سیاسی افراتفری سے ایوبی آمریت تک

جماعت اسلامی کا رقیبانہ کردار اور علماء کا معاندانہ طرزِ عمل


(’تذکرہ و تبصرہ‘… ’میثاق ‘لاہور. مئی ۱۹۶۷؁)
جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ پاکستان کی قومی قیادت پر عالم نزع تو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی طاری ہو گیا تھا اور وہ خود اپنے داخلی انتشار کی بناء پر‘ جو بیک وقت نظریاتی بھی تھا اور اخلاقی بھی‘ ادھ موئی ہو چکی تھی. اس پر رہی سہی کسر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی تندو تلخ تنقیدوں اور عوام کے مذہبی جذبات کے اشتعال نے پوری کر دی اور قیام پاکستان کے بعد چند ہی سالوں کے اندر اندر وہ مسلم لیگ جو اس کے قیام کا ذریعہ بنی تھی 
نسیاً منسیاً ہو گئی. 

ختم تو مسلم لیگ ازخود بھی ہو ہی جاتی لیکن مولانا مودودی نے مسلمانانِ ہند کی قومی جدوجہد کے عین عروج کے موقع پر اس سے علیحدگی اختیار کر کے قوم کے ساتھ جس ’ہمدردی‘ اور ’خیر خواہی‘ کا ثبوت دیا تھا اسی کا لازمی تقاضا غالباً یہ بھی تھا کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد وہ اپنی مختصر لیکن منظم جمعیت کو لے کر مسلم لیگ کی سرکوبی کے لیے میدان میں آجاتے اور اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے میں بھی بنفس نفیس شرکت فرماتے! ! 

لطف کی بات یہ ہے کہ اُس وقت کی علیحدگی کے لیے تو یہ وجہ جواز پیش کی گئی تھی کہ اسلام کسی بھی ’قوم پرستی‘ کو جائز نہیں ٹھہراتا خواہ وہ ’مسلم قوم پرستی‘ ہی کیوں نہ ہو.لیکن بعداز تقسیم ’لیگ دشمنی‘ اور ’قیادت کشی‘ کے لیے خود بے تکلف مسلم قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ لیا گیا اور نظریہ ٔپاکستان کے سب سے بڑے علمبردار اور پاکستانی قوم کے سب سے بڑے وکیل بن کر قومی قیادت کا محاسبہ شروع کردیا گیا! 
(۱

مولانا کی ذہانت نے یہ اندازہ تو ٹھیک ہی کیا تھا کہ مسلم لیگ کی دم توڑتی ہوئی قیادت پر کاری ضرب لگانے کا یہ بہترین موقع تھا. لیکن آئندہ کے بارے میں جو توقعات انہوں نے قائم کی تھیں وہ نرے سہانے خواب ثابت ہوئیں اور قومی قیادت کے میدان سے ہٹنے پر بجائے اس کے کہ جماعت اسلامی کی ’نئی‘ قیادت کے لیے جگہ خالی ہوتی اُلٹا ’پرانا‘ یونینسٹ اور کانگرسی ذہن میدان سیاست پر قابض ہو گیا 
(۲اور اس نظریۂ پاکستان ہی کی جڑیں کھدنی شروع ہو گئیں جس پر بعد از تقسیم خود مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے سیاسی موقف کی بنیاد رکھ دی تھی دوسر ی طرف تحریک مسلم لیگ نے وقتی طور پر قومی و ملی احساسات کا جو تھوڑا بہت رنگ عوامی طرزِ فکر پر چڑھا دیا تھا اس کے پھیکے پڑتے ہی خالص مفا دپرستی‘ کنبہ و قبیلہ پروری اور اقربانوازی کا دور دورہ ہو گیا اور سیاست کے میدان میں بدترین جوڑ توڑ اور سازشوں کا بازار گرم ہو گیا. 

