حادثوں سے دوچار ہونا پڑا جن کے نتیجے میں یہ روز بروز مذہب سے دور ہوتی چلی گئی.

واضح رہے کہ برصغیر میں تحریک ِاستخلاصِ وطن کے اوّلین داعی مسلمان تھے تحریک ِشہیدینؒ 
(۱جہاں احیائے اسلام کی ایک ہمہ گیر تحریک اور منظم کوشش تھی وہاں آزادی ٔوطن کو بھی اس کے مقاصد میں ایک اہم حیثیت حاصل تھی‘ گویا اس میں دین اور سیاست کا وہ حسین امتزاج موجود تھا جو ہماری تاریخ کے قرنِ اوّل کا طرۂ امتیاز ہے.

حادثہ بالا کوٹ (۱۸۳۱؁)کے بعد بھی تقریباً ربع صدی تک آزادیٔ وطن کی 
(۱) مجاہد کبیر حضرت سید احمد بریلوی اور عظیم فلسفی و عالم شاہ اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہما. کوششوں میں اسی تحریک شہیدینؒ کے باقیات الصالحات کی جلوہ آرائی نظر آتی ہے‘ اور اسی کے متعلقین و متاثرین کہیں جیلوں میں تشدد اور بہیمیت کے شکار بنتے اور کہیں پھانسی کے تختوں کو زینت بخشتے نظر آتے ہیں.

اس پورے عرصے میں آزادی ٔ وطن کی جدوجہد میں کوئی غیر مسلم نظر نہیںآ تا! اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے‘ ہندوئوں کے لیے انگریز کی غلامی ایسی نئی اور انوکھی بات نہ تھی اور ان کے لیے معاملہ صرف حکمرانوں کی تبدیلی کا تھا جبکہ مسلمان حال ہی میں مسند ِحکومت سے اُتر کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے تھے ‘لہٰذا یہ بالکل فطری بات تھی کہ آزادی کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کی ابتدا بھی انہی کی طرف سے ہوئی!

۱۸۵۷ء کے معرکۂ آزادیٔ وطن میں پہلی بار ہندوستان کے مسلمان اور غیر مسلم سب شانہ بشانہ اور دوش بدوش غیر ملکی استبداد کے خلاف نبرد آزما نظر آتے ہیں. اس جنگ ِ آزادی کی اس اہم خصوصیت کے علاوہ کہ اس میں ہندو اور مسلمان یکساں طور پر شریک ہوئے‘ اس کی دوسری اور اہم تر خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مسلمانوں کے سیاسی و عسکری زعماء کے ساتھ ساتھ بلکہ بعض مقامات پر ان سے بھی بڑھ کر دینی و مذہبی پیشوائوں نے حصہ لیا اور علمائے کرام نے بھی سیف بدست اور سربکف ہو کر جان کی بازی لگائی. جیسے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء اور مولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ اللہ علیہ 
وغیرہم ـ .

۱۸۵۷؁ کے بعد تاریخ ایک بالکل نیا موڑ مڑ گئی!اور کمپنی بہادر کی حکومت کے اختتام اور براہِ راست تاجِ برطانیہ کے زیر انصرام آ جانے کے بعد ہندوستان میں حالات نے ایک بالکل ہی دوسرا رخ اختیار کر لیا. چنانچہ:

ایک طرف انگریزی استعمار نے اپنے پنجے جسد ِہند پر مضبوطی سے گاڑ لیے اور 
اس کا سیاسی و عسکری تسلط مستحکم ہو گیا نتیجتاً ہندوستانی روزبروز نہتے اور عسکری اعتبار سے بے دست و پا ہوتے چلے گئے اور آزادی کے لیے بھی بالکل غیر عسکری اور خالص آئینی و سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا.

اور اس کا سب سے اہم نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کی غیر مسلم اقوام کی عددی فوقیت کے نتائج و عواقب کا ظہور شروع ہوگیا!

