دورِ ایوبی میں حکومت اور مذہبی طبقات کے مابین تصادم

____(۱)____
ہنگامۂ عید
اوائل ۱۹۶۷ء

____(۲)____
ڈاکٹر فضل الرحمن
کی تالیف ’اسلام‘ کی اشاعت
پر دینی حلقوں میں شدید ناراضگی کی لہر
اواخر ۱۹۶۸


ء 

(۱) ہنگامۂ عید __ ایک لمحہ ٔفکریہ

(ماخوذ از ’میثاق‘ مارچ ۱۹۶۷؁)

علامہ اقبال مرحوم تو یہ حسرت ہی لیے اپنے رب کے پاس پہنچ گئے کہ ان کی عید ’’عید ِمحکوماں ہجومِ مومنین‘‘ کے بجائے ’’عید ِآزاداں شکوہِ ملک و دیں‘‘ ہوتی‘ لیکن پوری پاکستانی قوم اس اعتبار سے کچھ زیادہ ہی بدنصیب واقع ہوئی ہے کہ آزادی کے بعد بھی بجائے اس کے کہ اس کی عید ’’شکوہِ ملک و دیں‘‘ کا مظہر بنتی الٹی ’’انتشارِ ملک و دیں‘‘ کی علامت بن کر رہ گئی. اور اس سال یہ معاملہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب ’حکومت ِ ملک‘ ایک طرف اور ’رجالِ دین‘ دوسری طرف ایسے مورچہ بند ہوئے کہ انتشار وافتراق کی حد ہو گئی حتیٰ کہ اکثر لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ ’’اس سال عید ہوئی ہی نہیں!‘‘

’دین‘ کے کچھ ’نادان دوست‘ اس صورت حال پر بغلیں بجاتے رہے ہیں کہ اس سال حکومت کو مکمل مات ہو گئی اور پورے ملک میں ان تمام لوگوں نے جنہیں دین سے ذرا سا بھی لگائو اور تعلق ہے علماء کے فتویٰ پر عمل کیا‘ اور اس طرح یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اس ملک کے عوام دین کے معاملے میں حکومت کے بجائے کلیتاً علماء پر اعتماد کرتے ہیں ہماری رائے میں ان کی اس مسرت سے سوائے اس کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا کہ غالباً یہ حضرات بہت ہی شدید احساسِ کمتری کا شکار ہیں‘ ورنہ وہ آفتاب کے وجود کے لیے خود آفتاب ہی کو دلیل بناتے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے اثر نہ لیتے یہ بات کہ پاکستان کے مسلمان دین کے معاملے میں اصل اعتماد علماء ہی پر کرتے ہیں اور دوسرے کسی بھی 
ادارے کو ان کے مقابلے میں قابل استناد نہیں جانتے‘ ایک پہاڑ جیسی حقیقت ہے اور اس کے ثبوت کے لیے اس قسم کے ادنیٰ مظاہروں سے استناد کی قطعاً کوئی حاجت نہیں ہے!

البتہ ایک دوسرا پہلو ‘جو ہماری رائے میں ان حضرات کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہا ہے اور جس کی طرف توجہ مبذول کرانا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں‘ یہ ہے کہ اس قسم کے مظاہرے ان جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دین سے بیزار اور متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں جن کی تعلیم و تربیت مغربی طرز پر ہوئی ہے. یہ لوگ اگرچہ تعداد کے اعتبار سے یقینا ایک حقیر اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان ہی کے ہاتھ میں اس ملک کی زمامِ کار اور تمام معاملات کی باگ ڈور ہے اور وہی اس کے تمام انتظام و انصرام کے ذمہ دار اور اس کی پوری اجتماعی زندگی کے حوالہ دار ہیں. ان کی ایک بہت بڑی اکثریت دین سے ناواقف ضرور ہے‘ لیکن یہ خیال کرنا کہ یہ دین کے دشمن ہیں اُن کے ساتھ شدید ناانصافی ہی نہیں‘ خود دین اور اس ملک میں اس کے مستقبل کے اعتبار سے پرلے درجے کی کوتاہ بینی اور ناعاقبت اندیشی ہے! دین سے اُن کا بعد براہ راست نتیجہ ہے اس مخصوص ماحول کا جس میں وہ پلے بڑھے ہیں اور اس نظامِ تعلیم کا جس کے تحت انہوں نے علوم و فنون کی تحصیل کی ہے اور ہر اُس شخص یا جماعت کے لیے جسے اس ملک میں اسلام کے مستقبل کے ساتھ کچھ بھی مخلصانہ دلچسپی ہو‘ یہ لازمی ہے کہ وہ ہر ممکن ذریعے سے اس بعد کو کم کرنے کی کوشش کرے اور خصوصاً ایسی صورت سے حتی الامکان اجتناب وا حتراز کرے جس سے اس کے بڑھنے کا اندیشہ ہو!