میدانِ سیاست کے اس اختلال کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر رفتہ رفتہ سروسز کی جانب منتقل ہوتی چلی گئی. (۱) تفصیلات کے لیے دیکھئے ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ.‘‘ (۲) اشارہ ہے ری پبلکن پارٹی اور اس کی حکومت کی جانب! تاآنکہ۱۹۵۸ء میں صدر ایوب نے تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر فوجی حکومت قائم کر دی اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ایک طرف حکومت کا پورا نظم و نسق سروسز کے حوالے کر دیا اور دوسری طرف بنیادی جمہوریت کے نظام کے ذریعے سیاسی حقوق اور اختیارات کو تدریجاً عوام کی جانب منتقل کرنے کا وہی سلسلہ ازسرنو شروع کیا جس پر تقریباً نصف صدی قبل غیر ملکی حکمران عمل پیرا ہوئے تھے گویا پاکستان کی عوامی سیاست ایک دم واپس نصف صدی قبل کے مقام پر پہنچ گئی!ملی اور قومی نقطہ ٔنگاہ سے یہ صورت حال یقینا نہایت تشویشناک اور پریشان کن ہے اور ہر مخلص اور محب وطن پاکستانی کو لازماً اس پر سخت مضطرب اور غمگین ہونا چاہیے ‘لیکن اس حقیقت کو ہر آن پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس کا اصل سبب قوم میں سیاسی شعور کی خطرناک حد تک کمی اور ملی و قومی احساسات کا خوفناک حد تک فقدان ہے! کسی ایک یا چند افراد کے سر اس پوری صورتِ حال کی ذمہ داری تھوپ دینا سیاسی بے بصیرتی کا شاہکار ہے یا علمی خیانت کا! ساتھ ہی یہ موٹی سی بات بھی ہر مخلص پاکستانی کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس کا علاج نہ صدارتی اور پارلیمانی جمہوریت یا بلاواسطہ وبالواسطہ انتخابات کے مسئلوں پر وقتی ہنگامے اٹھانے سے ہو سکتا ہے‘ نہ مینڈکوں کی پنسیری کی طرح کے بالکل انمل بے جوڑ متحدہ محاذوں کے قیام سے! اس صورت حال کی اصلاح کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ بالکل فطری طریق پر عوام میں سے کوئی سیاسی جماعت ایسی اٹھے جو مسلسل محنت و مشقت اور پیہم جدوجہد کے ذریعے ایک طرف ان میں سیاسی شعور اور اپنے بھلے اور برے کی حقیقی پہچان پیدا کرے اور دوسری طرف ایک بڑی تعداد میں ایسے قومی کارکنوں کو تربیت دے کر تیار کرے جو ہر طرح کے مفادات سے صرفِ نظر کر کے خالص اصولوں کے لیے کام کر سکیں اور اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے انتھک محنت و مشقت اور ایثار وقربانی کی صلاحیت رکھتے ہوں. ۱۹۵۱ء میں جب کہ مرحوم مسلم لیگ ابھی موت اور زندگی کی کشمکش ہی میں مبتلا تھی‘ سابق صوبہ پنجاب (۱کے انتخابات میں مولانا مودودی بڑی خود اعتمادی اور آن بان کے ساتھ اور بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کر کے انتہائی بلند و بالا اصولوں کے تحت شریک ہوئے اگرچہ اس موقع پر اس ’قوم‘ نے جس کی سرپرستی انہوں نے ازراہِ نوازش اپنے سابقہ موقف کے سارے تانے بانے کی قربانی دے کر اختیار کی تھی‘ انہیں ایک ایسی دولتی رسید کی جس سے کم از کم ایک بارتوقیادت و سیادت کا سارانشہ ہرن ہو گیا. تاہم اس اصول کے تحت کہ ؏ 

’پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ!‘‘ 

وہ اپنے اصولوں میں مسلسل کانٹ چھانٹ اور طریق کار میں متواتر کتربیونت کر کے انتخابات میں شریک ہوتے رہے ‘لیکن نتیجہ ہر بار الٹا ہی نکلا اور مسند حکومت و اقتدار ’’نظراں توں نیڑے‘‘ ہونے کے باوجود روزبروز ’’قدماں توں دور‘‘ ہوتی چلی گئی. 
(۲

تاہم درمیانی عرصے میں جب پاکستان کی سیاست کا میدان مسلسل اکھاڑ پچھاڑ اور ری پبلکن پارٹی‘ عوامی لیگ اور دوسرے بے شمار نئے اور پرانے سیاسی دھڑوں کی رسہ کشی اور (۱) واضح رہے کہ اس تحریر کی اشاعت کے وقت مغربی پاکستان میں ’’ون یونٹ‘‘ کا نظام قائم تھا. 
(۲) جماعت اسلامی کے حلقے کے پنجابی زبان کے مشہور شاعر عبداللہ شاکر نے انتخاباتِ پنجاب ۱۹۵۱ء کے موقع پر ایک نظم کہی تھی جو مرحوم ’’تسنیم‘‘ کے انتخابات نمبر میں شائع ہوئی تھی. اس نظم میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو ہدفِ طنز و استہزاء بنا کر ان کی شان میں بار بار یہ شعر دہرایا گیا تھا کہ ؎