دوسری طرف خود انگریز نے تلوار کے بجائے قلم سے حکومت شروع کی اور ہندوستانیوں کو اُن کے اپنے ماضی سے منقطع‘ اپنے عقائد و افکار و نظریات سے دست بردار اور اپنی تہذیب وتمدن اور اپنے علوم و فنون سے بیگانہ کر کے ایک نئے ہندوستان کی داغ بیل ڈالنی شروع کی. غیر ملکی حکمرانوں کے اس ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کا استقبال ہندوئوں اور مسلمانوں کی جانب سے مختلف طرز پر ہوا. ہندو اپنے ماضی سے پہلے ہی بہت دور نکل آئے تھے اور ان کا اپنے علوم و فنون اور اپنے تہذیب و تمدن سے کوئی گہرا رشتہ باقی نہ رہا تھا‘ لہٰذا انہوں نے تقریباً یکسو اور متحد ہو کر نئے رجحانات کو خوش آمدید کہا. اس کے برعکس مسلمانوں کو ابھی اپنا شاندار ماضی پوری تابناکی کے ساتھ نظر آ رہا تھا اوراِن کے عقائد اور علوم و فنون ابھی ان کے قلوب و اذہان میں گہری جڑیں رکھتے تھے لہٰذا ان کے ہاں ایک انتشار پیدا ہو گیا مسلمانانِ ہند کے اُن طبقوں نے جو دین و مذہب سے زیادہ لگائو رکھتے تھے بدلتی ہوئی ہوا کے ساتھ اپنا رخ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا اور وہ زندگی کی شاہراہ سے ہٹ کر گوشوں اور کونوں میں قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسول کے درس و تدریس میں منہمک ہو گئے جب کہ ہندوستان کی مسلمان قوم کا سوادِ اعظم ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی!‘‘ کے نظریے کو اپنا کر نئے حالات کے مطابق بدلتا چلا گیا. 

اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی توانائیاں منتشر ہوگئیں اور مجموعی طو رپر ہندوستان کی مسلمان قوم کی قوت و طاقت کو ضعف پہنچا ‘اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مذہبی طبقے اور قومی قیادت میں بعد پیدا ہو گیا جو بعد میں مسلسل بڑھتا چلا گیا‘ اور اسے بجا طور پر دورِ جدید میں اسلامیانِ ہند کی قومی تحریک کی بدقسمتیوں کا سرآغاز کہا جا سکتا ہے. 

ساتھ ہی مندرجہ بالا دو اسباب کی بنا پر یعنی ایک اس وجہ سے کہ خالص آئینی جدوجہد میں اکثریت اور اقلیت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ‘اور دوسرے اس بناء پر کہ مسلمانوں کے مذہبی طبقات کے قوم کے سوادِاعظم سے علیحدہ ہونے کی بناء پر ان کی مجموعی قوت میں کمی پیدا ہو گئی ہندوستان میں غیر مسلموں کا پلڑا بھاری ہونا شروع ہوا. 

اس میں مزید اضافہ غیر ملکی حکومت کی جانب سے غیر مسلموں کی حوصلہ افزائی اور مسلمانوں کے ساتھ سرد مہری ہی نہیں بلکہ باقاعدہ ہمت شکنی کی کوششوں سے ہوا. غیر ملکی حکمرانوں کا یہ رویہ بھی بلا وجہ نہ تھا.

اوّلاً انہیں خوب معلوم تھا کہ انہوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینی ہے اور اس تازہ زخم خوردہ قوم کی خاکستر میں ابھی ایسی چنگاریاں موجود ہیں جو کسی بھی وقت معمولی سی تحریک سے بھڑک سکتی ہیں.

