ہونا کیا چاہیے تھا ‘ ہوا کیا؟
(’تذکرہ و تبصرہ‘ ’میثاق‘ لاہور .اپریل ۱۹۶۷؁

پاکستان کا قیام ہرگز ایک معمولی واقعہ نہ تھا دنیا کے نقشے پر اس طرح اچانک اور بالکل غیر متوقع طور پر وقت کی عظیم ترین مسلمان مملکت کا رونما ہو جانا یقینا مشیت ِ ایزدی اور حکمت ِ خداوندی میں کسی بڑی تدبیر کے سلسلے کی کڑی تھا اور اب ضرورت اس امر کی تھی کہ قوم کے تمام طبقات اسے ایک عطیہ ٔ خداوندی اور نعمت خداداد سمجھتے اور ماضی کے تمام اختلافات کو بھلا کر کامل توافق و تعاون کے ساتھ اس کی تعمیر میں لگ جاتے.

قیامِ پاکستان کے بعد اُس قومی قیادت پر جو اس کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنی تھی اور جس کے ہاتھوں میں اس کی حکومت کے تمام اختیارات آئے تھے اچانک بہت سی عظیم اور کٹھن ذمہ داریاں عائد ہو گئی تھیں. اس کا فرض تھا کہ ایک طرف اس کے بقا و تحفظ اور دفاع و استحکام کا بندوبست کرتی اور اس کی انتظامی مشینری کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق ازسرنو استوار کر کے تعمیری و ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد شروع کرتی اور دوسری طرف قوم کی سیاسی تربیت کا ایسا بندوبست کرتی جس سے اس میں سیاسی شعور نشوونما پاتا‘ خیالات میں یک رنگی اور مقاصد میں ہم آہنگی پیدا ہوتی‘ قومی و ملی احساسات اجاگر ہوتے اور صحت مند سیاست کے خطوط متعین ہوتے چلے جاتے! پاکستان کی بقا اور تحفظ و ترقی کے لیے فوری طور پر اگرچہ مقدم الذکر کام اہم تر تھالیکن دیر پا استحکام اور ٹھوس تعمیر کے نقطہ نظر سے مؤخر الذکر کام کہیں زیادہ ضروری تھا!

مذہبی و نیم مذہبی طبقات کو‘ عام اس سے کہ پہلے وہ پاکستان کے شدید مخالف تھے یا بزعم خویش کسی عظیم تر منصوبے پر عمل پیرا رہے تھے‘ لازم تھا کہ وہ قیام پاکستان کو قدرت کا اشارہ سمجھ کر آئندہ کے لیے اپنے نقطہ نظر کو بالکل تبدیل کر لیتے اور اسے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا گہوارہ بنانے کے لیے مثبت تعمیری جدوجہد میں بہ دل و جان مصروف ہو جاتے. اس کے لیے ایک طرف یہ ضروری تھا کہ ہر گروہ اپنے مزاج کی مناسبت اور اپنی اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کے تناسب سے اس عظیم جدوجہد کے کسی ایک شعبے کو سنبھال لیتا‘ اور دوسری طرف یہ لازم تھا کہ انتشار و افتراق کے تمام رخنوں کو قطعی طور پر بند کر دیا جاتا اور قومی قیادت کے ساتھ حتی الامکان تعاون کی روش اختیار کی جاتی.

وہ مذہبی حلقے جو جمعہ و جماعت‘ اور درس و خطابت کے ذریعے عوام سے قریب ترین ربط و تعلق رکھتے تھے اور ان میں گہرے اثر و نفوذ کے مالک تھے‘ مذہبی‘ اخلاقی اور روحانی اقدار کے احیاء کے لیے انتہائی مؤثر کام کر سکتے تھے اور جماعت اسلامی علمی و فکری سطح پر اسلامی انقلاب اور تہذیبی و ثقافتی میدان میں دینی اقدار کے احیاء کے لیے قیمتی خدمات سر انجام دے سکتی تھی. 