’’وزارت پنجابے والی لینی ضرور ہے نظراں توں نیڑے نیڑے قدماں توں دُور ہے!‘‘

محض یہ ایک شعر اس بچگانہ خود اعتمادی کی پوری تصویر کشی کر دیتا ہے جو اُس وقت جماعت اسلامی کے پورے حلقے پر طاری تھی… یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں معلوم ہوا کہ ع

’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا!‘‘

چنانچہ انتخابات کے بعد میاں صاحب موصوف ہی وزارتِ علیا کے منصب پر فائز ہوئے. اور جماعت جہاں تھی وہیں رہ گئی.

’’حقیقت میں یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کے دلوں میں نفاق ڈال کر انہیں آپس میں لڑا دیا ہے. خیر کی راہ اب تک اسی شگاف سے نکلی ہے اور آئندہ بھی یہ شگاف جتنا وسیع ہوتا جائے گا خیر کار استہ بھی کشادہ ہوتا چلا جائے گا…‘‘ (ترجمان القران‘ مئی ۱۹۵۶ئ: اشارات) 
جوڑ توڑ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا‘ آئے دن حکومتیں بن اور بگڑ رہی تھیں اور پوری پاکستانی قوم کی تقدیریں صبح و شام بدل رہی تھیں‘ دھندلی سی ایک امید اس بات کی قائم تھی کہ قلزمِ سیاست کے کسی اتار چڑھائو اور مدوجزر کے دوران کیا عجب کہ اتفاقی واقعات و حوادث کا کوئی ریلا’نئی اسلامی قیادت‘ کی ایک بار ایوانِ حکومت تک رسائی کی صورت پیدا کر دے. پھر اپنی تنظیمی قوت کے بل پر مزید ترقی و استحکام کی صورتیں پیدا کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا چنانچہ اس زمانے میں اپنی ایک تحریر میں مولانا مودودی نے افتراق و انتشار کے ’’شگاف‘‘ کو ’’خیر کی راہ‘‘ قرار دیا اور اپنے کچھ مایوس معتقدین کی ہمت یہ کہہ کر باندھنے کی کوشش کی: 

اس اعتبار سے ۱۹۵۸ء کا انقلاب ’خیر کی جملہ راہوں‘ کو یک بارگی مسدود کرنے کا سبب بن گیا اور دُور افق پر ا مید کی جو کرن نظر آیا کرتی تھی دفعتاً وہ بھی معدوم ہو گئی ! 

میدانِ سیاست کی ان پے درپے ناکامیوں سے مولانا مودودی پر شکست خوردہ ذہنیت اور رقیبانہ جذبات کا تسلط ہوتا چلا گیا اور نہ صرف ان کے اور ان کی جماعت کے بلکہ ان کے زیر اثر ایک بہت بڑے حلقے کے لوگوں کے اعصاب میں دائمی جھنجھلاہٹ اور فکر ونظر میں مستقل کجی پیدا ہوتی چلی گئی. نتیجتاً قوم کے طبقہ متوسط کے ایک بہت بڑے حلقے کے لوگوں کا حال یہ ہو گیا کہ ایک طرف تو توازن و استحکام کی حالت میں ان کا دم گھٹنے لگتا ہے اور ملک کے طول و عرض سے کسی بھی قسم کے انتشار و اختلال کی خبر سے ان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے ‘اور دوسری طرف ہر وہ شخص جو کسی وقت لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہو انہیں سراپا برائی اور مجسم شر ہی نہیں بلکہ تمام خرابیوں کا منبع اور ملک و ملت کے سارے مسائل اور تمام مشکلات کا واحد سبب نظر آنے لگتا ہے ‘اور جو کسی بھی ٹوٹی پھوٹی حزب ِ مخالف سے تعلق رکھتا 
ہو ‘قطع نظر اس سے کہ وہ خود ان کے نقطہ نظر سے ملک و ملت اور مذہب و دین دونوں کے لیے کتنی ہی مضر ومہلک ہو ‘وہ خیر ِکل نہ سہی جزوی خیر بہرحال بن جاتا ہے! یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کے تحت مولانا مودودی ایسے بظاہر ٹھنڈے دل و دماغ کے مالک اور متحمل مزاج و بردبار انسان کے منہ سے ایسے غیر متوازن جملے نکلتے ہیں کہ: ’’ایک طرف ایک مرد ہے جس میں سوائے اس کے کہ وہ مرد ہے اور کوئی خوبی نہیں اور دوسری طرف ایک عورت ہے جس میں سوائے اس کے کہ وہ عورت ہے اور کوئی عیب نہیں (۱!‘‘ یا یہ کہ ’’کنونشن لیگ کی جانب سے اگر کوئی فرشتہ بھی انتخابات میں کھڑا ہو گا تو ہم اس کی بھی مخالفت کریں گے!‘‘ وغیرہ وغیرہ. 