____________
ہمارے نزدیک یہ صورت حال کسی طرح خوش آئند قرار نہیں دی جا سکتی کہ اس معاملے میں ’حکومت ملک‘ اور’رجال دین‘ نے دو مخالف کیمپوں کی صورت اختیار کر لی تھی. ایک طرف حکومت کے ذمہ دار افسروں‘ برسراقتدار جماعت کے زعماء اور پریس 
ٹرسٹ کے اخبارات نے اس مسئلے پر بیان بازی اور مضمون نگاری کو ایک مستقل مشغلہ بنا لیا اور وہ سارا الزام علماء کو دیتے رہے اور دوسری طرف علماءِ دین اور مذہبی سیاست کے علمبردار اپنے موقف کو درست ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے رہے اور جو کچھ ہوا اس کی پوری ذمہ داری انہوں نے حکومت پر ڈال دی.

ہمارے نزدیک یہ سوال کہ جو کچھ ہوا اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے‘ اوّل تو ہے ہی نہایت غیر اہم‘ اس سے کہیں زیادہ غور و فکر کا مستحق مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ اس مسئلے کا حل کیا ہو اور ایسی صورت حال کا تدارک کیسے کیا جائے دوسرے اس کا صحیح تعین کہ اس کے پیچھے کون کون سے عوامل اور محرکات کام کر رہے تھے‘ ہے بھی بہت مشکل اور خصوصاً یہ تو اندھے تعصب اور گروہی عصبیت کے غلوکے بغیر ناممکن ہے کہ اس معاملے کی پوری ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈال دی جائے.

بادی ٔالنظر میں جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں اوّلاً حکومت کی اس کوتاہی کو دخل ہے کہ اس نے نہ علاقائی بنیاد پر رویت ہلال کا کوئی ایسا بندوبست کیا کہ ’شہادتِ شرعی‘ کے قیام کا اطمینان ہو سکتا اور نہ ہی مرکزی رویت ِ ہلال کمیٹی میں عوام کے معتمد علیہ علماء کو مناسب نمائندگی دی. پھر ایک مزید غلطی یہ ہوئی کہ ریڈیو پر رویت ہلال کا پہلا اعلان بالکل مجمل اور غیر تسلی بخش تھا‘ اور جب تک دوسرا اعلان ہوا‘ اوّل تو اُس وقت تک بے چینی اور بے اطمینانی کی لہر پورے ملک میں دوڑ چکی تھی اور دوسرے وہ بھی قدرے مفصل ہونے کے باوجود پوری طرح اطمینان بخش نہ تھا دوسری طرف واقعہ یہ ہے کہ علماء کے طرز عمل سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ پہلے سے سخت غیر مطمئن تھے‘ اور عدم اطمینان کے اظہار کے لیے انہیں کچھ وجوہ کی ضرورت تھی جو بروقت پوری ہو گئی ہماری رائے میں نہ حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی نیت میں خلل اور فتور قرار دینے کے لیے کوئی وجہ جواز موجود ہے اور نہ ہی ملک کے پورے طول و عرض میں ہر 
طبقہ فکر کے علماء کے فوری (spontaneous) اور یکساں رد عمل اور متفقہ فیصلے کے پیش نظر یہ کہنے کے لیے کوئی بنیاد موجود ہے کہ اس کی پشت پر کوئی سازش کام کر رہی تھی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے سہل انگاری اور بے پروائی سے کام لیا ‘اور علماء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے عمومی عدم اطمینان کو ظہور و خروج کا ایک موقع مل گیا اس سے زیادہ کچھ کہنا ہماری رائے میں حدود سے تجاوز ہے‘ اور جو کوئی بھی ایسا کرے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ اربابِ اقتدار کا ترجمان ہو یا طبقہ ٔعلماء کا نمائندہ وہ خواہ مخواہ حکومت اور علماء کے مابین خلیج کو وسیع و عمیق کرنے کے درپے ہے اور اسے کسی بھی طرح نہ ملک و ملت کی خیر خواہی قرار دیاجا سکتا ہے نہ دین کی.!

اس سلسلے میں ہم حکومت ِ پاکستان اور علمائے کرام دونوں کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں.