ثانیاً ہندو صرف ہندوستان میں تھے جبکہ ہندوستانی مسلمان اس عالمگیر اسلامی برادری کا جزو تھے جو کرۂ ارضی کے ایک بہت بڑے حصے میں ایک غالب اکثریت میں تھی اور ابھی تک اس کے قلوب فاصلوں کے بعد اور حالات و مسائل کے فرق کے باوجود کچھ ایک ہی سے احساسات و جذبات سے معمور اور ایک ہی نشے سے مخمور تھے! حتیٰ کہ 
صفحۂ ارضی کے بعید ترین گوشوں میں بسنے والے مسلمان ایک دوسرے کی تکالیف و مصائب پر ایسے تڑپ اٹھتے تھے جیسے خود ان ہی کے سینوں میں خنجر گھونپ دیا گیا ہو. ؎ 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوئے تھے. چنانچہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کے مسلمانوں پر مغربی استعمار اُس دور میں جو ستم ڈھا رہا تھا وہ اُس کے کرب و الم کو بری طرح محسوس کر رہے تھے اور اس کی بنا پر ان کے دلوں میں انگریز دشمنی کے جذبات کو مزید انگیخت مل رہی تھی. 
ہندوستان کا ہندو غیر ملکی حکمرانوں کی نگاہ میں کچھ زیادہ ہی بے ضرر اور مسکین تھا‘ چنانچہ ایک طرف خود اُس نے نئے حکمرانوں کے ساتھ توافق و تعاون میں مسلمانوں پر پیش قدمی کی اور دوسری طرف غیر ملکی حکمرانوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی. چنانچہ ہندوستان کے طول و عرض میں ہندو قوم میں ایک عام بیداری کی لہر دوڑ گئی اور وہ من حیث القوم ایک نئے جذبے اور نئی امید کے ساتھ قومی تعمیر ِنو کے کام میں منہمک ہوگئی ہندوئوں میں اس قومی بیداری کے ساتھ ساتھ مسلمان دشمنی کے پرانے لیکن دبے ہوئے جذبات بھی ایک دم جاگ اٹھے. 

نتیجتاً انگریزی استعمار کے سائے میں ہندو امپریلزم نے انگڑائیاں لینی شروع کیں اور اس طرح ہندوستان میں ہندو مسلم کشمکش کے دورِجدید کا آغاز ہو گیا! 

یہ کشمکش ابتدا ہی سے بڑی شدید تھی اور پوری ہندو قوم میں مسلمانوں کی تقریباً آٹھ سو سالہ غلامی کا ردِّ عمل ایک دم پوری شدت کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا مسلمان قوم کے سوادِاعظم نے اس ابھرتی ہوئی طاقت کے کچوکوں اور چڑھتے ہوئے سیلاب کے ریلوں کو محسوس کرنا شروع کر دیا. زندگی کے ہر میدان میں ہندوؤں نے منظم طریقے پر مسلمانوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی اور ان کے نفرت بھرے تعصب کا مظاہرہ ہر سمت ہونے لگا!یہی نہیں بلکہ ہندو امپریلزم کا یہ عفریت کچھ ایسے انداز اور جوش و خروش سے اٹھا کہ خطرہ محسوس کیا جانے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہندوستان کی پوری مسلم قومیت کو نگل کر بالکل نیست و نابود کر دے.

یہ حالات تھے جن میں ہندوستان میں مسلم قوم پرستی کی تحریک نے قوت پکڑنی شروع کی اور ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے قومی تشخص کے بقاء کی فکر دامن گیر ہوئی. 

بدقسمتی سے اس موقع پر مسلمانانِ ہندکے مذہبی طبقوں اور خصوصاً تحریک شہیدینؒ اور جماعت ِ مجاہدین کے معنوی و روحانی وارثوں نے حالات کے رخ کو سمجھنے میں سخت غلطی کی اور وہ ہندوستان کی پوری مسلمان قوم کے سوادِ اعظم کے احساسات کا صحیح اندازہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے!! 

اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا اصل سبب کیا تھا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اصل سبب وہ حد سے بڑھی ہوئی انگریز دشمنی ہو جو اُن کے لائے ہوئے زندقہ و الحاد اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں پر ان کے بے پناہ مظالم سے پیدا ہوئی تھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اصل سبب ان حضرات کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ہو جس کی بناء پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ انگریز سے نبٹ لینے کے بعد ابنائے وطن کے مقابلے میں اپنے دین اور اپنے تہذیب و تمدن اور فی الجملہ اپنے قومی تشخص کا تحفظ کچھ مشکل نہ ہو گا ۱؎ بہرحال ہوا یہ کہ ان حضرات نے اپنے لیے یہ راہ متعین کی کہ پہلے ہندوؤں کے ساتھ مل کر غیر ملکی حکمرانوں سے گلو خلاصی کرا لی جائے‘ ہندو مسلم معاملات اس کے بعد طے ہوتے رہیں گے. جبکہ بحیثیت مجموعی ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ وہ پہلے ہی سے تحفظات کے حصول کی جدوجہد کریں گے اور اس امر کی سعی کریں گے کہ وطن اس طور سے آزاد ہو کہ اس میں ان کے جملہ حقوق اور فی الجملہ ان کے قومی تشخص کے تحفظ کی مکمل ضمانت حاصل ہو جائے.