جذبہ ٔ رقابت کی یہ فراوانی بلکہ طغیانی اس صورت میں بھی مضر ہوتی اگر مولانا صرف ایک سیاسی لیڈر ہوتے. لیکن ان کی اس حیثیت نے کہ وہ ایک دینی جماعت کے سربراہ اعلیٰ اور خصوصاً سیاست کے میدان میں اسلام کے تنہا اجارہ دار بھی ہیں‘ (۲اس صورت حال کو اسلام کے لیے سخت خطرناک بنا کر رکھ دیا ہے!! 

جس کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے ہو گیا ہے کہ اگرچہ ادھر ایک عرصے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا کوئی باقاعدہ ربط و ضبط علماء کے ساتھ نہیں ہے اور اب غالباً وہ اپنے سیاسی حوصلوں کی تکمیل کے لیے علماء سے اتحاد کو کوئی اہمیت بھی نہیں دیتے‘ بلکہ اس کے برعکس ایک عرصہ سے ان کی ساری نشست و برخاست ان خالص سیاسی لوگوں کے ساتھ ہے
 (۱) مولانا مرحوم نے یہ الفاظ صدر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے تقابل کے ضمن میں کہے تھے!! (۲) واضح رہے یہ تحریر ۱۹۶۷ء کی ہے! جن کی ایک عظیم اکثریت کو (اِلا ماشاء اللہ) دین و مذہب سے عملی لگائو تو دور رہا کوئی لفظی و قولی مناسبت بھی نہیں ہے (۱تاہم یہ ایک امر واقعی ہے کہ ایک طرف مولانا اور جماعت اسلامی علماء کرام کی‘ جدید تعلیم یافتہ طبقے اور خصوصاً اس کی مغرب پرستانہ ثقافت اور طرز بود و باش سے‘ بیزاری کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں.

اور دوسری طرف علماء کرام بھی خالص دینی اعتبار سے خود مولانا سے شدید بیزار ہونے اور ان کے بعض نظریات کو شدید نوعیت کی ضلالت و گمراہی سمجھنے کے باوجود سیاسی میدان میں ان کے مذہبی رول کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں بلکہ ان کے ایک طبقے نے تو گویا اس معاملے میں جماعت اسلامی کی بے ضابطہ قیادت کو عملاً قبول کر لیا ہے اسی طرح اگرچہ اس وقت کوئی باقاعدہ مذہبی کیمپ یا دینی محاذ تو موجود نہیں ہے تاہم مختلف دینی حلقوں اور مذہبی طبقوں کے مابین اتحاد و اتفاق کے مظاہرے وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں (۲جو اس اعتبار سے بہت خوش آئند نظر آتے ہیں کہ ان میں اتحاد و اتفاق کی جھلک نظر آتی ہے ‘لیکن چونکہ اس اتحاد کی بنیاد کسی مثبت تعمیری جذبے کے بجائے خالص منفی طرزِ فکر پر ہے لہٰذا درحقیقت اسلام اور پاکستان میں اس کے مستقبل کے نقطہ ٔنظر سے نہ صرف یہ کہ اس میں افادیت کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ الٹا مضرت و نقصان کا شدید احتمال موجود ہے! اور یہ بات ہر اُس شخص کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے جو پاکستان میں اسلام کے مستقبل سے مخلصانہ دلچسپی رکھتا ہو کہ علمائے کرام کے ایک طبقے کا عمومی عدم اطمینان اور منفی طرزِ عمل اور جماعت اسلامی کی مستقل رقیبانہ جذبات کے ساتھ سیاست کے میدان میں اسلام کی ’سرپرستی‘ سے اس ملک میں اسلام کا مستقبل مخدوش ہوتا چلا جا رہا ہے! (۱) جیسے مرحوم حسین شہید سہروردی وغیرہ.

(۲) جیسے مثلاً ایک عیدالفطر ۶۷ء کے موقع پر اور دوسرے ۶۸ء میں ڈاکٹر فضل الرحمن کے خلاف.