صدر ایوب اور حکومت پاکستان کے ذمہ دار افسروں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ آپ حضرات ان معاملات میں ملک کی عظیم اکثریت کے احساسات و جذبات کا مناسب حد تک لحاظ رکھیں اور ان مسائل کو کم از کم اتنی اہمیت ضرور دیں جس کے وہ واقعتاحقدار ہیں اگر کسی وجہ سے آپ کے نزدیک یہ مسائل غیر اہم ہوں یا زندگی کے تلخ تر حقائق اور ملک و ملت کے اہم تر مسائل کے مقابلے میں یہ آپ کو غیر اہم نظر آئیں تب بھی یہ حقیقت تو مسلمہ ہے کہ ملک کے عوام کے نزدیک یہ ان کے دین کا معاملہ ہے اور اس اعتبار سے انتہائی اہم ہے. لہٰذا اس مسئلہ میں آپ کو چاہیے کہ ضلعی سطح پر بھی رویت ہلال کا ایسا بندوبست کریں کہ ’شہادتِ شرعی‘ کے قیام کا اطمینان ہو سکے اور مرکزی رویت ِ ہلال کمیٹی میں بھی ملک کے مختلف دینی فرقوں کے معتمد علیہ علماء کو مناسب نمائندگی دیں اس کے بعد نہ صرف یہ کہ آپ کو اس کا حق حاصل ہو گا بلکہ ہماری دانست میں یہ ضروری بھی ہو گا 
کہ آپ اپنے فیصلے کو جبراً نافذ کریں اور اس کی خلاف ورزی کو قابل تعزیر جرم قرار دیں لیکن اگر کسی وجہ سے آپ اس کھکھیڑ میں نہیں پڑنا چاہتے تو پھر بہتر یہ ہے کہ آپ اس معاملے کو کاملۃً عوام اور ان کے علماء کے حوالے کر دیں. عید کی تعطیلات دو ہی نہیں تین بھی کی جا سکتی ہیں ‘پھر لوگ جانیں اور ان کے معتمد علیہ علماء چاہے وہ ایک عید کریں چاہے دو یا تین‘ حکومت پر اس کی کوئی ذمہ داری نہ ہو گی‘ الغرض یا چناں کن یا چنیں!

علمائے کرام کی خدمت میں ہماری گزارش یہ ہے کہ اگرچہ ہمیں اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم آپ پر ’’جرح‘‘ کریں اور پھر پاسِ ادب بھی مانع ہے‘ تاہم دین اور اس ملک میں اس کے مستقبل سے دلچسپی کی بناء پر ہم آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ:

کیا آپ کے لیے یہ بالکل ناممکن تھا کہ آپ اس معاملے کو خالص قانونی نقطۂ نظر سے دیکھتے کہ ایک مسلمان ملک میں جس کے حکمران بھی مسلمان ہیں (چاہے کسی کے نزدیک وہ کتنے ہی فاسق و فاجر ہوں!) حکومت کے مقرر کردہ ذمہ دار ادارے کی جانب سے اس اعلان پر کہ عید کا چاند ہو گیا ہے خطا و صواب کی ساری ذمہ داری اور عذاب و ثواب کا پورا بوجھ ان پر چھوڑتے ہوئے ‘عید منالی جاتی اور بعد میں اگر وثوق کے ساتھ یہ معلوم ہوتا کہ ایک روزہ رہ گیا ہے تو اس کی قضا دے دی جاتی؟

کیا واقعتا اس معاملے میں نبی اکرم  کے ان ارشادات سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی جو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں جن میں سے ایک میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ: 

اِنَّ خَلِیْلِیْ اَوْصَانِیْ اَنْ اَسْمَعَ وَاُطِیْعَ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا مُجَدَّعَ الْاَطْرَافِ وَاَنْ اُصَلِّیَ الصَّلٰوۃَ لِوَقْتِھَا‘ فَاِنْ اَدْرَکْتَ الْقَوْمَ وَقَــدْ صَلُّوْا کُنْتَ قَــدْ اَحْوَزْتَ صَلاَ تَکَ‘ وَاِلاَّ کَانَتْ لَکَ نَافِلَۃً 
(صحیح مسلم) ’’میرے دوست (نبی  ) نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں صاحب امر کی بات مانوں اور اس کی اطاعت کروں اگرچہ وہ ایک اعضا بریدہ غلام ہو‘ اور نماز کو اس کے وقت پر ادا کروں ‘پھر اگر تو لوگوں کے نماز پڑھ چکنے کے بعد پہنچے تو تو پہلے ہی اپنی نماز محفوظ کر چکا ہو گا ورنہ (ان کے ساتھ) تیری نماز نفل ہو جائے گی.‘‘