اس طرح ہندوستان کی مسلمان قوم کے سوادِ اعظم اور اس کے مذہبی طبقات کے مابین بعد مزید بڑھ گیابلکہ آزادی کی جدوجہد میں یہ دونوں علیحدہ علیحدہ راہوں پر گامز ن ہوگئے ! جوں جوں وقت گزرا یہ بعد بڑھتا چلا گیا. اور بعد میں ‘جیسا کہ عموماً ہوتا ہے‘ اس میں ضد کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا ‘حتیٰ کہ پھر شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکیں بھی رجالِ دین کی آنکھیں کھولنے میں ناکام رہیں!

اس صورت حال کا سب سے اہم نتیجہ‘ جس کی جانب بہت کم لوگوں کی نگاہ گئی ہے‘ 

یہ نکلا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی تحریک قوم کے بہترین افراد سے محروم ہو گئی.اب تک قوم کی پوری سیاسی و دینی قیادت جس طبقے کے ہاتھ میں رہی تھی اور جس میں 
ایک سے بڑھ کر ایک مخلص و بے نفس‘ محنتی و سخت کوش‘ آزمودہ وتجربہ کار‘ اور ہر اعتبار سے منجھا ہوا اور سرد وگرم چشیدہ سیاسی کارکن موجود تھا وہ قوم سے بے تعلق ہو کر رہ گیا (اور کون کہہ سکتا
 (۱) اس کا ایک ممکن سبب یہ بھی ہے کہ معاش کے معاملے میں علماء کرام کا غیر مسلموں سے کوئی تصادم نہیں تھا. اس لیے کہ ان کی معیشت کا پورا دارومدار مسلمانوں کے چندوں اور ان کی خیرات و صدقات پر تھا. جبکہ مسلمان عوام کو ہر میدان میں ‘خواہ وہ سرکاری ملازمتوں اور مختلف پیشوں کا معاملہ ہو ‘خواہ تجارت اور کاروبار کا‘ ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کا گھلا گھونٹنے (Economic Strangulation) کی کوششوں کا بالفعل تجربہ ہو رہا تھا! ہے کہ آج خصوصاً پاکستان میں ہماری قومی زندگی جس شدید قحط الرجال سے دوچار ہے اس کا اصل سبب یہی نہیں ہے!)

ہندوستانی مسلمانوں کی قومی سیاست مذہب سے جس تیزی سے دور ہوتی جا رہی تھی اگر یہ بعد اسی طرح بڑھتا رہتا تو بات نہ معلوم کہاں تک جا پہنچتی‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہوا کہ اُس دور میں چند شخصیتیں ایسی بھی ابھریں جنہوں نے اس بعد کو کم کرنے کی کوشش کیاور اس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی.

اِن شخصیتوں میں سرفہرست علامہ اقبال کا نام ہے. انہوں نے مسلمانوں کی قومی تحریک میں مذہبی جذبے اور رنگ کی آمیزش کی جو کامیاب کوشش کی وہ ظاہر و باہر ہے. لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ ’مذہبی‘ آدمی ہرگز نہ تھے‘ لہٰذا ان کی کوششوں سے قومی تحریک میں کم از کم وقتی طور پر مذہبی روح تو ایک حد تک پیدا ہو گئی لیکن ’مذہبی طبقوں‘ سے اس کا بعد کسی طرح کم نہ ہوا.

علامہ کے ساتھ ہی ایک دوسری عظیم شخصیت جس نے ایک بار حکومت ِ الٰہیہ کا نعرہ لگا کر اُمت ِمسلمہ کی ’’عمر رفتہ‘‘ کو آواز دی اور ’امام الہند‘ کا خطاب پایا وہ مولانا ابوالکلام مرحوم کی تھی. انہوں نے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کی ولولہ انگیز دعوت کے ذریعے ایک بار اسلامیانِ ہند کے دل میں پھر سے قرونِ اُولیٰ کی یاد تازہ کر دی. لیکن وہ بھی جلد ہی جبکہ ابھی ان کی زوردار دعوت کی صدائے بازگشت خود ان کے اپنے کانوں تک بھی نہ پہنچ پائی تھی ‘اس کام سے دستبردار ہوگئے تاہم ان کی دعوت سے بھی وقتی طو رپر ایک دینی جذبہ ہندوستان کی پوری مسلم قوم میں تازہ ہو گیا. 