اس اعتبار سے جماعت اسلامی واقعتا ایسی پوزیشن میں تھی کہ اپنے پیش نظر ہمہ گیر اور عالم گیر اسلامی انقلاب کے لیے قیام پاکستان کو ایک بہترین موقع کے طور پر استعمال کر سکتی تھی. مولانا مودودی نے چھ سات سال مسلمانانِ ہند کی قومی جدوجہد اور عام سیاسی سرگرمیوں سے علیحدہ رہ کر جو کام کیا تھا اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک ایسی جمعیت فراہم کر لی تھی جو ایک اچھی بھلی تعداد میں ایسے مخلص اور سرگرم اور ساتھ ہی نظم اور باقاعدگی اور سلیقے اور قرینے کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت سے مسلح کارکنوں پر مشتمل تھی جن میں کم از کم اسلام کو دنیا میں سر بلند کرنے کی حد تک اپنے مقصد اور نصب العین کا واضح شعور بھی موجود تھا اور اس کے لیے محنت و مشقت کے مادّے اور ایثار و قربانی کے جذبے کی بھی کمی نہ تھی. 

اور سب سے اہم یہ کہ اس جمعیت میں دین و دنیا اور قدیم و جدید کا وہ امتزاج بھی موجود تھا جو اس دور میں دین کی کسی بھی مؤثر خدمت کے لیے لازمی اور لابدی ہے. اس اعتبار سے یہ جمعیت مسلمانوں کے جدت پسند اور قدامت پرست طبقات کے مابین ایک امت وسطیٰ کا رول ادا کر سکتی تھی اور سراپا جامد مذہبیت اور ازسرتا پیر متحرک متجددیت کے درمیان 
’’سواء السبیل‘‘ کو واضح اور روشن کر سکتی تھی.

کاش کہ قوم کے ان تینوں اہم طبقات میں بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کا شعور بروقت پیدا ہو جاتا اور وہ کامل توافق و تعاون کی فضا میں اپنے اپنے حصے کے کاموں میں منہمک ہو کر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی راہ ہموار کرنے میں لگ جاتےلیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا!!

جہاں تک قومی قیادت کا تعلق ہے اگرچہ اس غریب پر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی 
مختلف خارجی و داخلی اسباب کی بنا پر نزع کا عالم طاری ہو گیا تھا‘ چنانچہ ملکی بقا و استحکام اور تعمیر و ترقی کے کام تو جیسے کچھ اور جتنے کچھ اس سے بن آئے اس نے کیے ‘لیکن سیاسی میدان میں قوم کی تنظیم و تربیت اور قومی شعور اور ملی احساسات کو اجاگر کرنے کا کام وہ بالکل نہ کر پائی. تاہم جہاں تک تعاون و توافق کا تعلق ہے اس امر کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ پاکستان کی پہلی قومی قیادت کی جانب سے اس سلسلے میں تنگ دلی اور بخل کا مظاہرہ قطعاً نہیں ہوا اور اس کے باوجود کہ بعض مذہبی حلقوں نے کھلم کھلا قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور خود مولانا مودودی بھی نہ صرف یہ کہ اس سے بالکل علیحدہ رہے تھے بلکہ تحریک پاکستان کے آخری اور فیصلہ کن ایام میں اس پر شدید اور بعض اوقات دلآزار قسم کی تنقیدیں بھی کرتے رہے تھے‘ تاہم اپنا وقت آنے اور قوت وا قتدار پر بلا شرکت ِغیرے قابض ہونے کے بعد اس نے نہ صرف یہ کہ آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے متمتع اور مستفید ہونے کے معاملے میں مسلم لیگ کے حامیوں اور مخالفوں کے مابین فرق و امتیاز کا کوئی شائبہ بھی کبھی پیدا نہ ہونے دیا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر تعاون کے دروازے پوری طرح کھول دیے ‘جس کی روشن ترین مثال یہ ہے کہ خود مولانا مودودی کو اپنے خیالات کے اظہار اور اپنے نظریات کی اشاعت کے بھرپور مواقع نہ صرف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بلکہ ریڈیو تک پر پوری وسعت ِ قلب کے ساتھ مہیا کیے. 

اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ ایک قومی جماعت ہونے کی بناء پر مسلم لیگ کی صفوں میں ہر نقطہ نظر اور مکتبہ فکر کے لوگ پائے جاتے تھے‘ حتیٰ کہ خالص ملحد اور دہریے بھی موجود تھے لیکن پاکستان میں اس کی جو پہلی ٹیم برسراقتدار آئی اس میں مخلص قوم پرست مسلمان بلکہ خاصے مذہبی مزاج اور دینی مذاق کے لوگوں کو ایک فیصلہ کن پوزیشن حاصل تھی! 

اور اس ملک میں اسلام کے مستقبل کے اعتبار سے بہترین حکمت عملی یہ تھی کہ تمام دینی جماعتیں اور مذہبی حلقے پچھلے ذہنی تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر کھلے دل کے ساتھ قومی قیادت کے ساتھ تعاون کی روش اختیار کرتے اور ایک طرف اپنی تعلیمی و تبلیغی سرگرمیوں اور اخلاقی و عملی اصلاح کے کاموں میں مواقع اور وسائل کے اس اضافے سے فائدہ اٹھاتے جو مسلمانوں کی قومی ریاست میں حکومت کے ساتھ تعاون کی صورت میں متوقع تھا اور دوسری طرف قومی قیادت کے مخلص اور مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں کو مضبوط بناتے لیکن افسوس کہ صرف مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور ان کے رفقائے کار کو چھوڑ کر ‘کہ انہوں نے تو حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں بھی مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا تھا ‘اکثر مذہبی حلقوں نے یا تولا تعلقی کی روش برقرار رکھی یا معاندانہ انداز اختیارکر لیا.

فعال نیشنلسٹ علماء کی اکثریت اور ان کے اصل مراکز تو ہندوستان ہی میں رہ گئے تھے. پاکستان کے حصے میں جو لوگ آئے ان میں سے مجلس احرار نے بظاہر بہت عقلمندی سے کام لیا اور سیاست کے میدان سے کامل کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی سرگرمیوں کو صرف دینی و مذہبی دائرے میں محدود کر لیا ‘لیکن ایک طویل عرصے تک کار زارِ سیاست میںگھمسان کی لڑائی لڑ چکنے والوں کے لیے کامل علیحدگی مشکل تھی ‘چنانچہ چند ہی سال بعد ان کی ’’محبوس سیاسیت‘‘ ایک آتش فشاں کے مانند پھٹ کر رہی‘ اور پاکستان کی سیاسیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس حادثے نے پاکستان کی قومی و سیاسی زندگی کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے میں اہم ترین حصہ ادا کیا 
(۱!