برا نہ مانئے!ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ہم لوگ خود اپنے نجی و ذاتی مسائل اور اپنے اپنے حلقے کے لوگوں کے معاملات میں آسانی اور یسرپیدا کرنے کے لیے شریعت اسلامی کی کن کن گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور قانون کی کن آخری حدود تک توسع کی سعی کرتے ہیں! تو کیا ضروری تھا کہ اس معاملے میں فتویٰ کی بجائے تقویٰ ہی کو عمل کی بنیاد بنایا جاتا؟ کیا ملی یکجہتی اور قومی اتحاد کی وقعت آپ حضرات کی نگاہوں میں افراد کی نجی مصلحتوں اور ضرورتوں سے بھی کم ہے ؟ رویت ِ ہلال کے سرکاری انتظامات میں جتنے سقم تھے وہ سب پہلے ہی سے معلوم تھے ؟ تو یا تو آپ کو چاہیے تھا کہ پہلے ہی سے عوام کو خبردار کر دیتے اور خود اپنے طور پر رویت ِہلال کی شہادتوں کے بہم پہنچانے‘ فیصلے پر بروقت پہنچنے‘ اور مناسب وقت تک اس کے اشتہار و اعلان کا بندوبست کرتے یا اگر ان تمام اسقام کے باوجود آپ کے نزدیک رویت ِ ہلال کا سرکاری انتظام کراہت کے آخری درجے ہی میں سہی قابل قبول تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے اعلان کے بعد آپ نے خواہ مخواہ کے تجسس اور چھان بین کی تکلیف کیوں گوارا کی؟ درآں حالیکہ نہ یہ کام آپ کے ذمے تھا اور نہ آپ اس کے لیے تیار تھے!

ہمیں تسلیم ہے کہ آپ دین کے معاملے میں حکومت کے طرزِ عمل کی وجہ سے بالعموم اور بجا طور پر غیر مطمئن ہیں ‘لیکن خدارا اس امر کی اہمیت کا احساس فرمایئے کہ ہم اپنے آپ پر پورا کنٹرول رکھیں اور خبردار رہیں. مبادا ہماری یہ بے اطمینانی بے قابو ہو کر ایسی 
صورتیں پیدا کر دے جو نہ دین کے لیے مفید ہوں نہ ملک و ملت کے لیے! سیاسی جماعتوں کے لیے تو عوام کی بے چینی اور بے اطمینانی‘ چاہے وہ کسی سبب سے ہو‘ بجائے خود ایک رحمت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتی ہیں کہ ایسے مواقع پیدا ہوں جن پر عوام کو برسراقتدار لوگوں کے خلاف مشتعل کیا جا سکے لیکن خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم دین اور دینی مسائل کو بھی گروہی سیاست میں استعمال کرنا شروع کر دیں. اس کے برعکس ہمیں چاہیے کہ اپنی تمام توجہات اس مخلصانہ کوشش پر مرکوز کر دیں کہ مسائل حل ہوں اور باہمی اعتماد کی فضا برقرار رہے!
اس سلسلے میں ہم علمائے کرام کی خدمت میں گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور مندرجہ ذیل دوامور پر کسی متفق علیہ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں!

ایک یہ کہ کیا دین میں اس کی گنجائش موجود ہے کہ بجائے رویت ِ بصری کے قمری تقویم ہی کی بنیاد پر عید منالی جائے ؟ اس سلسلے میں جو ایک بات عوام میں مشہور ہو گئی ہے کہ اکثر عرب ا ور بعض دوسرے مسلمان ممالک میں اسی پر تعامل ہے تو تحقیق کرنی چاہیے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو معلوم کرنا چاہیے کہ وہاں کے علماء کے پاس اس کے حق میں کیا دلائل ہیں.

دوسرے یہ کہ اگر رویت ِ بصری ہی لازمی ہے تو کیا ملک میں کسی ایک مقام پر رویت ِ ہلال کی شرعی شہادت کی بنا پر فاصلوں اور طول بلد اور عرض بلد کا لحاظ کیے بغیر پورے ملک میں عید منائی جا سکتی ہے؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو طے کرنا چاہیے کہ ایک مقام کی رویت کتنے فاصلے تک حجت ہو گی. (اس سلسلے میں پاکستان کے شرقی و غربی خطوں کابعد خصوصاً لائق توجہ ہے!). 
(۱

علماء کرام کا کسی ہنگامی وقت پر ایک منفی مسئلے پر متفق ہو جانا خواہ کتنا ہی خوش آئند نظر آئے‘ دین کا بھلا اگر کسی چیز میں ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی مسئلے کے مثبت حل پر ان کا
 (۱) واضح رہے یہ تحریر ۱۹۶۷ء کی ہے جب مشرقی اور مغربی پاکستان متحد تھے! ’اجماع‘ ہو. اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکے تو ہم کس منہ سے عوام کو (چاہے کسی کے نزدیک وہ کالانعام ہی ہوں!) ملامت کر سکتے ہیں‘ اگر ان کی زبانوں پر علامہ اقبال کا یہ مصرعہ عام ہو جائے کہ؏ 

دین ملا فی سبیل اللہ فساد! 

(۲
ڈاکٹر فضل الرحمن کی تالیف 
’اسلام‘کی اشاعت پر 
دینی حلقوں میں شدید ناراضگی کی لہر


(ماخوذاز ’میثاق‘ اکتوبر ۱۹۶۸؁)
گزشتہ ماہ ڈاکٹر فضل الرحمن 
(۱سابق ڈائریکٹر اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تصنیف ’اسلام‘ کے خلاف جو شدید عوامی ردّ عمل ظاہر ہوا اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو جس بے بسی کے ساتھ اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا‘ اسے بلاخوفِ تردید مذہبی‘ سیاسی اور انتظامی تمام ہی نقطہ ہائے نظر سے پاکستان کی تاریخ کے قریبی دور کا اہم ترین واقعہ قرا ردیا جا سکتا ہے مذہبی اعتبار سے اس لیے کہ معاملہ بنیادی طور پر عوام کے مذہبی اعتقادات سے متعلق تھا اور سیاسی و انتظامی اعتبار سے اس لیے کہ اس نے فی الواقع ایک سیاسی ایجی ٹیشن کی صورت اختیار کر لی تھی اور اس طرح فوری طور پر لاء اینڈ آرڈر اور نظم و نسق کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا. 

عوام کے مذہبی جذبات کا جو فوری اور ہمہ گیر اظہار اس موقع پر ہوا واقعہ یہ ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال۱۹۵۳ء کی اینٹی قادیانی ایجی ٹیشن کے بعد پندرہ سالوں میں نہیں ملتی. عوام کے مذہبی احساسات کا یہ شدید ردّ عمل ایک اعتبار سے خوش آئند اور امیدافزا بھی ہے اور ایک دوسرے نقطہ ٔنظر سے تشویش انگیز بھی. یہ بات بجائے خود تو بہت اچھی ہے کہ 
(۱) جواَب ’مرحومین‘ کی فہرست میں داخل ہو چکے ہیں! پاکستان کے عوام اپنے مذہبی اعتقادات کے تحفظ کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوں اور اس معاملے میں کسی جانب سے بھی کوئی حملہ ہو تو وہ پوری ہمت اور جرأت کے ساتھ سینہ سپر ہونے کو تیار رہیں. لیکن یہ امر کہ ان کا یہ مذہبی جذبہ کسی مسلسل اور پیہم سعی وجہد میں ڈھلنے کے بجائے صرف وقتی اور ہنگامی ایجی ٹیشن کی صورت اختیار کرتا ہے‘ جیسے کہ مذہب ان کے صرف جذبات سے متعلق ہو کر رہ گیا ہو‘ فی نفسہٖ تشویش انگیز اور مایوس کن ہے. اس لیے کہ یہ بہرحال ایک اٹل حقیقت ہے کہ مذہب کا دفاع صرف جذبات کی بنیاد پر وقتی اور ہنگامی تحریکیں اٹھانے سے نہیں ہو سکتا. اس کے لیے محکم عقلی بنیادوں پر مسلسل اور پیہم جدوجہد ناگزیر ہے.

یہ امر مزید افسوس ناک ہے کہ اس موقع پر بعض سیاسی عناصر نے بھی عوام کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی اور اپوزیشن کے بعض حلقوں نے اپنی پرانی عادت کے مطابق اسے ایک سیاسی مسئلہ بنانا چاہا. اس کا ذکر ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنے اس وضاحتی مضمون میں بھی کیا تھا جو لاہور کے ایک انگریزی روز نامے میں شائع ہوا تھااور پھر اپنے استعفے میں بھی کیا ہے. ہماری رائے میں یہ طرزِ عمل نہایت خطرناک ہے‘ اور اپنے اس خیال کو ہم خاص طور پر اس لیے بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ان عناصر کوبزعم خویش جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ انہیں یہ خطرناک کھیل کھیلنے میں جری نہ کر دے. جیساکہ ہم نے اس سے پہلے بھی متعدد بار ان صفحات میں واضح کیا ہے اور اب پھرکسی قدر وضاحت کے ساتھ عرض کریں گے! پاکستان ہی نہیں‘ پورے عالم اسلام میں اس وقت مذہبی اعتبار سے متجد دین اور قدامت پسند لوگوں کے دو حلقے فی الواقع موجود ہیں ‘جن کے طرزِ فکر اور مجموعی مزاج میں بڑا بعد ہے اور جو اکثر معاملات میں ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں. ان کے مابین نزاع کسی ایک مسئلے میں نہیں بلکہ ہمہ گیر ہے اور اس نزاع کا حل سیاسی ہنگاموں سے نہیں بلکہ مستقل افہام و تفہیم اورایک دوسرے کو سمجھنے 
اور سمجھانے ہی سے ممکن ہے. ان اختلافات کے حل کا اصل پلیٹ فارم علمی مجالس ہیں نہ کہ عوامی جلسے اور جلوس. مؤخر الذکر طریقے سے معاملہ اگر سو بار سیدھا ہو سکتا ہے تو ایک بار بالکل الٹا بھی پڑ سکتا ہے اور اس کا نتیجہ کسی کے حق میں بھی مفید نہ ہو گا. (۱

اس موقع پر مقامی وضلعی سطح سے لے کر مرکزی حکومت تک ملک کی پوری انتظامی مشینری کا رویہ بہت قابل داد رہا. خدا کا شکر ہے کہ کسی جگہ سے بھی تشدد کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی. مقامی و ضلعی حکام نے نہایت دانش مندی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا. اور ایک طرف عوام کو یہ اطمینان دلا کر کہ وہ ان کے احساسات و جذبات کو حکومت تک پہنچا دیں گے ان کے جذبات کو مزید مشتعل ہونے سے روکا اور دوسری طرف فی الواقع حکومت کو صحیح صورت حال سے بروقت مطلع بھی کر دیا. نتیجتاً بروقت ایک صحیح اقدام ہو گیا اور صورت حال بگڑنے سے بچ گئی.

اس صورت حال کا تقابل ۱۹۵۳ء سے کیا جائے تو ایک عجیب تضاد سامنے آتا ہے. اُس وقت ملک میں وہ پارلیمانی جمہوریت قائم تھی جس کا ازسر نو احیاء جمہوریت کے اُن علمبرداروں کا مقصد زندگی بن گیا ہے جو موجودہ حکومت کو ’آمرانہ‘ قرار دیتے ہیں. لیکن اُس وقت کی ’جمہوری‘ حکومت نے عوام کے مطالبات کا جواب اینٹ پتھرہی نہیں اشک آور گیس اور گولی سے دیا تھا. اور اُس وقت کی حکمران جماعت کے بعض عناصر نے اس 
(۱۱۹۵۳ء کی اینٹی قادیانی موومنٹ اس کی ایک اہم مثال ہے. آنجہانی غلام احمد قادیانی کی اُمت کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ اگر ٹھنڈے استدلال اور دھیمی اور سہج چال کے ساتھ اور تسلسل و استقلال سے ہوتا تو یقینا اس کے بہتر نتائج نکلتے. لیکن ایک جذباتی و ہنگامی تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی دیر کے لیے تو خوب زور بندھا اور شورو ہنگامہ برپا ہوا لیکن اس کے بعد صورت یہ ہوئی کہ اب اس مسئلے پر بات کرنا بھی ممکن نہیں پھر خاص اس مسئلے کے علاوہ اس تحریک سے جو نقصانات اس ملک کو سیاسی و دستوری اور دینی و مذہبی ہر اعتبار سے پہنچے ان کا تذکرہ تحصیل حاصل ہے .(واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۶۸ء کی ہے اور الحمد للہ ۱۹۷۴ء میں ختم نبوت کی تحریک اُسی اسلوب پر چلی جس کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی.

چنانچہ کسی نہ کسی درجہ میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی!) خالص دینی و مذہبی مسئلے کو بھی اپنی جماعتی سیاست اور اس کے اندرونی جوڑ توڑ اور سازش و ریشہ دوانی کے سلسلے کی ایک کڑی بنانے میں کوئی شرم محسوس نہ کی تھی نتیجتاً ایک عظیم سیاسی شورش برپا ہوئی تھی اوربے اندازہ خون خرابہ ہوا تھا. جس کے نتائج پاکستان کی سیاسی زندگی میں بہت دور رس ثابت ہوئےاس کے بالکل برعکس رویہ موجودہ ’آمرانہ‘ حکومت کا ہے کہ اس نے عوام کے جذبات کے آگے گھٹنے ٹیک دینے میں کوئی عار محسوس نہ کی اور ملک کو خون خرابے سے بچا لیا. اس مسئلے سے قطع نظر کہ اس کا اصل محرک عوامی جذبات و احساسات کا واقعی احترام ہے یا اپنے وقتی سیاسی مصالح‘ یہ امر بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ اگر اِس وقت کے حکمران بھی اسے اپنے ذاتی وقار کا مسئلہ بنا لیتے تو بالکل ۱۹۵۳ء کے سے حالات و واقعات رونما ہو کر رہتے اور ملک میں شدید افراتفری برپا ہوتی ہم حکومت وقت کو مبارک باد دیتے ہیں کہ اُس نے ملک و ملت کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر ایک وقتی سبکی کوبرداشت کر لیا.

اس معاملے میں سب سے زیادہ نقصان ڈاکٹر فضل الرحمن کی ذات کو پہنچا ہے اور ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان پر کسی قدر زیادتی بھی ہوئی ہے. نزاع تو دراصل دو مکاتب فکر اور دو نقطہ ہائے نظر کا تھا یا پھر کسی درجے میں حکومت اور اپوزیشن کا. لیکن چونکہ اس وقت اتفاق سے اُن کی ذات میں یہ دونوں حیثیتیں جمع ہو گئی تھیں کہ وہ دین میں متجددانہ مکتب فکر کے نمائندے اور وکیل کی حیثیت سے بھی سامنے آئے اور ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے بھی‘ لہٰذا تنقید و ملامت کا اصل ہدف وہ بن گئے اور سب سے زیادہ مجروح ان کی شخصیت ہوئی. پھر جیسا کہ ایسے معاملات میں عموماً ہوتا ہے‘ ان کے ساتھ انصاف بھی نہیں کیا گیا. چنانچہ بعض باتیں ان کی جانب غلط بھی منسوب کی گئیں اور ان کے بعض ایسے فقروں کا جو ایک سے زیادہ مفہوموں کے متحمل ہوسکتے تھے‘ ایک خاص متعین مفہوم بھی ان کے سر تھوپا گیا. اور ہنگامے کے شور و شغب میں ان کی تمام وضاحتوں کو بھی نظر انداز کر 
دیا گیا ہمارے ڈاکٹر صاحب سے نہ تو ذاتی مراسم ہیں اور نہ ان سے براہِ راست تبادلہ خیالات کا موقع ہی ہمیں کبھی ملا ہے. (۱لیکن ایک دو مواقع پر انہیں قریب سے دیکھنے اور ان کی گفتگو کو سننے کا موقع ضرور حاصل ہوا ہے‘ اور ہمارے اندازے کے مطابق وہ ایک سنجیدہ طالب علم ہیں. ہماری رائے میں نہ تو ان کی طبیعت میں اسلام کے خلاف ’نشوز‘ پایا جاتا ہے اور نہ ہی یہ خیال درست ہے کہ وہ محض پیٹ پالنے کے لیے دین و ایمان کا سودا کرنے والے لوگوں میں سے ہیں. ایک دینی پرچے میں ان کے بارے میں ایک بہت بڑے عالم دین کا یہ قول دیکھ کر ہمیں دکھ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب تو بس وہی کچھ لکھتے ہیں جس کا اشارہ انہیں ’اوپر‘ سے ملے (اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی !) ہماری رائے میں ’اسلام‘ ڈاکٹر صاحب کے اپنے آزادانہ غور و فکر کا نتیجہ ہے اور اس سے ان کی وسعت ِمطالعہ اور دقت ِ نظر کا بھی کافی ثبوت ملتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ ایک مخصوص تعلیم و تربیت کی بنا پر ان کا نقطہ نظر ایک خاص رخ پر ڈھلتا چلا گیا ہے اور ان کے ذہن پر مغرب کے فکر و فلسفے اور مادہ پرستانہ طرزِ فکر کی چھاپ پڑتی چلی گئی ہے. چنانچہ ان کی تصنیف میں جہاں بہت قیمتی علمی مواد بھی موجود ہے اور بعض نکات بڑے دقیق اور نہایت وقیع بھی ہیں‘ وہاں صاف محسوس ہوتا ہے کہ مادہ پرستانہ نقطہ نظریا زیادہ سے زیادہ ’عقلیت محض‘ اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے اور ’اسلام‘ کا یہ پورا مطالعہ مغربی فکر وفلسفے کی روشنی میں کیا گیا ہے.

لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک ڈاکٹر فضل الرحمن ہی کے ساتھ مخصوص نہیں. ہمارے پڑھے لکھے طبقے کی ایک بڑی اکثریت اسی مرض میں مبتلا ہے اور ہماری قومی و ملی زندگی کے تمام فعال عناصر اسی روگ کا شکار ہیں. ان میں جو جتنا ذہین اور جری ہے وہ اتنا ہی اپنے اصل نظریات و افکار کے ظاہر کرنے میں بے باک ہے. ورنہ 
(۱) راقم الحروف کی ڈاکٹر صاحب موصوف سے پہلی ملاقات شکاگو (امریکہ) میں ۱۹۷۹ء میں ہوئی‘ جس کے بعد متعدد ملاقاتوں میں مفصل تبادلۂ خیال بھی ہوا!! اکثروبیشتر کا اصل نقطۂ نظر فی الواقع یہی ہے اور عقلیت جدیدہ کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں. سرسید مرحوم سے جس مکتب فکر کی بنیاد پڑی تھی اس سے ہمارا سارا ہی تعلیم یافتہ طبقہ شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی سے مرعوبیت نے مغربی فکر و فلسفے کو پوری ملت ِ اسلامیہ کے پڑھے لکھے طبقے کے قلوب واذہان میں راسخ کر دیا ہے. یہ تو خدا بھلا کرے بانیین دیوبند رحمۃ اللہ علیہم کا کہ ان کی کوششوں کی بدولت قال اللہ وقال الرسول کا ڈنکا کم از کم عوامی سطح پر بجتا رہا. اور عوام کے معتقدات و معمولات میں دین و مذہب کا ایک ڈھانچہ محفوظ رہ گیا ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ’’عقلیت ِجدیدہ‘‘ کے اس سیلاب کے آگے کوئی بند تاحال نہیں باندھا جا سکا اور جس کسی نے بھی قال اللہ وقال الرسول کے محفوظ گوشوں سے نکل کر اس سیلاب کی راہ میں آنے کی جرأت کی اسے اکثر و بیشتر خود اپنی متاعِ یقین سے ہاتھ دھو لینے پڑے!

بنابریں ہمارے نزدیک اصل اہمیت شخص فضل الرحمن کی نہیں بلکہ اس مکتب فکر کی ہے جس کی مدلل و مبسوط نمائندگی انہوں نے کی ہے ‘اور اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کی تصنیف ’اسلام‘کی اشاعت کا ایک پہلو مفید بھی ہے. یعنی یہ کہ اس کے ذریعے دین میں تجدد کے علمبرداروں کا پورا مقدمہ اپنے بھرپور اور مکمل استدلال کے ساتھ یک جا سامنے آگیا ہے. اس مکتب فکر کی نمائندگی اس سے پہلے صرف مسٹر غلام احمد پرویز کے ذریعے ہوتی رہی ہے. لیکن ان کی تصنیفات وتالیفات‘ اگرچہ ان کی تعداد بعض دوسرے بسیار نویس اہل قلم کے مانند درجنوں میں ہے‘ کسی محکم و مربوط فلسفے یا ٹھوس علمی و فکری مواد کی حامل نہیں ہیں‘ بلکہ اکثر وبیشتر صرف خطابت‘ انشاپردازی اور جذبات نگاری کا مرقع ہیں اس کے بالکل برعکس معاملہ ’اسلام‘ کا ہے. یہ بظاہر مختصر کتاب ایک متعین فکر پر مبنی ہے اور اس نے اسلام کے اساسی اعتقادات سے لے کر نظام شریعت کی تفصیلی تشکیل تک پورے مسئلے کو ایک خاص نقطہ نظر کے ساتھ مربوط شکل میں پیش کیا ہے اور 
اپنے طرزِ فکر کی تائید وتقویت کے لیے ایک ماہر فن مؤرخ کی طرح اسلام کی پوری تاریخ کا تجزیہ بھی اسی نقطہ ٔنظر سے کر دکھایا ہے اور اس کی عقلی توجیہہ بھی پیش کر دی ہے. گویا کہ اب کی بار تجدد ’’پائے چوبیں‘‘ کے ساتھ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ ’آہنی ٹانگوں‘ کے ساتھ آیا ہے چاہے وہ اغیار سے ہی مستعار لی گئی ہوں. لہٰذا عوام کے لیے تو یہ کافی ہے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ اس کتاب کو ضبط کر لیا جائے. لیکن اہل علم رجالِ دین کو اصل فکر اس علمی و فکری چیلنج کا جواب دینے کی کرنی چاہیے. ہمارے نزدیک یہ وقت کا ایک بہت اہم مطالبہ ہے اور حقیقی عافیت اس سے آنکھیں چرانے میں نہیں بلکہ اس کا مواجہہ (face) کرنے میں ہے.