’امام الہند‘ کی دعوت کی گھن گرج کچھ کم ہوئی ہی تھی کہ ایک تیسری شخصیت جسے انہی کی شخصیت کا معنوی تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے ‘انہیں ان کی زندگی ہی میں مرحوم قرار دے 
کر ان کے ترک کردہ مشن کی تکمیل کے عزائم کے ساتھ سامنے آئی یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے! جو اگرچہ معروف ’مذہبی حلقوں‘ سے تو متعلق نہ تھے لیکن ان کی ’مذہبیت‘ بہرحال مسلم تھی! انہوں نے ایک طرف ان ’مذہبی حلقوں‘ پر شدید تنقید کی جو ہندوستان کی اکثریت کے عزائم سے بے خبر‘ آزادی کی محبت اور انگریز دشمنی کے جذبے سے مغلوب ہو کر ایسی راہ پر چل پڑے تھے جس کا نتیجہ ہندوستان میں ایک متحدہ قومیت کا قیام اور اس میں مسلمانوں کی قومیت کا کلی انضمام تھا اس طرح ان کے قلم نے گویا پہلی بار مسلمانانِ ہند کے سوادِاعظم کے دلی احساسات کی ترجمانی مدلل و مفصل طور پر کی! چنانچہ قوم نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا دوسری طرف انہوں نے اپنے مخصوص کلامی انداز میں ہندوستان کے مسلمانوں کو دین کی طرف متوجہ کیا اور مغرب کے ملحدانہ افکار و نظریات کا پرزور ابطال کر کے اسلام کی حقانیت اور خصوصاً اس کے ایک مکمل اور بہترین نظام ِ حیات ہونے کو واضح کیا چنانچہ ان کی کوششوں سے ایک بڑی تعداد میں مسلمان نوجوان ‘خصوصاً وہ جو انگریزی تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ تھے‘ دین کی جانب راغب ہوئے اور ایک بار پھر یہ اُمید بندھی کہ ہندوستان کی مسلم قومیت اور اسلام کا رشتہ از سر نو استوار اور مضبوط ومحکم ہو جائے گا.

لیکن جلد ہی یہ امید منقطع ہو گئی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی قومی تحریک دوسرے بڑے حادثے سے دوچار ہوگئی یعنی مولانا مودودی مسلمانوں کی قومی تحریک سے علیحدگی اختیار کر کے ہندوستان کی مسلمان قوم کے سوادِاعظم سے کٹ گئے اور ایک دوسری راہ پر گامزن ہو گئے.

اپنے رخ کی اس تبدیلی کی جو دوبڑی وجوہات مولانا نے بیان فرمائیں وہ انہی کے الفاظ میں سنیے: 


’’پہلی وجہ یہ تھی کہ اس نئی تحریک کے دور میں عامۃ المسلمین کی قیادت و رہنمائی ایک ایسے گروہ کے ہاتھ میں چلی گئی جو دین کے علم سے بے بہرہ ہے اور محض قوم پرستانہ جذبہ کے تحت اپنی قوم کے دنیوی مفاد کے لیے کام کررہا ہے. دین کا علم رکھنے والا عنصر اس گروہ میں اتنا بھی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے اور اس قدرِ قلیل کو بھی کوئی دخل رہنمائی میں نہیں ہے. میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان میں اس سے پہلے کبھی عام مسلمانوں کا اعتماد علمائے دین سے ہٹ کر اس شدت کے ساتھ غیردیندار اور ناواقف دین رہنمائوں پر نہیں جما تھا. میرے نزدیک یہ صورت حال اسلام کے لیے وطنی قومیت کی تحریک سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے. اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے دین سے بے بہرہ لوگوں کی قیادت میں ایک بے دین قوم کی حیثیت سے اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھا بھی‘ جیسا کہ ترکی اور ایران میں برقرار رکھے ہوئے ہیں ‘تو ان کے اس طرح زندہ رہنے میں اور کسی غیر مسلم قومیت کے اندر فنا ہو جانے میں آخر فرق ہی کیا ہے؟ ہیرے نے اگر اپنی جوہریت ہی کھودی تو پھر جوہری کو اس سے کیا دلچسپی کہ وہ کم بخت پتھر کی صورت میں باقی رہے یا منتشر ہو کر خاک میں رل مل جائے.