علمائے دین کی ایک عظیم اکثریت نے قومی و سیاسی زندگی سے ایک گونہ لاتعلقی کی اس روش کو 
(۱) اشارہ ہے ۵۳.۱۹۵۲ء کی تحریک ختم نبوت کی طرف! برقرار رکھا جس پر وہ تقریباً پون صدی سے عمل پیرا تھے اور پاکستا ن آ کر بھی وہ حسب سابق کلیتاً تعلیمی و تدریسی مشاغل میں منہمک ہو گئے. چنانچہ یہ تو ضرور ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کئی نئی اور عظیم دینی درس گاہیں پاکستان میں قائم ہو گئیں جن میں قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسول کی صدائیں زور شور سے بلند ہونے لگیں اور اس اعتبار سے یقینا ایک قابل قدر اور بیش قیمت کام سرانجام پا گیا لیکن یہ بھی بجائے خود ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کی ایک بڑی اکثریت کے قلب و دماغ نے قیامِ پاکستان کے بعد حالات میں جو تبدیلی آئی تھی اس سے کوئی اثر قبول نہ کیا اور نہ صرف یہ کہ اس امر کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ انہوں نے قیامِ پاکستان کو کوئی اہم واقعہ سمجھ کر اس کے زیراثر اپنے نقشہ کار حتیٰ کہ اپنے تعلیمی و تدریسی معمولات یہاں تک کہ نصاب ہی میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی ہو‘بلکہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ واقعہ کہ حکومت کی باگ ڈور غیر ملکی اور غیر مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکل کر مسلمان قوم کے اپنے ہاتھ میں آ گئی تھی‘ قطعاً کوئی اہمیت نہ رکھتا تھا اور وہ اپنے ذہنوں میں نئے مسلم حکمرانوں کو بالکل اُسی مقام پر رکھ کر اپنے سابقہ طریق کار پر عمل پیرا رہے جس پر ان سے پہلے کے حکمران تھے. (۱

بدقسمتی سے قومی قیادت کے بعض عناصر او رپاکستان کی مختلف سروسز کے اعلیٰ افسروں کی اکثریت نے مغربی طرزِ فکر اور یورپی طرزِ بود و باش کو جس حد تک اختیار کر لیا تھا اس کے پیش نظر مذہبی طبقات کا یہ طرز عمل کسی حد تک فطری بھی تھا. (۱) چنانچہ ’’شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا‘‘ کے مصداق اس حقیقت واقعی کی شہادت مولاناسیدمحمدیوسف بنوریؒ کی ایک تحریر میںموجود ہے جو اس کتاب کے ضمیمے کے طور پر شائع کی جارہی ہے! بہر نوع ہوایہ کہ قومی قیادت اور مذہبی حلقوں میں جو بعد قیام پاکستان سے پہلے تھا وہ علیٰ حالہٖ قائم رہا اور اجنبیت اور غیریت کے پردے جوں کے توں حائل رہے. اور اگرچہ علماء کی ایک بڑی اکثریت نے اپنے آپ کو سیاسی سرگرمیوں سے دور ہی رکھا لیکن اس مغائرت اوربعد کی بنا پر یہ بہرحال ہوا کہ عدم اطمینان کی ایک کیفیت ان میں مستقل طور پر موجودر ہی جس سے مختلف سیاسی گروہ وقتاً فوقتاً فائدہ اٹھاتے رہے!

رہی جماعت اسلامی جو اُس دور میں احیائے اسلام کی سعی وجہد کے لیے سب سے زیادہ صلاحیت اور استعداد کی حامل تھی تو اس نے پاکستان میں جو طریق کار اختیار کیا وہ اس داستان کا الم ناک ترین باب ہے اور اس کی بدولت اس کی تمام قوتیں اور توانائیاں ایسے تخریبی راستوں پر پڑ گئیں جن سے نہ صرف یہ کہ ملک و ملت کو شدید نقصان پہنچا بلکہ خود اسلام کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں!

۴۰۱۹۳۹ء میں مولانا مودودی مسلمانانِ ہند کی قومی جدوجہد سے یہ کہہ کر علیحدہ ہوئے تھے کہ محض نام کے مسلمانوں کی تنظیم سے اسلامی حکومت کسی طرح قائم نہیں ہو سکتی‘ اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے علمی و فکری اور ذہنی و نظری سطح پر اسلامی انقلاب برپا کیا جائے اور پھر معاشرے میں اخلاقی و عملی تبدیلی اس حد تک پیدا کر دی جائے کہ اس میں کسی جاہلی نظام کا چلنا دشوار ہو جائے.حکومت اور ریاست کی سطح پر کسی واقعی اور پائیدار تبدیلی کی توقع اس کے بعد ہی کی جا سکتی ہے ‘لہٰذا ہم مسلمانوں کی قومی جدوجہد کا ساتھ دینے میں اپنا وقت ضائع اور اپنی منزل کھوٹی کرنے کو تیار نہیں ہیں ‘بلکہ اسی فطری طریق پر عمل پیرا ہو کر پہلے علمی و فکری اور اخلاقی و عملی انقلاب برپا کرنے کی سعی کریں گے چنانچہ قومی تحریک سے علیحدہ ہو کر مولانا نے علمی و فکری سطح پر اسلام کی دعوت دینے اور جو لوگ اسے قبول کر کے اسلام کے اوامر و نواہی کے عملاً پابند ہوتے چلے گئے انہیں ایک تنظیم میں منسلک کرنے کا کام 
شروع کر دیا. 