دوسری وجہ یہ تھی کہ میں نے اس تحریک کے اندر داعیہ ٔدینی کے بجائے داعیہ ٔقومی کو بہت زیادہ کارفرما دیکھا. اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اسلام اور مسلم قوم پرستی ایک مدت سے خلط ملط ہیں ‘لیکن قریبی دور میں اس معجون کا اسلامی جزو اتنا کم اور قوم پرستانہ جزواتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس میں نری قوم پرستی ہی قوم پرستی نہ رہ جائے. حد یہ ہے کہ ایک بڑے ممتاز لیڈر کو ایک مرتبہ اس امر کی شکایت کرتے ہوئے سنا گیا کہ بمبئی اور کلکتہ کے دولت مند مسلمان اینگلو انڈین فاحشات کے ہاں جاتے ہیں حالانکہ مسلمان طوائفیں ان کی سرپرستی کی زیادہ مستحق ہیں. اس حد ِکمال کو پہنچ جانے کے بعد اس مسلم قوم پرستی کے ساتھ مزید رواداری برتنا میرے نزدیک گناہِ عظیم ہے.‘‘ 
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘حصہ سوم. دیباچہ) 

اگرچہ بہت سے لوگوں کے نزدیک مولانا مودودی کی مسلمانانِ ہند کی قومی جدوجہد سے کنارہ کشی کا اصل سبب بالکل ذاتی تھا. چنانچہ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے متذکرہ صدر کالم نویس صاحب 
(۱تحریر فرماتے ہیں کہ: 

’’مولانا نے تحریک پاکستان سے اپنی کنارہ کشی کا کبھی کوئی سبب بیان نہیں فرمایا(؟) لیکن اس کی وجہ بہرحال تھی اور بادنیٰ تامل جو بات معلوم ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مولانا نے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کا پرچار اس امید میں کیا تھا کہ وہ اپنی قیادت انہی کو سونپ دیں گے ‘لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ مسلمانوں نے جس شخص کی صدا پر کان دھرا وہ بجائے ان کے قائداعظم تھے تو انہوں نے فوراً اس پورے نقشہ ٔکار ہی کو تج دیا… (گویا) مولانا مودودی کی غداری کا اصل سبب خالص ذاتی تھا!‘‘ 

لیکن اس وقت ہم اس بحث میں اُلجھنے کو سعی ٔلاحاصل سمجھتے ہیں.بلکہ ہمارے نزدیک مولانا نے ۴۱.۱۹۴۰ء میں مسلمانان ہند کی قومی تحریک سے کٹ کر اپنے لیے جو کام تجویز کیا یعنی قومی سطح سے بلند اور گروہی مفادات سے بالا ہو کر خالصتاً اللہ کے دین کی دعوت اور تبلیغ و اشاعت اور وہ بھی خالص علمی و فکری انداز میں وہ یقینا قومی جدوجہد کے مقابلے میں بہت اعلیٰ وارفع تھا. 


تاہم قومی جدوجہد کے نقطہ ٔنظر سے مولانا مودودی کے رخ کی یہ تبدیلی سخت نقصان دہ ثابت ہوئی. اس سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی قومی تحریک کے اسلام سے حقیقی (۱) جناب زیڈ. اے. سلہری و معنوی بعد میں مزید اضافہ ہو گیا بلکہ طبقہمتوسط کے نہایت مخلص اور سرگرم کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی قومی جدوجہد سے لاتعلق ہو گئی. 

۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک کا عرصہ ہندوستانی سیاست میں حالات و واقعات کی انتہائی تیز رفتاری کا دور ہے.دوسری جنگ عالمگیر کے بعد ایک طرف خود انگریزوں نے یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ زیادہ دیر تک ہندوستان پر اپنا تسلط برقرار نہ رکھ سکیں گے. دوسری طرف انڈین نیشنل کانگریس کے جھنڈے تلے ہندوئوں اور نیشنلسٹ مسلمانوں نے جدوجہد ِآزادی کو تیز تر کر دیا ‘اور تیسری طرف مسلمانانِ ہند کا سوادِاعظم مسلم لیگ کے جھنڈے تلے حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں مشغول ہو گیا.

اس جدوجہد کے آخری زمانے میں جبکہ مسلم لیگ کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اپنی اس حیثیت کو بالکل واضح اور مبرہن کر دے کہ وہ اسلامیانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے او رپوری مسلمان قوم یکسوئی کے ساتھ اس کے جھنڈے تلے جمع ہے تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار نہ تھا کہ وہ مسلمانانِ ہند کے دینی جذبات کو اپیل کرتی اور اسلام سے ان کی محبت اور دلی تعلق کو کام میں لاتی. چنانچہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں پورا ہندوستان ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ اِلا اللہ!‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا اور اسلامی حکومت‘ اسلام کے اصولِ مساوات و اخوت‘ اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی‘ اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی قانون و دستور کی اصطلاحات کا استعمال مسلم لیگ کے رہنمائوں کی تقریروں میں عام ہو گیا. گویا اس دور میں تحریک ِمسلم لیگ مسلمانوں کے صرف قومی مفادات کی محافظ ہی نہیں بلکہ دین کے ساتھ ان کی محبت اور اسلام کے ساتھ ان کے قلبی تعلق کا مظہر بھی بن گئی. چنانچہ پوری قوم مجتمع ہو کر اس کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی اور خود مذہبی 
طبقات میں سے بھی کچھ لوگ اس کی امداد کے لیے میدان میں نکل آئے. (۱

تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ تحریک ِمسلم لیگ کا وہ دور تھا جس میں کسی تحریک کے واقعی نظریات اور حقیقی افکار کے بجائے خوش آئند جذبات اور نیک خواہشات 
(۲کی عملداری ہوتی ہے. اس دور کی کہی سنی باتوں پر کسی مستحکم تعمیر کا خیال باندھنا ایک بچگانہ خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی.

خود مولانا مودودی اس دور میں قومی زندگی کی منجدھار سے دور بیٹھے عمرانیات کے ان اٹل اصولوں کا درس دیتے رہے کہ: 


’’حکومت خواہ کسی نوعیت کی ہو مصنوعی طریقہ سے نہیں بنا کرتی. وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کہیں وہ بن کر تیار ہو اور پھر ادھر سے لا کر اس کو کسی جگہ جما دیا جائے. اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اخلاقی‘ نفسیاتی‘ تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے. اس کے کچھ ابتدائی لوازم‘ کچھ اجتماعی محرکات‘ کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے یہ وجود میں آتی ہے…‘‘

’’… اس خام خیالی (۳کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہو گئی ہے جس کا نام ’’اسلامی حکومت‘‘ ہو مگر خالص علمی طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیونکر قائم ہوا کرتی ہے…‘‘

’’… بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کا (۱) یعنی بریلوی مکتب فکر کے علماء ومشائخ کی اکثریت اور حلقہ دیوبند سے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور اُن کے رفقاء کار اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بعض دوسرے متوسلین.

(۲) یعنی رومانویت 
(Romanticism) .

(۳) یعنی یہ اُمید کہ پاکستان ایک اسلامی اسٹیٹ ہو گا. 
سہی مسلمانوں کا قومی اسٹیٹ قائم تو ہو جائے‘ پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اس کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ مگر میں نے تاریخ‘ سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر میں اس کو ناممکن سمجھتا ہوں…‘‘ 
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ حصہ سوم: اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے) 

اور پھر جوں جوں قومی تحریک زور پکڑتی اور پوری مسلمان قوم کو اپنے دامن میں سمیٹتی چلی گئی ان کی تنقیدیں بھی تلخ تر ہوتی چلی گئیں ‘یہاں تک کہ ان میں نفرت و حقارت کی آمیزش بھی ہو گئی. چنانچہ اپریل ۱۹۴۷ء میں ٹونک میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ فرما دیا کہ: 