قیامِ پاکستان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مولانا اپنے اسی طریق پر عمل پیرا رہتے اور جس قدر ممکن ہوتا اپنے اسی کام کی رفتار تیز تر کر دیتے اور اس کے ضمن میں مواقع و وسائل کے اس اضافے سے فائدہ اٹھاتے جو ایک مسلمان مملکت میں متوقع تھا اور جن کے ضمن میں‘ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر آئے ہیں‘ پاکستان کی پہلی قومی حکومت کی جانب سے ہرگز کسی بخل کا مظاہرہ نہیں ہوا تھا! 

لیکن افسوس کہ اس موقع پر ان کی ذہانت نے ایک بالکل ہی نیا پینترا بدلا. چنانچہ اچانک ان کے دل میں اپنی اس ’قوم کا درد‘ اٹھا جس کی قومی جدوجہد کے دوران وہ ایک خاموش تماشائی ہی نہیں رہے تھے بلکہ دور کھڑے ہو کر طنز واستہزاء کے تیر برساتے رہے تھے‘ اور انہوں نے قوم کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے اس کی ’سرپرستی‘ قبول فرما لی اور اس کی رہنمائی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا. مولانا کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں: 


’’… اس لیے جس روز تقسیم ملک کا اعلان ہوا‘ اسی وقت ہم نے سمجھ لیا کہ جیسی بری یا بھلی تعمیر ہم آج تک کر سکے ہیں اب اسی پر اکتفا کرنی ہو گی اور اس قوم کو سنبھالنے کی فوراً کوشش کرنی پڑے گی جو کسی واضح نصب العین کے بغیر اور کسی اخلاقی و اجتماعی صلاح کے بغیر یک لخت با اختیار ہو گئی ہے…‘‘ 

(جماعت اسلامی‘ اس کی تاریخ‘ مقصد اور لائحہ عمل) 
ساتھ ہی وہ ان مطالبات کے ساتھ سیاست کی عین منجدھار میں کود پڑے کہ: 
۱) چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور حصولِ پاکستان کی تحریک اسی مقصد کے تحت چلائی گئی تھی کہ یہاں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی اور چونکہ یہی اس ملک کے نوسوننانوے فی ہزار باشندوں کی دلی خواہش ہے لہٰذا لازم ہے کہ یہاں اسلامی دستور نافذ ہو اور شریعت اسلامی رائج کی جائے . اور

۲) چونکہ مسلمانوں کی قومی قیادت اب تک جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے وہ ایک اسلامی حکومت کو چلانے کی صلاحیت سے عاری ٔمحض ہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ مسند قیادت و سیاست سے دستبردار ہو جائیں اور ایک نئی قیادت کے لیے جگہ خالی کر دیں. 
(۱

اس طرح گویا مولانا مودودی نے احساسِ فرض سے مجبور ہو کر بیک وقت اسلام اور پاکستانی قوم دونوں کی سرپرستی کا ’بوجھ ‘اپنے سر لے لیا!!

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی قومی قیادت بہت سی داخلی و خارجی مشکلات میں مبتلا تھی. ایک طرف ایک بالکل نئی لیکن وسیع و عریض اور انتہائی دور دراز خطوں پر مشتمل سلطنت کے پیچیدہ مسائل و معاملات تھے ‘جن کا حل اور وہ بھی انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں بجائے خود ایک کٹھن مرحلہ تھا‘ پھر اس پر تبادلۂ آبادی اور مہاجرین کی آبادکاری کے مہیب مسائل مستزاد ہو گئے. دوسری طرف بانی ٔپاکستان اور ان کے دست ِراست قیامِ پاکستان کے بعد جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئے. تیسری طرف قومی تحریک میں مخلص‘ بے نفس اور تربیت یافتہ کارکنوں کی کمی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے اور قومی کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت الاٹ منٹوں کے چکر اور پرمٹوں اور لائسنسوں کے حصول یاقوت و اقتدار کی کشمکش میں الجھ کر رہ گئی قومی قیادت کے مخلص عناصر ابھی اس صورت حال سے نپٹنے کی فکر کر ہی رہے تھے کہ مولانا مودودی اپنی مختصر لیکن منظم جمعیت کو لے کر میدان میں آ گئے اور انہوں نے پروپیگنڈے کی ایک مؤثر تکنیک سے ملک بھر میں ایک ہلچل سی پیدا کر دی. چنانچہ قومی 
(۱) واضح رہے کہ یہ کوئی اقتباس نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی کے بعد از قیامِ پاکستان کے موقف کی مختصر ترجمانی ہے. تفصیل کے لیے دیکھئے راقم الحروف کی تالیف ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ.‘‘ قیادت ایک نئے اور پیچیدہ مسئلے سے دوچار ہو گئی!

قومی قیادت کے لیے اس مسئلے کی پیچیدگی کا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ جس اسلام کے نام پر مولانا مودودی سیاست کے میدان میں اترے تھے وہ نہ صرف یہ کہ خود ان کا اپنا دین تھا بلکہ قریبی زمانے میں خود اس نے اسی کے نام پر عوام کے جذبات کو اپیل کیا تھا لہٰذا مولانا مودودی کے ’مطالبہ‘ کا کوئی براہِ راست جو اب اس کے لیے ممکن نہ تھا دوسری طرف اسے یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ صورتِ حال ایسی بنا دی گئی ہے کہ اسلام کی جانب کسی قدم کا اٹھانا مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی ’نئی قیادت‘ کے سامنے پسپائی کے مترادف ہو گا. اس کا ایک بین ثبوت اُس وقت مل بھی گیا جب ’قراردادِمقاصد‘ کو جو اصلاً خود تحریک مسلم لیگ کے مخلص اور دیندار عناصر (خصوصاً مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا ظفر احمد انصاری ؒ 
وغیرہم ) کی کوششوں سے منظور ہوئی تھی‘ جماعت اسلامی نے اپنی ’فتح مبین‘ قرار دے لیا! لہٰذا قومی قیادت نے کچھ لیت و لعل سے کام لینا شروع کیا‘ کچھ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پرہیر پھیر کے راستوں سے حملے شروع کیے اور کبھی کبھی اسلامی دستور و قانون کے نفاذ کے مطالبے کی براہِ راست مخالفت بھی کی اس معاملے میں پاکستان کی سیاست میں جو عجیب الجھائو پیدا ہو گیا تھا اس کا کسی قدر اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ قومی قیادت کی جانب سے اوّل اوّل جو لوگ مولانا مودودی اور جماعت ِ اسلامی کے خلاف دلائل و براہین کے ہتھیار لے کر میدان میں اترے وہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین صاحب جیسے پابند صوم و صلوٰۃ اور دینی درد اور مذہبی جذبہ رکھنے والے لوگ تھے! (۱

گویا جن لوگوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے میں ملک و ملت اور دین و مذہب دونوں کی بھلائی تھی (۱) بعد میں اس صف میں ایک اہم اضافہ مسٹر اے کے بروہی کا ہواجنہوں نے اس شخص کو انعام دینے کا اعلان کیا جو ثابت کر دے کہ قرآن مجید میں کسی دستورِ ملکی کا خاکہ موجود ہے! غلط حکمت ِ عملی کی بنا پر انہی کو دشمنوں کی صف میں لا کھڑا کیا گیا!! اور اسلام کو سیاسی میدان کا ایک مسئلہ بنا کر اُسے اپنے بہترین بہی خواہوں کی سرپرستی سے محروم کر دیا گیا!! 

کاش کہ مولانا مودودی سمجھ سکتے کہ انہوں نے اس طریق کار کو اختیار کر کے اسلام کی راہ میں کیسے کانٹے بو دیے تھے!

’مذہبی سیاست‘ کے اس میدان میں اوّلاً مولانا مودودی نے تنہا اپنے اور اپنی جمعیت کے زورِ بازو کے بل پر چلنے کی کوشش کی. لیکن جلد ہی انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ دوسرے دینی حلقوں کی مدد اور تعاون کے بغیر کامیابی مشکل ہے‘ چنانچہ انہوں نے وقتاً فوقتاً علمائے دین کا اشتراک و تعاون حاصل کرنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ کبھی انہیں اپنے پیچھے لگا کر اور کبھی حالات کا رُخ دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے لگ کر (جیسا کہ اینٹی قادیانی تحریک کے زمانے میں ہوا) ایک ’دینی کیمپ‘ کا تصور پیدا کیا اس کے دو انتہائی مضر نتائج برآمد ہوئے: ایک یہ کہ سیاست کے میدان میں جماعت اسلامی کے ساتھ علمائے دین بھی قومی قیادت کے حریف بن گئے اور رفتہ رفتہ برسراقتدار طبقہ اور ’رجالِ دین‘ دو مخالف و معاند گروہوں کی صورت اختیار کرتے چلے گئے اور دوسرے یہ کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو جدت پسندی اور ازسر تا پیر متحرک متجددیت اور قدامت پرستی اور سراپا جامد مذہبیت کے مابین ایک ’امۃ وسطیٰ‘ کی پوزیشن کو ترک کر کے کلیتاً قدامت پرستی اختیار کرنی پڑی .اور اگرچہ اس کی بنا پر بہت سے دلچسپ تضادات ظہور میں آئے ‘مثلاً یہ کہ اُس شخص کو جو تنہا اپنی ذات پر بھی فقہ حنفی کو پوری طرح نافذ کرنے کو تیار نہ تھا بلکہ اس میں اپنا ’اقول‘ لگانا ضروری خیال کرتا تھا‘یہ موقف اختیار کرنا پڑاکہ دس گیارہ کروڑ افراد کی ایک پوری قوم پر صدیوں پیشتر کی مرتب شدہ فقہ حنفی کو جوں کا توں نافذ 
کر دیا جائے! (۱لیکن مولانا پر جلد از جلد مسند ِحکومت پر پہنچ کر ’قوم‘ اور ’مذہب‘ دونوں کو’سنبھالنے‘ کا جو خبط سوار ہو گیا تھا اس کے پیش نظر یہ قربانیاں بہرحال بہت حقیر تھیں. ؏ 

ہم نے کیا کیا نہ کیا دیدہ و دل کی خاطر! 
(۱) اسی سلسلے کا ایک دلچسپ لطیفہ مولانا داؤد غزنوی مرحوم نے سنایا کہ ایک موقع پر علماء کے ایک مشترکہ بیان پر مولانا مودودی نے ان سے بھی دستخط کرانے چاہے ‘جس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ ملک میں فقہ حنفی رائج کی جائے. مولانادأود غزنوی مرحوم نے فرمایا:’’اس پر میں نے مولانا کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنے قتل کے حکم نامے پر میں خود دستخط کر وں!‘‘