’’اسلام کی لڑائی اور قومی لڑائی ایک ساتھ نہیں لڑی جا سکتی.‘‘

اور… ’’یہ لوگ ہندوستان کے ایک ذرا سے کونے میں پاکستان بنانے کو اپنا انتہائی مقصد بنائے ہوئے ہیں‘ لیکن اگر یہ فی الواقع خلوصِ قلب سے اسلام کی نمائندگی کے لیے کھڑے ہو جائیں تو سارا ہندوستان پاکستان بن سکتا ہے…‘‘ 
(روداد جماعت اسلامی) 

سارے ہندوستان کا پاکستان بننا تو تقدیر الٰہی میں نہ تھا ‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے ہوا کہ اگست ۱۹۴۷ء میں پاکستان جیسا کچھ بھی ہے عالم وجود میں آ گیا.

واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام عمرانیات اور سیاسیات کے طالب علموں کے لیے ایک معجزہ سے کسی طرح کم نہیں. ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی تحریک میں ابھی ہرگز اتنی قوت اور بل بوتہ نہ تھا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی صورت میں ہندو امپیریلزم کے چنگھاڑتے ہوئے عفریت کی خواہشات کے علی الرغم اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے. کچھ لوگ 
اس میں انگریزوں کی سیاست کا دخل گردانتے ہیں ‘لیکن کبھی ابتدائی دور میں چاہے تحریک مسلم لیگ پر کسی انگریز گورنر جنرل یا وائسرائے کی نظر کرم رہی ہو یہ بات بالکل ظاہر و باہر ہے کہ آزادیٔ ہند سے متصلاً قبل اور خصوصاً برطانیہ میں لیبر پارٹی کے برسرِاقتدار آ جانے کے بعد انگریزی حکومت کا رویہ مسلم لیگ کے ساتھ واضح طور پر معاندانہ رہا اور ہندوستان کے آخری انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں تو سب کو یہ معلوم ہے کہ وہ کانگریس کے علانیہ طرف دار اور مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے.

بنابریں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مشیت تھی جو ہندوئوں اور انگریزوں کی متفقہ مخالفت کے علی الرغم پوری ہوئی تو اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں ہے!

ہم نے اسلامیانِ ہند کی تقریباً سوا سو سالہ تاریخ کے ان چند اہم نقوش کو صفحہ قرطاس پر اس لیے منتقل کیا ہے کہ تحریک پاکستان کا صحیح پس منظر نگاہوں کے سامنے آجائے اور صورتِ واقعہ جیسی کچھ کہ فی الحقیقت ہے ظاہر ہو جائے. اس لیے کہ صحیح طرزعمل اور درست سمت میں اقدام کا تمام تر انحصار اسی پر ہے. نیک خواہشات کی عمل داری بسا اوقات انسان کے نقطہ ٔنظر کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے اور میدانِ سیاست میں اترنے کے بعد بارہا ایسا ہوا کہ ایک غلط موقف جو ابتدا میں محض ’’حکمت ِعملی‘‘ کے تحت اختیار کیا جاتا ہے‘ بعد میں جماعتوں اور تحریکوں کے اپنے نقطہ ٔنظر میں مستقل طور پر ایسی کجی پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے جو پھر اس کے گلے کا ہار بن جاتی ہے اور کسی طور سے پیچھانہیں چھوڑتی. نتیجتاً بالکل مخالف سمت میں سفر کے باوجود یہ توقع برقرار رکھی جاتی ہے کہ بس ؏ 


’’اس موڑ سے آگے منزل ہے ‘مایوس نہ ہو ‘درّاتا جا!‘‘

آئندہ صحبت میں ان شاء اللہ تعالیٰ ہم قیام پاکستان کے بعد کے بیس سالوں کا جائزہ 
اسی نقطہ ٔنظر سے لیں گے اور پھر ہمارے نزدیک اسلام اور پاکستان دونوں کے ساتھ خلوص اور خیر خواہی کا تعلق رکھنے والے لوگوں کو جو طرز عمل اختیار کرنا چاہیے اسے بیان کریں گے.

وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ.